تحریر: احسان موحدیان
زینگزور راہداری تشکیل دینے کی کوشش ایک طویل تاریخ کی حامل ہے۔ حتی خلافت عثمانیہ کے دور میں بھی اس منصوبے پر کام کیا گیا تھا اور اس کی بنیادی وجہ جنوبی قفقاز کے علاقے سے دلچسپی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے اور روسی اور برطانوی حکام کے درمیان مسلسل جنگ رہتی تھی۔ اتاترک کے دور میں بھی ترکی نے اس کی کوشش کی لیکن اسے کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد یہ منصوبہ ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گیا۔ زینگزور راہداری ترکی کو خطے میں ٹرانزٹ اور انرجی کی تجارت کا مرکز بنا سکتا ہے جس کے نتیجے میں اسے سیاسی برتری بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ اقتصادی لحاظ سے اس کا نتیجہ شمال جنوب راہداری کی اہمیت کم ہو جانے اور آرمینیا اور آذربائیجان کا مشرق مغرب راہداری کا مرکز بن جانے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
آذربائیجان میں صدر الہام علی اف کی سربراہی میں موجودہ حکومت مغرب نواز ہونے کے ناطے مغربی ممالک خاص طور پر اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم سے انتہائی قریبی اور گہرے تعلقات استوار کیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر زینگزور راہداری تشکیل پانے کے نتیجے میں الہام علی اف کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ ایران اور روس کے لیے شدید خطرہ تصور کیا جائے گا۔ علی اف کی حکمرانی میں باکو صرف ایران سے ہی ٹکراو کا شکار نہیں بلکہ روس سے بھی ٹکر لینے میں مصروف ہے جس کا واضح اظہار گذشتہ چند ہفتوں میں ہو چکا ہے۔ آذربائیجان روس میں ایک ایسا مافیا چلا رہا تھا جو روسی صدر ولادیمیر پیوتن پر اثرانداز ہو کر روس کی اقتصادی، سیکورٹی، انٹیلی جنس اور سیاسی سرگرمیوں کو متاثر کرنے کے درپے تھا۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران روس حکومت نے اس مافیا کے خلاف بڑا کریک ڈاون کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زینگزور راہداری کا قیام آرمینیا کی اپنی سرزمین کے اہم حصے پر حاکمیت بھی ختم کر دے گا اور یہ ملک ترکی، آذربائیجان اور امریکہ یا دوسرے الفاظ میں نیٹو کے ہاتھوں کٹھ پتلی میں تبدیل ہو جائے گا۔ یوں آرمینیا کے ٹوٹ جانے کا خطرہ بھی پایا جاتا ہے۔ جنوبی قفقاز میں نیٹو کے کردار میں اضافہ اور اس خطے میں اس کی مستقل موجودگی کا ایک اور نتیجہ بحیرہ احمر کا راستہ بند ہو جانے کے ساتھ ساتھ ایران مخالف قوتوں جیسے نیٹو، تکفیری دہشت گرد عناصر، علیحدگی پسند قوتوں اور صیہونی عناصر کے اکٹھ کی صورت میں بھی ظاہر ہو گا۔ یوں ایران ایک طرح سے ان کے گھیرے میں آ سکتا ہے۔ چونکہ حالیہ جنگ میں اسرائیل اپنی فضائیہ کے ذریعے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پایا لہذا اب وہ ایران پر زمینی حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے جس میں زینگزور راہداری کا کردار بہت اہم ہے۔
قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں شام میں نگران حکومت اور ھیئت تحریر الشام کے سربراہ ابومحمد الجولانی نے آذربائیجان کا دورہ کیا اور الہام علی اف سے ملاقات بھی کی ہے۔ خود علی اف بھی کئی بار البانیہ کا دورہ کر چکا ہے اور وہاں ایم کے او (انقلاب مخالف دہشت گرد تنظیم) کے عناصر سے ملاقات کر چکا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ایران مخالف نیٹ ورک تشکیل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم شام کے جنوبی صوبے سویدا میں بدامنی پھیلا کر شام میں اپنی فوجی مداخلت کا زمینہ ہموار کرنے میں مصروف ہے۔ صیہونی رژیم کا اصل مقصد شام کے جنوب سے ایک راہداری تشکیل دینا ہے جو کردستان کے علاقے تک جا کر اسے ایران کی سرحد سے قریب ہونے کا موقع فراہم کر سکے۔ یوں اسرائیل ایران کی شمال مغربی سرحد تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔
امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم گذشتہ طویل عرصے سے آذری اور کرد باشندوں والے ایران علاقوں میں بدامنی پھیلا کر ایران میں سیکورٹی بحران ایجاد کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اب صیہونی ذرائع ابلاغ میں اعلانیہ طور پر اس منصوبے کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس بات پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ ایران کے بعد ترکی اور پاکستان کی باری ہے۔ یہ تمام تر اقدامات امریکہ کے "گریٹر مڈل ایسٹ” منصوبے کی یاد دلاتی ہیں جس کا مقصد مغربی ایشیائی ممالک کو توڑ کر چھوٹی چھوٹی قومی اور مذہبی ریاستوں میں تقسیم کرنا تھا۔ ایسی صورت میں اسرائیل کی قومی سلامتی کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے مقابلے میں کوئی بڑی طاقت نہیں رہ جائے گی۔ لہذا زینگزور کریڈور کی تکمیل اسی بڑے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ بعض ماہرین اس منصوبے کو 21 ویں صدی کا سائیکس پیکو قرار دے رہے ہیں۔
یہ راہداری درحقیقت اسرائیل کی لاجسٹک سپورٹ میں اہم کردار ادا کرے گی اور اسے گوشہ نشینی سے نکلنے میں مدد دے گی۔ روس کو بھی یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ راہداری دراصل نیٹو کی لاجسٹک سپورٹ میں بھی اہم کردار ادا کرے گی اور علیحدگی پسند عناصر کو بحیرہ کسپین اور مرکزی ایشیا تک منتقل کر دیا جائے گا۔ اس طرح روس اور ایران دونوں کی قومی سلامتی ایک ساتھ خطرے میں پڑ جائے گی۔ چین کو بھی خبردار کرنے کی ضرورت ہے کہ زینگزور راہداری تشکیل پانے کی صورت میں انہیں اس سے بہرہ مند ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ دوسری طرف تکفیری دہشت گرد عناصر کے ذریعے اس کی قومی سلامتی پر بھی وار کیا جائے گا۔ اسی طرح آرمینا سے اقتصادی، سیاسی اور سیکورٹی تعلقات مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