تحریر: قادر خان یوسفزئی
موجودہ حکومت کا دور اقتدار اختتام پذیر ہوا۔ 15ماہ کی اس حکومت نے بدترین معاشی بحران و سیاسی عدم استحکام کا سامنا کیا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت 9مئی کے ایک قومی سانحے کے نتیجے میں فی الوقت پوری طرح بکھر چکی ہے۔ اتحادی حکومت کے سربراہ وزیر اعظم شہباز شریف کا دور مشکل لیکن نتیجہ خیز رہا ہے۔ وہ اپریل 2022 میں عمران خان کی برطرفی کے بعد اقتدار میں آئے تھے، اور اس کے بعد سے انہیں شدید اقتصادی بحران، سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کا خطرہ سمیت کئی چیلنجز کا سامنا رہا۔ ان چیلنجوں کے باوجود شہباز شریف نے پالیسی سازی میں کچھ اہم فیصلے کیے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا دور ان پر تنقید کے بغیر نہیں گزرا۔ کچھ نے ان پر اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہونے کا مبینہ الزام لگایا، جب کہ سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملکی مسائل کو حل کرنے کے لیے کافی کام نہیں کیا۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے کچھ اہم فیصلے کیے ہیں جن کے پاکستان پر دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے اہم ترین فیصلوں میں سے ایک آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آئوٹ پیکیج پر بات چیت کرنا تھا۔ آئی ایم ایف کا بیل آئوٹ پیکیج پاکستان کی معیشت کے لیے ایک لائف لائن سمجھا جاتا ہے کیونکہ ملک ڈیفالٹ کے قریب پہنچ چکا تھا لیکن اس معاہدے سے کچھ عرصے کے لئے ملکی مالیات میں ریلیف مل سکے گا۔ ان کی حکومت کو متعدد دہشت گرد حملوں اور سیاسی عدم استحکام کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے خود کو ایک لچکدار رہنما کے طور پر ملکی اور عالمی سطح پر اپنا مثبت تاثر متعارف کرایا۔ تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ عجلت میں کی جانے والی قانون سازی اور دیگر اہم فیصلوں سے کیا پاکستان کی معیشت اور جمہوریت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی یا نہیں۔ بادی النظر شہباز شریف ایک پیچیدہ شخصیت ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پاکستانی سیاست میں ایک نمایاں قوت کے حامل بھی ہیں۔ سیاست کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں، مفاہمت کے امکانات اکثر دور دراز کے خواب کی طرح لگتے ہیں۔
حالیہ واقعات نے ایک عجیب و غریب معاملے پر روشنی ڈالی ہے جس نے بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں پاکستان کے سیاسی نظام کے پیچیدہ جال میں جھانکنا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان برسوں سے پاکستانی سیاست میں ایک اہم شخصیت ہیں۔ اقتدار میں ان کے عروج کو عوامی حمایت کی لہر نے ایندھن دیا، کیونکہ انہوں نے تبدیلی لانے اور بدعنوانی سے نمٹنے کا وعدہ کیا تھا تاہم، کسی بھی سیاسی شخصیت کی طرح، تنازعات اور قانونی لڑائیاں ضرور جنم لیتی ہیں۔ شومئی قسمت سے عمران خان کی نااہلی اور سزا مبینہ مالی بے ضابطگی کے ایک مقدمے سے ہوئی، جو پاکستانی سیاست میں بار بار چلنے والا موضوع رہا ہے۔ فرق اس کیس کو سنبھالنے کے طریقے میں ہے۔ مزید برآں عمران خان کی نااہلی اور سزا پر ملے جلے ردعمل کا سامنا ہے۔ اگرچہ کچھ عناصر اسے سیاسی منظر نامے کو صاف کرنے کے لیے ایک ضروری قدم کے طور پر دیکھتے ہیں، دوسروں کا کہنا ہے کہ یہ ان کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے سیاسی طور پر حوصلہ افزائی کیا گیا عمل ہے۔ رائے کا یہ اختلاف سیاست میں مفاہمت کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتا ہے۔
سیاست میں مفاہمت کے لیے انصاف اور معافی کے درمیان نازک توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنے، اصلاح کرنے اور قوم کی عظیم تر بھلائی کے لیے آگے بڑھنے کی خواہش کا تقاضا کرتا ہے۔ تاہم، یہ ایک آسان راستہ نہیں ہے، کیونکہ سیاسی رقابتیں، ذاتی عزائم اور عوامی جذبات اکثر بڑھ جاتے ہیں۔ عمران خان کے معاملے میں ان کی نااہلی اور سزا اس بات کی یاد دہانی کا کام کرتی ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ یہ مستقبل کے سیاست دانوں کے لیے ایک مثال قائم کرتا ہے، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کسی کی مقبولیت یا سیاسی حیثیت سے قطع نظر احتساب کو برقرار رکھا جائے گا۔ یہ، بدلے میں، مفاہمت کے امکانات کو بھی کھولتا ہے، کیونکہ یہ اعتماد اور شفافیت کے ماحول کو فروغ دیتا ہے۔ جب ہم سیاست کی پیچیدہ دنیا میں جاتے ہیں تویہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ مفاہمت کی ایک ہی نوعیت ہر مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہر معاملہ منفرد ہے اور مفاہمت کا راستہ مختلف ہو سکتا ہے۔ تاہم انصاف، احتساب اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے ہم زیادہ ہم آہنگی اور جامع سیاسی منظر نامے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔
عمران خان کی نااہلی اور سزا عدلیہ کے موقف کی وجہ سے دوسرے سیاست دانوں سے الگ ہے۔ اگرچہ سیاست کے اس مرحلے میں مفاہمت کے امکانات مشکل ہیں، لیکن پھر بھی مکمل طور پر دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ ماضی کے تجربات سے سبق سیکھ کر اور انصاف اور جوابدہی کے اصولوں کو اپناتے ہوئے مزید مفاہمت کی طرف جدوجہد کی جا سکتی ہے۔ سیاست کے دائرے میں تبدیلی مستقل ہوتی ہے۔ نگراں حکومت کے قیام اور بروقت عام انتخابات میں آمنا سامنا پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہوگا، دیگر جماعتوں کا مخصوص حلقوں میں اثر نفوذ ہے تاہم وہاں بھی انہیں پی ٹی آئی سے ہی مقابلہ کرنا ہوگا جو ثابت کرے گا کہ عوام کس جماعت کی کارکردگی سے مطمئن ہوکر حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے بعد از سر نو حلقہ بندیوں کی وجہ سے عام انتخابات میں کچھ ہفتوں کی تاخیر سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