تحریر: قادر خان یوسفزئی
ماہ فروری سے قبل عام انتخابات کے اکھاڑے میں گرم سیاسی ماحول نے تپش کے آثار نمودار کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی اور عدالتوں سے ریلیف کے بعد یہ قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ اقتدار کا ہما پاکستان مسلم لیگ ن کے سر پر بیٹھ سکتا ہے، لیکن یہ بھی واضح حقیقت ہے کہ کوئی ایک جماعت یا تنظیم ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ غالب امکان یہی ہے کہ آئندہ بننے والی حکومت کمزور ہوگی اور اتحادیوں کے کی صف بندیوں کے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت سادہ اکثریت بھی شائد حاصل کر سکے تاہم ایک ایسا اتحاد بنانے کی تیاری ابھی سے شروع ہو گئی ہے جو ووٹرز کی سمت کو نمایاں کرنے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ سیدھے لفظوں میں کہا جائے کہ جتنے بھی اتحاد بننے جا رہے ہیں ، ان کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے ووٹر، سپورٹرز سے ہی ہوگا لیکن اس کے لئے پی ٹی آئی مبینہ الزامات عائد کر رہی ہے کہ اسے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے یکساں مواقع میسر نہیں۔ بالخصوص عمران خان کا سیاسی مستقبل اہمیت کا حامل ہے۔۔
پاکستان مسلم لیگ ( ن) اور متحدہ قومی موومنٹ ( پاکستان) کے درمیان نیا اتحاد سیاسی منظر نامے میں ایک پھر آزمائے ہوئے پتوں کے ساتھ اہم تبدیلی سے گزرنے کی کوشش ہے، اس پیش رفت نے ماہرین اور تجزیہ کاروں کے درمیان بحث چھیڑ دی ہے جو پی پی پی پر ممکنہ اثرات پر غور کر رہے ہیں، جو طویل عرصے سے صوبے میں ایک غالب قوت ہے۔ سیاسی جماعتوں کی سٹریٹجک صف بندی اور شہری علاقوں بالخصوص کراچی اور حیدر آباد میں بدلتی ہوئی حرکیات اس سیاسی گفتگو میں سر فہرست ہیں۔ پی ایم ایل ( این) اور ایم کیو ایم ( پاکستان) کے درمیان اتحاد نے ابرو اٹھائے ہیں، کیونکہ ان جماعتوں کی تاریخی طور پر الگ الگ سیاسی چالیں تھیں۔ تاہم، بدلتے ہوئے منظر نامے، خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف میں پھوٹ کے بعد، سیاسی اتحادوں کی تشکیل نو کا باعث بنی ہے۔ پی ایم ایل (این) کی شہری علاقوں، خاص طور پر کراچی اور حیدر آباد پر توجہ، پاکستا ن پیپلز پارٹی کے غلبے کو چیلنج کرنے کے لیے ایک حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ پی پی پی نے سیاسی حکمت عملی تحت سندھ سے غیر رسمی جلسوں کا شروع کیا ہوا ہے ، اور اپنے بیانیہ میں پی ٹی آئی سے زیادہ اتحادی حکومتی کے شراکت رہنے کے باوجود پی ایم ایل ( این) کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ایم کیو ایم، جو روایتی طور پر شہری سندھ میں ایک اہم ووٹ بینک رکھتی ہے، گزشتہ عام انتخابات میں ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد دوبارہ کنگ میکر بننے کی کوشش کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے ایم کیو ایم کے گڑھ میں داخل ہونے کے بعد، پی ایم ایل ( این) کے ساتھ اتحاد کو ممکنہ گیم چینجر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ شہری ووٹ بینک بہت اہم ہے، اور پی ایم ایل ( این) کا مقصد صوبے میں پی پی پی کے دیرینہ اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کے لیے اس اتحاد سے فائدہ اٹھانا ہے۔ قیاس ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم اتحاد مزید وسعت اختیار کر سکتا ہے، جس میں جمعیت علما اسلام ( ف) اور مسلم لیگ فنکشنل جیسے دیگر سیاسی کھلاڑی شامل ہو سکتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کا رجحان شروع سے ہی پی پی پی کا طرف زیادہ ہے اس لئے پی پی پی اور اے این پی کا اتحاد ی بننا پہلے بھی خاطر خواہ نتائج نہیں لاسکا۔
ایم کیو ایم پاکستان ، پی ایم ایل ( این) اور دیگر سندھ کی قوم پرست چھوٹی جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کے ساتھ وسیع تر اتحاد ممکنہ طور پر ایک مضبوط قوت پیدا کرکے سندھ میں سیاسی منظر نامے کو نئی شکل دے سکتا ہے، جماعت اسلامی کا رجحان علاقائی ایڈجسٹمنٹ تک محدود ہے تاہم پی ٹی آئی سے انتخابی نشست پر اتحاد خارج از امکان نہیں ، سندھ کے روایتی کلچر میں وڈیرا سسٹم ہی حقیقی فیصلہ سازی کرے گا۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہونے کے ناطے بہت زیادہ سیاسی اہمیت رکھتا ہے۔ روایتی طور پر، ایم کیو ایم شہر کی ایک بڑی سیاسی قوت رہی ہے، جو تین دہائیوں سے حکومتوں کی اتحادی ہونے کے باوجود سیاسی مدو جزر کا شکار رہی ہے۔ تاہم، 2018کے انتخابات میں تبدیلی دیکھنے میں آئی کیونکہ پی ٹی آئی نے کراچی میں 21میں سے 14نشستیں جیت کر خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کیں ۔ شہر میں 22نشستوں کے لیے آنے والا مقابلہ شدید ہونے کے لیے تیار ہے، جس میں پی ایم ایل ( این) ایم کیو ایم ( پاکستان) اتحاد کا مقصد کھویا ہوا میدان دوبارہ حاصل کرنا اور پی ٹی آئی کی کامیابیوں کو چیلنج کرنا ہے سندھ میں پی ایم ایل ( این) ایم کیو ایم اتحاد قبل از وقت عام انتخابات کا ابھرنا صوبے کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ جیسے جیسے سیاسی منظر نامے میں تبدیلیاں آتی جارہی ہیں، پی پی پی کو اپنے دیرینہ غلبہ کے لیے ایک زبردست چیلنج کا سامنا ہوگا۔ دیگر جماعتوں کو شامل کرنے کے لیے سٹریٹجک اتحاد کی ممکنہ توسیع پی پی پی کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی ٹھوس کوششوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ کراچی میں آنے والے انتخابات کو قریب سے دیکھا جائے گا، کیونکہ سیاسی جماعتیں پاکستان کے سب سے اہم انتخابی میدان میں بالا دستی کے لیے لڑ رہی ہیں۔ اتحاد کی کامیابی یا ناکامی سندھ کے مستقبل کی سیاسی رفتار کو تشکیل دے گی اور پاکستان کے وسیع تر سیاسی منظر نامے پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