نومبر 24, 2024

زیارت امام حسین علیہ السّلام کی فضیلت اور فلسفہ

تحریر: رستم عباس

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس نے امام حسین ع کی زیارت کی گویا ایسے ہی ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عرش پہ زیارت کی ہے۔
ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں۔اگر مومن کو معلوم ہوجائے کہ قبر حسین علیہ السّلام کی زیارت کا کتنا ثواب ہے تو مومن اشتیاق و ارزو زیارت امام حسین علیہ السّلام میں جان دے دے۔
امام صادق پھر فرماتے ہیں کہ جو مومن سال میں ایک دفعہ بھی امام حسین علیہ السّلام کی زیارت نہیں کرتا وہ ہمارا شیعہ نہیں اسے غلط فہمی ہے کہ میں آل محمد کا شیعہ ہوں
مومینین روایات فراوان اور بہت عظیم مطالب پر مبنی ہیں۔
آخر کیا وجوہات ہیں کہ امام حسین علیہ السّلام کی زیارت کی اتنی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
اگر مقام و مرتبہ کی وجہ سے تقدس کی وجہ سے یہ فضیلت ہے تو اب افضل ہستی رسول گرامی قدر ہیں۔اور سب سے بڑھ کر خانہ خدا کعبہ ہے جو تمام فضیلتوں کا مرکز ہے۔
لیکن خود رسول خدا کا فرمان ہے جس نے ایک دفعہ حسین علیہ السّلام کی زیارت کی اس کو 90مقبولہ حج کا ثواب ملےگا
کربلا میں امام حسین علیہ السّلام کی زیارت کا اتنا ثواب خدائے حکیم کی حکمت اور تربیر کا حصہ ہے۔
کیوں کہ اس دنیا میں کوئی چیز بھی بغیر اسباب کے وقوع پزیر نہیں ہوتی۔یہ کائنات معجزے سے نہیں چل رہی بلکہ اس کے چلنے میں اسباب داخل ہیں۔اسی طرح جو بھی حادثہ یاواقع رونما ہوتا ہے اس کے پیچھے بھی عوامل اور اسباب ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی اور پھر انسان کو مکمل اختیار دے کر زمین پراتارا دیا۔اچھائی برائی دونوں اس کے نفس میں رکھ دی لیکن انسان کو اپنا حکم ماننے اور اچھائی کا رستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا۔لیکن اللّہ تعالیٰ نےانسان کی رہنمائی کے لیے نے ھدایت کا سلسلہ جاری رکھا یہ ھدایت کرنے والے ھادی ہر گناہ سے پاک اور بہترین ماڈل انسان تھے۔

