تحریر: قادر خان یوسفزئی
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان، جو خود کو عوامی سیاست کا علمبردار سمجھتے ہیں، ایک عرصے سے سیاست میں اکیلے قدم رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن جب بات بات چیت یا مذاکرات کی آتی ہے تو ان کا موقف ہمیشہ متنازع رہا ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے عمران خان کا جو کردار اب تک سامنے آیا ہے، وہ ہمیشہ ایک سوالیہ نشان بن کر رہا ہے۔ عمران خان کی سیاسی حکمت عملی میں ایک بات بہت واضح ہے، وہ کبھی بھی حکومت کے ساتھ بیٹھنے یا بات کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ ان کے لیے حکومت کی اہمیت تب تک تھی جب تک وہ اقتدار میں تھے، لیکن دوسری سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں سے بات چیت ہمیشہ ایک دشوار راستہ بنی رہی۔
عمران خان نے ہمیشہ یہ تاثر دیا ہے کہ ان کی حکومت کو کوئی اور قوت، اسٹیبلشمنٹ، یا مقتدر حلقے چلاتے ہیں۔ نتیجتاً، انہوں نے ہمیشہ یہی موقف اپنایا کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے بات چیت نہیں کریں گے، بلکہ ان کے مطابق، ان کے حقیقی مذاکراتی پارٹنر وہ طاقتیں ہیں جو اقتدار دلاتی ہیں۔ ان کا یہ انداز نہ صرف سیاست میں ایک گہرے تضاد کا باعث رہا، بلکہ یہ ان کی جماعت کی سیاسی حکمت عملی کے لیے بھی ایک چیلنج ثابت ہوا۔ ان کے فیصلوں کی بار بار تبدیلی اور مذاکرات کے بغیر سیاسی میدان میں اتنا آگے بڑھنا، پی ٹی آئی کے اندر بے یقینی اور کنفیوژن کا باعث بن گیا۔
ان کا ہمیشہ یہ کہنا رہا کہ حکومتوں کے اندر بیٹھے فیصلے کرنے والے افراد حقیقت میں اقتدار کی اصل قوت نہیں ہوتے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ فیصلے اسٹیبلشمنٹ اور ان کے ساتھ جڑے لوگ کرتے ہیں۔ یہ بیانیہ بظاہر آسان اور سیدھا سادا لگتا ہے، مگر اس میں ایک پیچیدگی بھی چھپی ہوئی ہے، جو ان کے فیصلوں کو مزید سوالیہ نشان بناتی ہے۔
اور پھر 23 دسمبر 2024 کو پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان باقاعدہ مذاکرات کی ابتدا ہوئی۔ اگرچہ یہ مذاکرات کسی سنگ میل کی طرح دکھائی دے رہے تھے، لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسی سیاسی صورتحال تھی جس میں دونوں فریقین کے لیے کچھ نہ کچھ تو قربانی کرنی پڑنی تھی۔ پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات میں نرمی اختیار کرتے ہوئے، بنیادی مسائل کو سامنے رکھا، جیسے عمران خان کی رہائی، 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر تحقیقات، اور حکومت سے مذاکرات کی اجازت۔ یہ مطالبات ایک طرف جہاں عمران خان کے سیاسی مستقبل کی طرف اشارہ کرتے ہیں، وہیں پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کی گہرائیوں کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ان مذاکرات کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ صرف ایک سیاسی کھیل ہے جس میں وقت گزارنے کے سوا کچھ نہیں؟ یا پھر یہ واقعی پاکستان کی سیاست کے لیے ایک نیا آغاز بن سکتا ہے؟ پی ٹی آئی نے ایک طویل عرصے تک اپنی سیاست کو اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کے ساتھ تعلقات میں محصور رکھا، اور اب جب حکومت کے ساتھ بیٹھنے کا وقت آیا ہے تو ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی سیاسی حل نکالنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مذاکرات کی ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ رہی ہے۔ لیکن یہ مذاکرات اس لیے اہم ہیں کہ ان کا تعلق صرف عمران خان کی گرفتاری اور ان کے مقدمات سے نہیں، بلکہ پاکستان کی سیاسی اور اقتصادی استحکام سے بھی ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ ایک نیا موقع ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی حکمت عملی کو ایک نئے زاویے سے دیکھے اور اپنے کارکنوں کو ایک نئی تحریک دے۔ دوسری طرف حکومت کے لیے بھی یہ مذاکرات ایک اہم موقع ہیں۔ اس کے ذریعے وہ نہ صرف سیاسی بحران کو حل کر سکتی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی بہتر بنا سکتی ہے۔ حکومت کے لیے یہ مذاکرات ایک موقع ہو سکتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے مطالبات کو تسلیم کر کے اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک نیا توازن قائم کرے۔
پی ٹی آئی کا موقف صاف اور واضح ہے، وہ نہیں چاہتے کہ ان کے سیاسی کارکنان اور رہنماؤں پر مقدمات چلیں، اور وہ چاہتے ہیں کہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا حکومت ان مطالبات کو تسلیم کرے گی؟ کیا وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات واپس لے گی؟ یا پھر یہ مذاکرات ایک اور سیاسی جھگڑے کی طرف لے جائیں گے؟ پی ٹی آئی کی سیاست میں اندرونی اختلافات اور قیادت کا اپنے فیصلوں میں لچک نہ دکھانا ہمیشہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ ان کی قیادت نے ہمیشہ یہی سوچا کہ ان کے فیصلے ہی حتمی ہیں، اور یہ کسی بھی جماعت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ان کے سیاسی فیصلوں کی عدم لچک اور ان کے بیانیے کی یکسانیت نے انہیں ایک طرف کر دیا تھا۔
پاکستان کی سیاست میں اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنی جماعت میں موجود اندرونی اختلافات کو حل کر سکیں گے؟ کیا پی ٹی آئی اپنی داخلی سیاست کو بہتر بنائے گی تاکہ وہ ایک مضبوط جماعت کے طور پر سامنے آ سکے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں میں اختلافات کا ہونا ایک معمول کی بات ہے، لیکن جب وہ اختلافات قیادت کے ساتھ جڑے ہوں تو یہ پورے جماعت کو متاثر کرتے ہیں۔
یہ مذاکرات پی ٹی آئی کے لیے ایک نیا سیاسی منظرنامہ ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے انہیں اپنی سیاسی حکمت عملی کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ سیاسی تحریکیں ہمیشہ ایک مخصوص وقت پر بنتی ہیں اور اسی وقت میں انہیں کامیاب ہونا ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے، مذاکرات کا عمل ضروری ہے۔ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے پاکستان کی سیاست میں نیا توازن آ سکتا ہے۔
یہ تمام سوالات اس بات کو تقویت دیتے ہیں کہ دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا نتیجہ پاکستان کے آئندہ سیاسی اور اقتصادی مستقبل کا تعین کرے گا۔ مذاکرات کا عمل ایک راستہ ہو سکتا ہے، لیکن اس کے کامیاب ہونے کے لیے دونوں فریقین کو اپنی سیاسی حکمت عملی میں لچک دکھانی ہوگی۔ یہ مذاکرات صرف پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کو نہیں، بلکہ پاکستان کی سیاسی اور اقتصادی استحکام کو بھی متاثر کریں گے۔