تحریر: سجاد اظہر
’جب پنجاب کے گورنر کے لیے پارٹی کے اندر لابنگ کی جا رہی تھی تو مجھے دوستوں نے کہا کہ ہم آپ کی لابنگ کرتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ میں نے جہاں لابنگ کرنی تھی کر دی ہے، میں نے یہ عہدہ اللہ سے، اس کے رسول سے اور آلِ رسول سے مانگا ہے کسی اور سے نہ مانگا نہ مانگوں گا۔‘
یہ الفاظ ہیں پنجاب کے نئے گورنر سردار سلیم حیدر کے جو گذشتہ اتوار کو اپنے آبائی گاؤں ڈھرنال ضلع اٹک میں ایک استقبالیہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ڈھرنال تحصیل ہیڈ کوارٹر فتح جنگ سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر فتح جنگ پنڈی گھیب روڈ پر واقع ایک عمومی درجے کا گاؤں ہے۔
کوئی نہیں جانتا تھا کہ آج سے کم و بیش 55 سال پہلے ڈھرنال کے ایک کسان سردار جنگ بہادر خان کے گھرانے میں پیدا ہونے والا یہ بچہ آگے چل کر پنجاب کے گورنر کے عہدے پر فائز ہو جائے گا۔
مگر تاریخ نے یہ منظر دیکھا کہ 30 سالہ سیاسی جدوجہد میں جو شخص صرف ایک بار قومی اسمبلی کا ممبر بن سکا وہ دو بار وفاقی کابینہ کا حصہ بھی بنا اور پھر پنجاب کا گورنر بھی بن گیا۔
یہ سب کیسے ہوا ؟ سردار سلیم حیدر خان کی جدوجہد کن کن نشیب و فراز سے گزری اور اس اہم عہدے تک ان کی رسائی کیسے ہوئی؟
سردار سلیم حیدر خان کے والد سردار جنگ بہادر خان اپنے گاؤں کے اہم کسان ضرور ہیں۔ تاہم علاقے کے بڑے جاگیرداروں میں ان کا شمار نہیں ہوتا۔
سر لیپل ہنری گریفن کی کتاب ’پنجاب چیفس‘ کے مطابق اٹک کے بڑے جاگیردار خاندانوں میں خان محمد اسلم حیات خان آف واہ، سردار محمد نواز خان آف گھیبہ کوٹ فتح خان، ملک غلام محمد خان جودھڑا پنڈی گھیب، خان شیر محمد ساگری مکھڈ، ملک دوست محمد خان کھٹڑ، ملک محمد امین شمس آباد، ملک نواب خان ملل فتح جنگ اور قاضی علی قادر گوندل شامل ہیں۔
سردار جنگ بہادر خان کا تعلق مغل روال برادری سے ہے۔ ضلع اٹک کے گزیٹیئر 1930 جسے اس وقت کے انگریز ڈپٹی کمشنر اٹک سی سی گاربیٹ نے لکھا تھا میں درج ہے کہ ’مغل روال جو عام طور پر گھیبے کہلاتے ہیں وہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود سب سے اہم قبیلہ ہے جس کے لوگ اچھے گھوڑ سوار ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اصلی مغل ہیں۔ فتح جنگ کے سردار نواز خان آف کوٹ فتح خان ان کے قبیلے کے سربراہ ہیں جو ضلع کی بہت معتبر اور شریف شخصیت ہیں۔‘
سر لیپل گریفن کی 1890 میں چھپنے والی کتاب ’پنجاب چیفس‘ میں سردار سر محمد نواز خان آف گھیبہ کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد میں سے کماں خان شہنشاہ اکبر کے عہد میں ہندوستان سے پنڈی گھیب آیا تھا۔
سکھوں کے عہد میں ان کی پنڈی گھیب کے جودھڑوں سے دشمنی رہی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے سردار محمد خان آف کوٹ فتح خان اور ملک غلام محمد جودھڑا کے درمیان صلح کرانے کے لیے انہیں اپنے دربار میں امرتسر بلایا۔ مگر مہاراجہ کی موجودگی میں سردار محمد خان نے غلام محمد خان جودھڑا کو دربار میں ہی قتل کر دیا۔
بعد میں سردار عطر سنگھ جو مہاراجہ کی طرف سے پنڈی گھیب کا ناظم بنا اس نے سردار محمد خان کو دھوکے سے بلا کر قتل کر دیا۔ جس کا انتقام سردار محمد خان کے بیٹے فتح خان نے لیا اور اپنے باپ کے قتل میں شامل تمام افراد کو قتل کر دیا۔
سردار آف کوٹ کی سکھوں کے ساتھ دشمنی ہی وہ وجہ تھی کہ جب انگریزوں نے سکھوں کو راولپنڈی میں شکست دی تو سردار فتح خان ان کے اتحادی تھے جس کے صلے میں انہیں کالا چٹا پہاڑ میں 13,000 ایکٹر رقبہ گھوڑوں اور مویشیوں کی چراہ گاہ کے طور پر دیا گیا اور 1888 میں انہیں خان بہادر کا خطاب بھی دیا گیا۔
ان کے بھائی احمد خان کے پڑپوتے میجر سر محمد نواز خان 1937 کے انتخابات میں پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ اس خاندان کے آخری مشہور سردار ملک عطا محمد خان تھے جو گھوڑ سواری میں عالمی شہرت کے مالک تھے۔
