تحریر: علی سردار سراج
بشار الاسد کی حکومت موافقين اور مخالفین کی توقع سے بھی جلد سقوط کر گئی۔
موافقين کو اندازہ نہ تھا کہ جب وہ غزہ اور لبنان کے دفاع میں لڑ رہے تھے اسی وقت تاریکی میں محور مقاومت کے نقطہ اتصال کو کاٹنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
مخالفین کو یہ اندازہ نہ تھا کہ مقاومت کے مرکزی کردار اس قدر تھک گئے ہوں، یا اپنی دور اندیشی کی بجائے زود رس نتائج کے درپے ہوں،
لہذا دمشق دس دنوں کے اندر سقوط کر گیا اور شام پر بظاہر حکومت مخالف متحارب گرہوں کا قبضہ ہوگیا ۔
اہل سنت دنیا کی اکثریت جو غزہ کے مسئلے میں کنارہ کش رہی یا در پردہ اسرائیل کی حمایت کرتی رہی وہ دمشق کے سقوط کومجاہدین کی فتح سمجھ کر جشن منا رہی ہے۔
یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ یہ خوشی کا مقام تھا یا غم کا؟
لیکن قرین قیاس یہ ہے کہ، یہ فتح نہیں بلکہ سقوط ہے، اور یہ غم کا مقام ہے نہ خوشی کا؛ کیونکہ اس سقوط کے نتیجے میں محور مقاومت کمزور ہو جائے گا جبکہ اسرائیل مزید طاقتور ہو جائے گا اور اسے گریٹر اسرائیل کے قیام سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
یہ بات بہت ہی تأسف آور ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت حتی علما،فرقہ وارانہ سوچ سے باہر نکل کر سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہیں، اس وقت ان کی مثال ان نادان بھائیوں کی سی ہے، جو آپس کی معمولی چپقلش سے نمٹنے کیلئے اپنے مشترکہ دشمن کی پناہ لیتے ہیں اور وہ دشمن ان کو مٹا کر اپنے مقاصد تک پہنچ جاتا ہے۔
اہل سنت دنیا میں ایسے علماء کی کمی نہیں ہے جو تشیع کی مضبوطی کو اہل سنت کے لئے اسرائیل سے بھی زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں اور اس بات کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں؛ لہٰذا وہ غزہ کے قتل عام میں تو خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں لیکن سقوط دمشق میں جشن مناتے ہیں، لیکن بہت جلد سمجھ جائیں گے کہ سقوط دمشق ان کی فتح نہیں بلکہ غزہ کی نابودی کا تسلسل اور اسرائیل کی اپنے شوم اہداف کی طرف پیش قدمی ہے، یہ ایک پیچیدہ اور سمجھ سے بالا تر کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ امریکہ اور اسرائیل کا بیان کردہ منصوبہ ہے جسے وہ” نئے مشرق وسطی “سے تعبیر کرتے ہیں، اس کے باوجود اہل سنت کی اکثریت اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے ؛کیونکہ وہ بغض ایران اور تشیع میں مبتلا ہیں۔
اندھے کو روشنی دکھانا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ یہاں تک کہ غزہ کی مظلومیت ہو یا حزب اللہ لبنان کی قربانیاں ہوں یا حتی اسماعیل ہنیہ، یحیی سنوار ، صفی الدین ہاشمی اور حسن نصر اللہ جیسی کم نظیر شخصیات کی شہادت، بھی انہیں بیدار نہ کر سکی، وہ سقوط دمشق کو اپنی فتح سمجھتے ہیں کیونکہ وہ فرقہ وارانہ سوچ سے باہر نکل کر سوچ نہیں سکتے ہیں، یہ صرف اس وقت متوجہ ہوجائیں گے جب خود اس آگ کی لپیٹ میں آئیں گے، لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوگی۔