لیکن تاریخ انسانی گواہ ہے کہ انسان نے ان انبیاء الہی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور ان کو قتل کیا وطن بدر کیا طرح طرح کی اذیتیں دی ہیں۔۔
الہی رستے کو مختلف حیلے بہانوں سے لوگوں کی نظروں سے اوجھل کیا ہے۔
اس وقت جو سب بڑا فکری انحراف بلخصوص شیعہ اور بلعموم تمام عالم میں اسلام ہے وہ تقدیر اور اللہ کی رضا کو ہر معاملے کی بنیاد قرار دینا۔
اور اعمال کی عملی حکمت سمجھنے کی بجائے ثواب کے طمع میں طوطے کی طرح رٹا لگائے رکھنا ہے۔
کسی بھی حادثے پر گفتگو تان یہاں ٹوٹتی ہے او جی اللہ نے لکھا ہی اس طرح سے تھا اللہ کی مرضی کے بغیر بھلا کوئی کام ہوسکتا ہے۔؟؟؟؟
اور یہ کہ عمل کرو اتنا ثواب ملے گا یہ سورہ پڑھو سیدھے جنت میں جاؤگے وغیرہ وغیرہ۔
ان افکار کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان و مومن حادثات و واقعات کے اصلی سبب نہ تلاش کر سکے اور نہ انکے تکرار کو روک سکے۔
بلکہ بنو امیہ نے یہ افکار شدت کے ساتھ عوام کے ذہنوں میں اتارے کہ جو کچھ بھی زمین پر رونما ہوتا ہے اس کا سبب مشیت الہی ہے اور یہ سب اللہ کے حکم سے ہوتا ہے انسان تو ایک مہرہ ہے اصل فاعل اللّہ ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ آج کربلا کے واقع کے 1382سال کے بعد بھی ظلم کا رواج ہے ظالم تخت نشین ہیں اور انسان انکے ظلم کے سامنے بے بس ہے۔
امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرج الشریف پردہ غیبت میں ہیں۔اور شیعہ معجزے کے انتظار میں۔
کہ امام اللہ کی رضا سے غیب ہوئے اب جب اللہ چاہیے گا تو امام حاضر ہو جائیں گے۔ہمارے ذمے صرف یہ ہے کہ کبھی امام کا نام آئے تو عجل اللہ کہ دیں یا نماز کے بعد دعائے فرج پڑھ لیں اس سے آگے اللہ جانے اور اللہ کا کام۔ہمارا کوئی کام بچتا ہی نہیں ہے۔
بھائی عقل نہ تو یہ حماقت ہی ہوگی۔اگر اللہ نے ہی سب کرنا ہوتا اگر امام نے آکر ہی سب فتنے ختم کرنے ہوتے۔تو کیوں اللہ نے امام حسین علیہ السّلام کو شہید ہونے دیا کیوں علی اصغر کے نازک گلے پر تیر لگنے دیا۔کیوں اللہ نےاولاد علی رسول کو بازار بازار پھرانے کی اجازت دی۔اگر معصوم نے آکر معجزے سے سب کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ امام حسین علیہ السّلام کو حکم دیتے آپ بدعا کرو ہم ان کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں
یا اللہ سب کو مسلمان و مومن بنا دیتا کسی نبی کے قتل کا ٹائم ہی نہ اتا۔
بات یہ ہے دوستو اللّہ چاہتا ہے کہ میں نے انسان کو عقل دی ہے اختیار دیا ہے انسان عقل اور اختیار سے اپنے معملات کا حل تلاش کرے۔خود ارتقاء عقلی کرے اور صالحین کی سی سیرت اپنالے اور انکا مددگار بنے۔انسان خود لقاء اللّہ کے مقام تک پہنچے کسی معجزے کے بغیر خود رشد کرے خود ارتقاء کرے اچھائی کے لیے جان مال سبکچھ دینے لیے بذات خود تیار ہو۔قرب الہی کی منزل خود طے کرے۔
تاکہ زمینی اسباب سے حق کو قائم کیا جائے نہ کہ معںجزے سے
اب آئیں یہ جو امام حسین علیہ السّلام کی زیارت کی اتنی فضلیت بیان کی گئ ہے۔اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟؟
اس کی حکمت بڑی واضع ہے کہ اللہ انسان کو کربلا کے قریب کرنا چاہتا ہے اللّہ انسان کو امام حسین علیہ السّلام کے قریب کرنا چاہتا ہے۔خدا چاہتا ہے کہ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ کیسے حق کے قیام کے ہر حد تک جایا جا سکتا ہے۔اور اگر امام حسین علیہ السلام کربلا برپا نہ کرتے تو کچھ بھی نہیں بچنا تھا توحید نبوت اور تمام دین کلعدم ہوجاتا اگر حسین علی اصغر کی قربانی نہ دیتے دین کلعدم ہوجاتا اگر زینب علیا بازاروں میں جا کر خطبے نہ دیتی۔ تو دین اور کربلا دونوں فراموش ہو جاتے کربلا میں امام حسین علیہ السّلام کا قیام یزید کی حکومت کے پراپوگنڈے کے سبب چھپ سکتا تھا۔