سردار سلیم حیدر کے والد سردار جنگ بہادر خان مغل روال برادری سے تعلق رکھتے ہیں مگر وہ سردار آف کوٹ فتح خان کے رشتہ دار نہیں ہیں لیکن ’پنجاب چیفس‘ کے مطابق ہم قبیلہ ہیں۔
ان کا شمار ڈھرنال کے اہم جاگیرداروں میں ہوتا تھا جو سیاسی طور پر متحرک تھے اور بھٹو دور میں یونین کونسل کی سطح پر انتخابات میں حصہ لیتے رہے۔
ایم ایس ایف سے آغاز اور پیپلز پارٹی میں شمولیت
سردار جنگ بہادر خان اپنے گاؤں ڈھرنال کے اہم کسان تھے جن کے صرف دو بچے تھے۔ ایک بیٹا اور بیٹی۔ سردار سلیم حیدر کے ہمسائے اور ان کے بچپن کے ساتھی عابد حسین عابدی نے بتایا کہ سردار سلیم حیدر کی تربیت میں ان کی ماں کا کردار بہت اہم تھا۔
’وہ بچپن سے ہی انسان دوست قسم کے تھے اور پڑھائی کے ساتھ کرکٹ کے بہت زیادہ شیدائی تھے۔ آل راؤنڈر تھے اور جس ٹیم کی طرف سے کھیلتے تھے اس کی جیت یقینی ہوتی تھی۔‘
عابد حسین عابدی کہتے ہیں کہ ’میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سردار سلیم حیدر سے آج تک کسی کو تکلیف نہیں پہنچی۔ وہ سب کے کام آنے والا انسان ہے جس میں عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔‘
پروفیسر سید نصرت بخاری کی کتاب ’شخصیات اٹک‘ مطبع 2023 کے صفحہ 150 پر سردار سلیم حیدر کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ’انہوں نے ابتدائی تعلیم بورڈنگ سکول تلہ گنگ سے حاصل کی۔ سرسید سکول تلہ گنگ سے میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی سے گریجویشن کی۔ کالج کے زمانے سے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے تین بار صدر منتخب ہوئے۔
’تعلیم سے فراغت کے بعد 1997 میں عملی سیاست میں حصہ لیا۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر ضلع کونسل کی حیثیت سے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اور جھنڈیال کے سردار ظفر اقبال کو شکست دی۔ 2002 کے بلدیاتی انتخابات میں بھی یونین کونسل کے ناظم بنے۔ 2003 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر ق لیگ کے کرنل انور سے ہار گئے۔
’2008 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی بن گئے اور وزیر مملکت برائے دفاعی پیداوار بنائے گئے۔ پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت میں وزیر اعظم کے مشیر برائے اوورسیز پاکستانی رہے۔‘
پروفیسر شیر علی دائم اسلام آباد کے مقامی کالج میں اردو کے استاد ہیں اور سردار سلیم حیدر کے سیاسی رفیق بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بڑے بڑے جاگیرداروں کے علاقے میں سردار سلیم حیدر کی مقبولیت کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ دھڑے کی سیاست کے قائل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ن لیگ نے انہیں ٹکٹ نہیں دیا تو انہوں نے اسے خیرآباد کہہ کر آزاد حیثیت سے لوکل باڈیز الیکشن جیتا اور پھر 1997 میں پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔
’پیپلز پارٹی کا علاقے میں کوئی بڑا ووٹ بینک نہ ہونے کے باوجود حالیہ انتخابات میں انہوں نے 65 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ 2002 میں ق لیگ کی حکومت کے دور میں میجر (ر) طاہر صادق نے ان پر بہت دباؤ ڈلوایا کہ وہ پیپلز پارٹی چھوڑ دیں، ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے مگر وہ ثابت قدم رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ 2008 کے انتخابات میں ممبر قومی اسمبلی بن گئے اور کابینہ میں بھی شامل کر لیے گئے۔
’علاقے کے اہم سیاسی کھلاڑی بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے گئے جن میں ایک اہم نام ریاض خان بالڑہ کا بھی ہے جو بیل دوڑ کے حوالے سے پنجاب بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ میجر طاہر صادق کی اپنی برادری کے لوگ بھی ان کے حسن سلوک کی وجہ سے ان کے ساتھ مل گئے۔‘
