نومبر 23, 2024

سلیمانیزم

تحریر:سید قمر نقوی

کسی بھی تمدن کی آئیڈیالوجی سمجھنے کیلئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ تمدن کس طرح کے افراد پیدا کر رہا ہے.مثلا مارکسزم کا خواب چغوارا جیسی شخصیت پیدا کرنی ہے.اور اسی طرح لیبرالزم سلی بریٹی یعنی ہر شعبہ میں سوپر اسٹار پیدا کر رہا ہے.تو پھر اسلام کا ماڈل کیا ہے اور یہ کس طرح کے افراد پیدا کرنا چاہتا ہے؟

اسلام انبیاء اور آئمہ علیہ السلام کی مثل افراد اور شہید پیدا کرنا چاہتا ہے.ابھی مارکسزم بہت کم رنگ ہوگیا ہےاور اس کی جگہ بھی لیبرالزم نے بنا لی ہے.پس ابھی ہمارے جوانوں کے پاس دو آپشن ہیں یا س یا ش یعنی یا سلی بریٹی بنیں یا شہید ہوجائیں.

آج ہمارے لی اس سردار شہید کا صرف ایک ماہر افسر ہونا مہم نہیں بلکہ یہ مہم ہے کہ خدا کے توسط سے اس شہید کی اصطناعت ہوئی.قران میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا نے فرمایا اصنعتک لنفسی تمہیں میں نے اپنے لیے بنایا.یہ خود سازی نہیں بلکہ حقیقت میں خدا سازی ہے.ہم کچھ نہیں خدا کوزہ گر کی طرح ہمیں بناتا ہے.خدا کسی کو حضرت موسیٰ ،کسی کو امام حسین علیہ السلام اور کسی کو ایک درجہ انسے نیچے سلیمانی بنا دیتا ہے.

شہید کا ایک عصر اسکی زندگی میں ہے،ایک عصر جنگ میں اور ایک عصر اسکی شہادت کے بعد ہے البتہ اگر اسکے خون کی مدیریت درست ہو جائے.حاج شہید قاسم سلیمانی کے بقول اگر انسان مثل شہید زندگی نہ گزارے شہید دنیا سے نہیں جائے گا.

ہم سب کے وجود میں ایک چراغ جتنا نور پایا جاتا ہے اگر شہید نہ ہوں تو یہ نور خاموش ہو جاتا ہے.لیکن شہید ہوجائیں تو یہ چراغ ایک سورج میں بدل جاتا ہے جسکے نور سے پورا جہان فیض یاب ہوتا ہے.اسکے بعد ہی انسان شہید سردار کی مثل عند ربھم یرزقون کا مصداق بن کر ایک مکتب کی بنیاد ڈالتا ہے.

شہداء کی مناسبت سے ہمیشہ ہمیں تین نکتہ  مدنظر رکھنے چاہئیں.

نکتہ اول:شہدا مصلح اجتماعی ہیں.شہید مطہری کے بقول تاریخ میں دانشور، فقیہ، فیلسوف زیادہ ہیں لیکن مصلح اجتماعی کم ہیں.مصلح اجتماع مفسد اجتماع کے مقابل ہے.معاشرہ یا فاسد ہے یا صالح ہے.قران میں 65 بار الالذین آمنو و عملو الصالحات آیا ہے.

مصلح اجتماعی در اصل وہ ہے جو ہر جگہ اسکی ضرورت ہو فساد کو ختم کرے،اور چاہے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو اپنے شعبہ میں فساد اجتماعی کو ختم کرے تو یہ مصلح اجتماعی ہے۔شہید سردار کی طرح صرف اپنی چند گھنٹوں کی ڈیوٹی نہیں نبھاتے بلکہ جہاں بھی فساد ہے اسے ختم کرنے پہنچتے ہیں.البتہ ذیل میں عرض کرتا چلوں کہ آپ جس فیلڈ میں ہیں اس فیلڈ کا بھی معاشرے کی ضرورت پورا کرنے والا ہونا چاہیے اور اپنی تربیت بھی ہونی چاہیے.

دوسرا نکتہ:ہم خود کچھ نہیں ہماری صنعت سازی خدا کہ توسط سے ہوتی ہے.اگر انسان تربیت اور اپنی صنعت کے بغیر کوئی بھی فکر کرے گا تو انحراف ہوگا.

تیسرا نکتہ:ہم شہید کی طرح کے افراد اپنے معاشرے میں کیسے زیادہ کر سکتے ہیں؟یہ زیادہ والدین پر منحصر ہے.اگر نطفہ پاک ،دودھ پاک اور لقمہ حلال ہوا تو انسان کی اصطناعت تب ہی ممکن ہوپائے گی.اور پھر یہ انسان سب ازم کی وادیوں کو پیچھے چھوڑ کر آنے والوں کیلئے سلیمانیزم سے پہچانا جائے گا.

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

thirteen − 1 =