نومبر 23, 2024

سعودی عرب میں پہلا شراب خانہ اور علم الکلام کے ماہر

تحریر: یاسر پیر زادہ

سعودی عرب کے شہر ریاض میں ملک کا پہلا شراب خانہ کھولا جا رہا ہے، فی الحال یہ شراب خانہ صرف سفارتی عملے کے لیے ہو گا لیکن شنید ہے کہ مستقبل میں اِس کا دائرہ کار بڑھا دیا جائے گا۔ ملک میں سنیما گھر پہلے ہی کھل چُکے ہیں اور سعودی حکومت 2030 تک مزید 300 سنیما گھر بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ 2018 سے سعودی عرب میں خواتین کے گاڑی چلانے پربھی کوئی پابندی نہیں ہے، اسی طرح گزشتہ چند برسوں میں سعودی خواتین کی راہ میں حائل سفری رکاوٹیں بھی نرم کر دی گئی ہیں، اب عورتیں اپنے سرپرست مرد کے بغیر بیرون ملک سفر کر سکتی ہیں، پاسپورٹ بنوا سکتی ہیں۔ سعودی عرب میں اب مرد و زن کے اختلاط پر بھی کوئی قدغن نہیں، خواتین کھیلوں کے میچ دیکھنے جا سکتی ہیں، موسیقی کی محافل میں شرکت کر سکتی ہیں اور مردوں کے شانہ بشانہ کمپنیوں، بینکوں اور شاپنگ مالز میں ملازمت کر سکتی ہیں۔

مجھے نہیں پتا کہ یہ کون سا اسلام ہے جو برادر اسلامی ملک میں اپنایا جا رہا ہے، اگر اسلام کی یہ تعبیر درست ہے تو کیا وہ تشریح غلط تھی جس کے تحت خواتین کا ڈرائیونگ اور ملازمت کرنا ممنوع تھا؟ اور اگر ’ماضی والا اسلام‘ ٹھیک تھا تو پھر اب شراب خانہ کس شریعت کے تحت کھولا جا رہا ہے؟ اِن سوالوں کے جواب میں جس قسم کی تاویلیں دی جاتی ہیں اُن کا خلاصہ اگر کیا جائے تو اِس قسم کا ہو گا کہ یہ اسلام نہیں بلکہ آمریت اور ملوکیت کے ماڈل ہیں جو برادر ممالک میں رائج ہیں، وہاں بادشاہ کا کہا ہوا حرف آخر ہے جبکہ اسلام میں اللہ کا حکم چلتا ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا، شراب اگر اسلام میں حرام ہے تو اسے کسی شاہی فرمان کے ذریعے حلال نہیں کیا جا سکتا، خواتین کے لیے اگر پردے کا حکم ہے تو اسے یک جنبش قلم کوئی ختم نہیں کر سکتا، عورتوں اور مردوں کے اختلاط کی اگر دین میں ممانعت ہے تو کوئی عالم دین اسے اپنی خواہش کے مطابق بدل نہیں سکتا۔

کچھ لوگ اِن جوابات سے مطمئن ہو جاتے ہیں مگر کچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جو یہ باتیں سننے کے بعد مزید الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر برادر ممالک میں دین درست طریقے سے نافذ نہیں ہے تو کیا ایران، افغانستان اور پاکستان میں صحیح طور سے نافذ ہے؟ اِس سوال کے جواب میں مزید تاویلیں تراشی جاتی ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ نہیں یہ بھی اسلام کی اصل تصویر نہیں، تاہم اصل تصویر کیا ہے، یہ کوئی نہیں سمجھاتا اور نہ اِس بات کا تسلیٰ بخش جواب دے پاتا ہے کہ اگر دنیا میں کہیں بھی اسلام اپنی اصل شکل میں نافذ نہیں تو ایسا کیوں ہے؟ میرا موضوع یہ نہیں کہ اسلام کی درست تعبیر کیا ہے، کہاں نافذ ہے، کیسے نافذ کی جا سکتی ہے، اِس پر پھر کبھی اظہار خیال کروں گا، آج موضوع یہ ہے کہ سوالات کے تسلی بخش جوابات کیوں نہیں ملتے، کہاں ہیں وہ لوگ جو علم الکلام کے ماہر تھے، کہاں گئے وہ عالم دین جن کا بیان سن کر دل مطمئن ہوجاتا تھا اور کہاں ناپید ہو گئے وہ حکما جو اپنی گفتگو سے ہمیں مسحور کر دیتے تھے۔ کیا معاشرے میں کوئی دانا اور صاحب ِ علم باقی نہیں رہا یا پھر نوجوان نسل کی بے چینی اور اضطراب اتنا بڑھ گیا ہے کہ عہدِ حاضر کے علما کی باتوں سے اُن کی تشفی نہیں ہوتی؟