معروف کاروباری شخصیت ملک ریاست سدھریال کی ان کے دھڑے میں شمولیت سے بھی ان کا ووٹ بینک بڑھا ہے۔ گذشتہ تینوں عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی نشست جیت نہیں سکے۔ گیلانی حکومت میں جب وہ وزیر مملکت تھے تو انہوں نے فتح جنگ اور حسن ابدال کے 52 دیہات کو سوئی گیس کی سہولت پہنچائی۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی وزیراعظم کے مشیر کی حیثیت سے انہوں نے کافی ترقیاتی کام کروائے۔
سردار سلیم حیدر کی شخصیت میں مذہبی رنگ غالب ہے
سرادر سلیم حیدر جب گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں پڑھتے تھے تو وہ اپنے ماموں کے پاس ٹینچ بھاٹہ میں رہتے تھے۔ ان کے ماموں چونکہ خود نمازی پرہیز گار تھے اس لیے انہوں نے اپنے بھانجے کو بھی صوم و صلواۃ کا پابند بنا دیا۔
پروفیسر شیر علی دائم بتاتے ہیں کہ وہ آج بھی پیر اور جمعرات کا روزہ باقاعدگی سے رکھتے ہیں۔ حج، عمرہ اور زیارات پر بھی جاتے رہتے ہیں اور یہ بات ہمیشہ بتاتے ہیں کہ انہیں جو کچھ بھی ملا ہے وہ ’شاہ نجف حضرت علی کے وسیلے‘ سے ملا ہے۔ ’وہ آل رسول اور صوفیا کے ماننے والے ہیں، عاجزی اور انکساری ان کا بنیادی وصف ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اپنے کارکن کی اتنی عزت کرتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر ہی رک جاتے ہیں۔ علاقے کی ہر غمی خوشی کا حصہ ہوتے ہیں۔ عام آدمی انہیں اپنے قریب تر سمجھتا ہے۔‘
سردار سلیم حیدر کی شادی سابق وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان کی بھانجی سے ہوئی ہے جن سے ان کے تین بچے ہیں۔ ایک بیٹی شادی شدہ ہے، ایک یونیورسٹی میں پڑھتی ہے جبکہ اکلوتے بیٹے سردار فیضان حیدر نے کارڈیف یونیورسٹی برطانیہ سے ماسٹرز کر رکھا ہے اور سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔
سردار سلیم حیدر تقریباً دس ہزار کنال زرعی اراضی کے مالک ہیں مگر ان کی آمدن کا اہم ذریعہ ان کی زمینوں پر آئل فیلڈ کا ہونا ہے۔ ان کے سسرالی خاندان میں جنرل افتخار اور جنرل سلیم ارشد اہم عسکری عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔
انجم قریشی جو سہام راولپنڈی کی ایک سماجی شخصیت ہیں اور سردار سلیم حیدر کے محلے دار ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گورنر پنجاب بننے والے سلیم حیدر ایک درویش صفت انسان ہیں ’جو ہمار ے محلے میں دس مرلے کے گھر میں رہتے ہیں اور سہام روڈ پر ہی شام کو واک کرتے ہیں‘۔
’وہ جب وزیر تھے تب بھی ان کا یہی معمول تھا۔ یہ گھر انہوں نے بچوں کو پڑھانے کے لیے رکھا ہوا تھا اور ویک اینڈ پر وہ اپنے گاؤں چلے جاتے تھے۔‘
کیا گورنر ہاؤس اب ایک عام آدمی کے لیے کھل گیا ہے؟
جس روز انہوں نے گورنر پنجاب کا حلف اٹھایا گورنر ہاؤس کے دروازے عام آدمی کے لیے کھول دیے گئے۔ دعوت نامے کے بغیر جس نے بھی تقریب میں شرکت کرنی چاہی وہ گورنر ہاؤس پہنچ گیا۔ انہوں نے اپنے آبائی گاؤں ڈھرنال میں بھی جلسے سے خطاب میں کہا کہ ’میں نہیں چاہتا کہ آپ لوگ مہنگائی کے اس دور میں کرایہ خرچہ کر کے گورنر ہاؤس آئیں لیکن جو آئے گا اس کے لیے میرے دروازے کھلے ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’اگر پنجاب کے کسی فرد کو کہیں بھی تکلیف ہو گی تو میرا دل گورنر ہاؤس میں دکھے گا۔‘
ممتاز سیاسی تجزیہ کار پروفیسر طاہر ملک نے بتایا کہ یہ حسن صرف پیپلز پارٹی میں ہی ہے کہ کوئی بھی کارکن کسی بھی اعلیٰ عہدے تک پہنچ سکتا ہے۔
ان کے مطابق گورنر ہاؤس میں سردار سلیم حیدر کی موجودگی پورے صوبے میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے جو اب اپنے کسی بھی مسئلے کی شنوائی کے لیے گورنر پنجاب تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔
جنرل سوار خان، جنرل ٹکا خان، چوہدری الطاف، راجہ سروپ خان کے بعد وہ پانچویں گورنر ہیں جن کا تعلق خطہ پوٹھوہار سے ہے۔ سردار سلیم حیدر خان دھیمے مزاج کی شخصیت ہیں اس لیے پنجاب میں ن لیگ کی حکومت بھی ان کے ساتھ آسانی محسوس کرے گی۔
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو