تحریر: بابر فاروقی
گزشتہ دنوں پارہ چنار میں پیش آنے والے المناک سانحے نے ہر حساس دل کو نہ صرف جھنجوڑ کر رکھ دیا بلکہ انسانیت کے سینے میں ایک ایسا خنجر اتار دیا ہے جس کا کرب لفظوں سے ماورا ہے۔
یہ واقعہ دلوں کو چھلنی، روح کو زخمی، اور آنکھوں کو اشک بار کردینے والا ایسا المیہ ہے جس کا غم الفاظ کے دامن میں سمویا نہیں جا سکتا۔ جہاں معصوم جانوں کو بے دردی اور سنگ دلی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ بے گناہ مرد ،عورتیں اور معصوم بچے بھی ان درندوں کی سفاکیت کا شکار ہوئے، اور جہاں ہر خون کا قطرہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہوا ایک گواہی بن کر رہ گیا۔
یہ وہ جگہ تھی جہاں انسانیت کا تذکرہ بھی بزدلی کے نقاب میں چھپ گیا، اور بے گناہ خون کے بہاؤ نے ہر دل کو غم و اضطراب کی شدت میں مبتلا کردیا۔ جہاں زمیں بھی روئی اور آسماں بھی چیخا، مگر یہ آوازیں نہ پہنچیں تو حکمرانوں کے کانوں تک۔ ان بے گناہوں کا خون بہتا رہا، جن کی خاموش چیخیں انسانی ضمیر کو بیدار کرنے کی التجا کرتی رہیں، مگر ان کی بازگشت حکمرانوں کے دلوں تک نہ پہنچی۔ وہ اپنی عیش و عشرت میں محصور ہیں۔
یہ سانحہ نہ صرف ایک انسانی المیہ ہے بلکہ ہمارے ریاستی اداروں اور حکومت کےلیے ایک کھلی ناکامی اور شرم کا مقام ہے۔ یہ خون کی ہولی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ادارے جن پر عوام کی حفاظت کی ذمے داری ہے وہ اپنی بنیادی ذمے داری یعنی عوام کی جان و مال کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں، جو حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے۔
حکومت کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ، امین گنڈاپور کی نظر میں وہ 200 گھرانے، جن کے دل غم کی شدت سے پھٹے جا رہے ہیں، گویا کسی گمنام المیے کا حصہ ہیں۔ ان کے گھروں میں چھائی تاریکی، آنکھوں میں آنسوؤں کی بجھتی چمک، اور چہروں پر چھائی مایوسی کا سناٹا، سب بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے نزدیک صرف ایک ہی درد ہے جیسے حرف عام میں عمرانی درد کہہ سکتے ہیں۔ عوام کی چیخ و پکار ان کے کانوں تک پہنچ کر بھی گم ہوجاتی ہے، جیسے یہ زخم ان کے نہیں کسی اور دنیا کے ہیں، جس کا ان کے دل میں کوئی مقام نہیں۔ بس صرف اقتدار کی خوشبو ہے جو انہیں بہا لے جا رہی ہے۔
جس صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہو اور وزیراعلیٰ کی کرسی پر امین گنڈا پور جیسا شخص بیٹھا ہو، وہاں بے گناہ جانوں کے خون کا حساب عوام کس سے طلب کریں اور کس دروازے پر انصاف کی دہائی دیں۔ مگر گنڈاپور تو گویا صرف عمران خان کی رہائی اور ان کی خوشنودی کو اپنی واحد ذمے داری سمجھ بیٹھے ہیں۔
تو پھر آخر ان معصوم اور بے گناہ لوگوں کا لہو، جو ان 200 گھرانوں پر قیامت بن کر ٹوٹا ہے، کی ذمے داری کون لے گا؟ یا پھر ماضی کی طرح یہ حکومتی ادارے اس قسم کے سانحے کو بس ایک اور روایتی داستان سمجھ کر بھول جائیں گے، جہاں انسانیت کے درد کے مقابلے میں ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہو، اور حکومتی غفلت اور بے حسی کا ایسا دریا بہتا ہو، جس میں معصوموں کا خون شامل ہوتا رہے، اور حکمران اقتدار کی کرسیوں پر بے حس بنے بیٹھے رہیں۔
اب جبکہ پوری قوم نے آنکھوں سے حکومت کی بے حسی اور غفلت کا تماشا دیکھ لیا ہے، ایسے میں ہر مکتبہ فکر کے علمائے کرام پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذمے داری کو پوری قوت سے ادا کریں۔ انہیں اس وقت اپنی علمی اور دینی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے پارہ چنار کے اس المناک سانحے پر ہر مکتبہ فکر کے نمائندوں کو ایک جگہ جمع کرکے جامع حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے، تاکہ آئندہ ایسے غم زدہ اور دل دہلا دینے والے سانحے سے بچا جاسکے۔
یہ نہ صرف ان علما کی فرداً فرداً ذمے داری ہے بلکہ روز قیامت ان سے اس کا حساب بھی لیا جائے گا۔ یہ موقع صرف افسوس، مذمت یا زبانی بیانات کا نہیں، بلکہ عملی طور پر سخت احتساب کا ہے، اور اس واقعے کے مجرموں کو گرفتار کرکے سخت سے سخت سزا دینے کا ہے، جو معاشرے کےلیے باعث عبرت ہو۔ جب تک ہم اجتماعی طور پر نہیں اٹھیں گے، تب تک یہ مسائل بڑھتے جائیں گے۔
اس طرح کے سانحات کا تدارک کرنا اور امن کے قیام کےلیے ضروری اقدامات کرنا ہم سب کا فرض بنتا ہے، کیونکہ ایک بے حس حکومت کے زیرِ سایہ، علمائے حق ہی وہ رہبر ہیں جو معاشرے میں پائیدار امن کی بنیاد رکھ سکتے ہیں، ورنہ یہ یاد رکھیں کہ معصوم جانوں کا اس طرح ضیاع صرف انسانیت کی تذلیل نہیں، بلکہ اللہ کے قہر و غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ایک مسلمان معاشرے میں ایسی خونریزی یہ ثابت کرتی ہے کہ ہم نے نہ صرف اپنی دینی تعلیمات کو بھلا دیا ہے بلکہ اپنی انسانی اقدار کو بھی پیروں تلے روند ڈالا ہے۔
آخر میں صرف اتنا کہوں گا، یہ سانحہ نہ صرف ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے بلکہ ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو ہمارا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ وقت آچکا ہے کہ ہم سب مل کر ایک نئی صبح کی بنیاد رکھیں، جہاں انسانیت کی قدر ہو، امن کی راہیں ہوں، جہاں معصوم جانوں کا خون نہ بہے۔