ایک مثال پیش ملاحظہ ہو۔ ایک مذہبی دانشور سے، جن کی فین فالوئنگ گوجر خان سے لے کر ملک کے چاروں کونوں تک پھیلی ہے، کسی نے سوال کیا کہ دین کیوں ضروری ہے، اُس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ اگر آپ دین کو نہیں مانتے تو آپ ایک برے کاروباری ہیں، کیونکہ آپ کو یہ نہیں پتا کہ یہ بڑی مختصر سی دنیا ہے اور آگے کھرب ہا کھرب سال کی نا ختم ہونے والی زندگی ہے جس کا سودا آپ یہاں ساٹھ ستّر سال میں کریں گے، یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اگر آپ اپنے لیے مستقل جہنم کا انتخاب کریں گے تو مجھے کوئی شوق نہیں کہ آپ کو قائل کروں کہ آپ خدا کو ضرور مانیں مگر ایک انسان کے طور پر اگر آپ تاجر پیشہ ہیں یا دانشور ہیں، پڑھے لکھے ہیں، تو سب سے بنیادی بات جو آپ کو پتا ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ اِس مختصر زندگی کی خاطر میں کھرب ہا کھرب کی دائمی زندگی کا سودا نہیں کر سکتا اِس لیے مجھے خدا کی ضرورت ہے۔

محترم دانشور کا بیان تو اِس کے بعد بھی جاری رہتا ہے مگر اُن کی بنیادی دلیل یہی ہے جو انہوں نے دین کی حمایت میں بیان کی ہے۔ جو بات انہوں نے کی وہ بلیز پاسکل نامی فرانسیسی ریاضی دان اور فلسفی آج سے چار سو سال پہلے کر چکا ہے، اُس کی دلیل کو پاسکل ویجر کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق اگر آپ خدا پر ایمان نہیں رکھتے اور روز قیامت خدا کا وجود ثابت ہوجاتا ہے تو آپ ازلی گھاٹے میں رہیں گے اور اگر خدا کا وجود نہ ہوا تو بھی ایک نیک اور صالح زندگی گزارنے سے آپ کا کوئی نقصان نہیں ہو گا، لہذا بہتر یہی ہے کہ خدا پر ایمان رکھتے ہوئے زندگی گزاری جائے۔ اِس دلیل سے دسویں جماعت کا بچہ تو شاید مطمئن ہو جائے مگر سوچنے سمجھنے والے نوجوان کو اگر آپ یوں قائل کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ اُلٹا مزید شکوک و شبہات کا شکار ہو جائے گا۔ پاسکل ویجر میں کئی سقم ہیں، پاسکل چونکہ کیتھولک تھا اِس لیے اُس نے فرض کر لیا کہ قیامت والے دن مسیحی خدا ہو گا جبکہ دنیا میں خدا کے ماننے والے سینکڑوں مذاہب ہیں، یہ دلیل خدا کے وجود کو ثابت نہیں کرتی بلکہ اِس میں انسان سے درخواست پوشیدہ ہے کہ اگر تم دل سے خدا کو نہیں بھی مانتے تو کوئی بات نہیں، صرف یہ ظاہر کرتے رہے کہ تم مانتے ہو، اسی میں تمہارا فائدہ ہے۔ اگر ہمارے حکما کے پاس نوجوانوں کے لیے اِس قسم کا علم الکلام ہی بچا ہے تو پھر دین کا خدا ہی حافظ ہے۔

جدید سائنسی دور میں علم الکلام کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے، مذہب سے متعلق سوالات تو صدیوں پرانے ہیں جن کے جوابات بھی موجود ہیں، مگر سائنس نے گزشتہ سو برسوں میں جو انقلاب برپا کیا ہے اُس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ سائنسی انقلاب نے بہت سے پرانے نظریات کو ملیا میٹ کر دیا ہے، مافوق الفطرت اشیا کے تصور پر کاری ضرب لگائی ہے، انسانوں کے جنسی رجحانات پر سائنسی تحقیق ہوئی ہے جس کے بعد اب ہم جنس پرستی کو لعنت نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح کلوننگ، سرو گیسی، سپرم ڈونیشن اور جنیٹک انجینئرنگ نے ایسے چکرا دینے والے مسائل کو جنم دیا ہے جن کا حل ابھی مغرب کے پاس بھی نہیں، اسی لیے فی الحال اِس قسم کی سائنسی پیش رفت قابو میں ہے، کہیں اِس پر قانون سازی جاری ہے اور کہیں اِس کے اخلاقی پہلو زیر بحث ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج سے سو پچاس سال بعد ، یا اِس سے بھی پہلے، جب انسان کے جینز تبدیل کر کے نیا انسان تخلیق کیا جائے گا تو کیا اُس وقت ہمارے حکما اِس قابل ہوں گے کہ اپنی علم و دانش کے بل بوتے پراُس پیچیدہ صورتحال میں سوالات کے جواب دے سکیں؟ اگر ہماری حکمت کا یہی حال رہا جو آج ہے کہ ہم بنیادی سوالوں کے جواب بھی ایسے نہیں دے پاتے کہ جن سے نوجوان نسل مطمئن ہو جائے تو سو سال بعد جو نسل پیدا ہوگی اُس کی تشفی کیسے ہوگی؟ آج ریاض میں شراب خانہ کھُل رہا ہے، یہ شراب خانہ کابُل میں کیوں نہیں کھل سکتا، آج کے حکما اِس سوال کے جواب سے شروعات کریں، شاید پھر ہم کہیں پہنچ جائیں!

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

three × 1 =