زیارت امام حسین علیہ السّلام کے آداب میں ایک بہت اہم ادب و عمل زیارت عاشورہ ہے۔
اس کا ایک جملہ امام حسین علیہ السّلام کی زیارت کا تمام مقصد بیان کرتا ہے اور وہ ہے
یا آبا عبداللہ انی سلم لمن سالمکم وحرب لمن حاربکم
کہ ایے آبا عبداللہ الحسین جس سے آپکی صلح ہے میری بھی اس سے صلح ہے اور جس سے آپ کی جنگ ہے میری بھی اس سے جنگ ہے۔
دوستو امام حسین علیہ السّلام کی کس سے جنگ ہے؟؟؟؟؟؟
امام حسین علیہ السّلام کی یزید اور یزیدیت سے جنگ ہے۔
یزید کی شناخت خود امام نے فرمائی ہے اور فرمایا کہ
بے شک یزید فاسق شرابی قاتل نفس محترمہ اور علانیہ گناہوں کا شوقین ہے مجھ جیسا کبھی اس جیسے کی بیعت نہیں کرے گا۔
آج یزیدیت بھیس بدل کر پورے عروج کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے۔لیکن ہم نے بے بصیرتی کی کالی عینک پہن رکھی ہے ہمیں کچھ نظر نہیں ارہا۔
یزید شریعت خدا اور خود وجود خدا کا منکر ہے۔یزید لامذہب اور مادر پدر آزاد انسان جو کسی بھی روک ٹوک عملاً ختم کرنا چاہتا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یزید تخت حکومت پر تھا۔
اب زرا آئیں اور دیکھیں کیا آج دنیا میں اور ہمارے ملک میں شریعت خدا اور خدا کے قانون کی حکمرانی ہے؟؟؟
یا لبرل سیکولر نام نہاد جمہوریت ہے۔ہمارے ملک میں سیکولر جمہوریت حاکم ہے۔دوسرے معنوں میں نظام یزیدیت کی حکمرانی ہے۔کیوں کہ سیکولر جمہوریت میں خدا کی جگہ نہیں ہوتی۔عوام جو چاہیں کری اس کی درست مثال مغربی معاشرے ہے اور اس کی مستقبل کی مثال ہمارا ملک اور پوری دنیا ہے۔
اگر یزید شریعت کا منکر تھا تو آج آپ دیکھ لیں کہ یزیدیت اور شیطان کے باہمی تعاون سے ایک یزیدی گروہ ممبر رسول پر چھا چکا ہے۔ جو مکلمل طور پر شریعت مصطفی کا منکر ہے۔
مختصراً عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب تک ہم آج کے دور میں آج کے یزید کے خلاف جنگ نہیں کرتے۔اور اللہ کے نظام حکومت کے لیے جدجہد نہیں کرتے معاشرے سے برائی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کرتے تو ہم بھلے سال میں 10دفعہ کربلا ہو کر آجائیں۔ہمارا امام حسین علیہ السّلام سے رتی برابر تعلق نہیں ہے۔
کیوں!!!امام نے برائی سے روکنے اور نیکی کا حکم دینے کے لیے قیام کیا تھا۔
حسینی وہ ہے جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔سب بڑی برائی ناجائز فاسد اور غیر الہی حاکم ہے غیر الہی نظام حکومت ہے۔جو شیعہ نظام حکومت سے اور حاکم سے لاتعلق ہےاور الہی حاکم کے لیے زمین ہموار نہیں کرتا اس کی کسی زیارت کسی عزاءداری اور کسی مجلس کا فائیدہ نہیں ہے۔
کیوں!!!!۔
جو ھجرے میں بیٹھا رہے اور دین خدا شریعت خدا پائمال ہوتی رہے وہ مکی مدنی اور کوفی ہے کربلائی نہیں ہے
اور اللہ فرماتا ہے۔
ایے آبا عبداللہ الحسین میری جنگ ہے اس سے جس سے آپکی جنگ ہے۔میری صلح ہے اس سے جس سے آپ کی صلح ہے
زیارت ایک بہانہ ہے کہ او اور دیکھو ایک سرمشق حسین نے اپنے خون سے لکھی ہے تم جاکر اپنے ملک میں اس مشق کو اسی طرح دوھراو یہ کرو گے تو نجات ملے گی۔ورنہ ھزاروں سال بھی انتظار کرو گے تو مہدی کا ظہور نہیں ہوگا۔

مثلاً آپ واقع کربلا کو دیکھ لیں
ور انسان کی فلاح بہبود کے لیے انبیاء کو مبعوث کیا۔
جس طرح قیام امام حسین علیہ السّلام اللّہ تعالیٰ کی تدبیر اور الہی منصوبے کا حصہ ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

7 + 17 =