تحریر: علی اصغر
پنجاب کے کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے گاوں چلے جائیں ہر جگہ آپ اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ وہاں کے لوگ اپنی مسجد کے امام کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں، پورا گاوں مسجد امام کو استاد جی کہہ کر پکارتا ہے، گاوں کا بڑا زمیندار ہو یا کوئی غریب مزدور سب ہی بہت زیادہ عزت و احترام سے پیش آتے ہیں، ہر گھر کے بچے مسجد امام صاحب کے پاس قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اسی لئے گاوں کا چھوٹا بڑا مولوی صاحب کو جھک کر ملتا ہے، استاد صاحب سے قرآن پڑھنے والا بچہ چاہے کسی بڑے عہدے پہ فائز ہوجائے لیکن پھر بھی جب اس کا سامنا اپنے قرآن پڑھانے والے استاد سے ہوتا ہے وہ فورا جھک کر گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر سلام کرتا ہے، وجہ یہ ہی ہوتی ہے کہ یہی مسجد امام صاحب ہی ہوتے ہیں جو ہمیں بچپن میں ابتدائی دینی تعلیم دیتے ہیں اور عمر کے ساتھ ساتھ ہمیں شرعی مسائل سے روشناس کرتے ہیں، گاوں میں کوئی تقریب ہو مسجد امام صاحب کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے، کسی کا نکاح پڑھانا ہوتو امام صاحب جیسے ہی شادی پہ پہنچتے ہیں سب لوگ اٹھ کر استقبال کرتے ہیں، جنازہ ہو تو سب سے پہلے مولوی صاحب کو مطلع کیا جاتا ہے، ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دلاوں گا کہ ہمارے معاشرے میں صرف مولوی صاحب کو ہی نہیں بلکہ ان کے پورے گھرانے کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،
مولوی صاحب کی بیٹی کو پورا گاوں اپنی بیٹی سمجھتا ہے، جب مسجد امام صاحب کی بیٹی شادی کی عمر کو پہنچتی ہے تو گاوں کا ہر گھر اپنی حیثیت کے مطابق مولوی صاحب کی بیٹی کو تحائف دیتا ہے، رخصتی کے وقت گاوں کی عورتیں مولوی صاحب کی بیوی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں، گاوں کی مرد خود انکی بیٹی کو ڈولی میں بٹھاتے ہیں اور اگر خدانخواستہ مسجد امام صاحب وفات پا جائیں تو ان کی اولاد کو اپنی اولاد کی طرح پالتے ہیں، انکی بیٹی کا ایسے احترام کرتے ہیں جیسے ان کی سگی بیٹی ہو، استاد جی کی بیٹی اگر حالات سے تنگ ہوکر کسی زمیندار کے دروازے پہ جاکر سوال کرے تو گاوں کا زمیندار اپنی پگڑی اتار لیتا ہے کیونکہ اس بات کی حیا آجاتی ہے کہ جس شخص نے اسے قرآن پڑھایا آج اس کی بیٹی میرے در پہ سوالی کھڑی ہے، زمیندار جس قابل ہوتا ہے وہ مولوی صاحب کی بیٹی کی حاجت پوری کرتا ہے۔
دنیا میں ایک شہر ہے جسے پہلے یثرب کہتے تھے، پھر وہاں محمد ابن عبداللہ ص نے اپنا مبارک قدم رکھا تو وہ مدینہ منورہ ہوگیا، وہ محمد ص جو مکہ کی پہاڑیوں میں پیدا ہوئے خدا کے پیارے محبوب بنے، خدا کے پیغام کو پھیلانے کی ذمہ داری ان کے کندھوں پہ آئی تو اپنا آبائی شہر مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ آکر آباد ہوئے، عرب کے بدووں کو جانور سے انسان بنایا، ان وحشی بدووں کو سکھایا کہ بیٹیوں کو قتل نہیں کیا جاتا بلکہ یہ تو رب کی رحمت ہوتی ہیں، جس عرب معاشرے میں عورت کو انسان بھی نا سمجھا جاتا اس معاشرے میں عورت کو باپ کی میراث کا حصہ دار بنایا، جس بیٹی کو زندہ درگور کیا جاتا اس بیٹی کو باپ کے سر کا تاج بنایا، عرب کے وحشت زدہ معاشرے کو پرامن بنانے والے محمد ص عربی کی بیٹی تھیں ان کا نام خدا نے فاطمہ ع رکھا، کہتے ہیں یہ فاطمہ ع اپنے باپ کو اتنی پیاری تھیں کہ نماز فجر کے بعد پیارے آقا ص اپنی بیٹی کے دروازے پہ آکر آیت تطہیر پڑھا کرتے تھے، جب ان کی فاطمہ س اپنے رحمت بھرے قدم صحن مصطفی ص میں رکھتیں تو رحمت للعالمین استقبال کے لئے کھڑے ہوجاتے، بیٹی کا ماتھا چومتے، اور دنیا کو بتاتے کہ فاطمہ ص عالمین کی رحمت کی بھی رحمت ہے، یہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ خبردار اسے ناراض مت کرنا ورنہ میں ناراض ہوجاوں گا، میں ناراض ہوگیا تو اللہ ناراض ہوجائے گا اور جس سے اللہ ناراض ہوجائے بھلا پھر اسکے پلے کیا رہ جاتا ہے؟
سنا ہے نبی ص کی رحلت ہوئی ، وقت بدلا ساتھ لوگ بھی بدل گئے، فاطمہ س سمجھتی تھیں شائد میرے بابا کے بعدمیرا احترام و مرتبہ وہی رہے گا مگر ایسا نا ہوا، چونکہ فاطمہ س اپنے باپ کے جگر کا ٹکڑا تھیں تو بابا ص کی جدائی نے ان کو بھی زخمی کردیا، پسلیاں ٹوٹیں، شانے جلے، دل پھٹا اور چل دیں اپنے بابا کو، جو علی ع مرحب جیسے سورماوں کو چیر ڈالتے، جو علی ع در خیبر کو اکھاڑ دیتے وہ علی ع تنہاء رہ گئے، وہ ابوتراب ع محمد ص کی زخمی سورہ کوثر کو تراب میں چھپانے رات کے اندھیرے میں نکلے، کیونکہ سورہ کوثر کی وصیت ہی یہی تھی کہ جب قرآن کے ورق پھٹ جائیں تو چپ کرکے کسی گمنام جگہ پہ دفنادینے چاہئیں، رات کے اندھیرے میں زخمی شانوں پہ ہاتھ رکھ کر جب تلقین پڑھنے لگے تو دنیا کا سب سے بہادر علی ع ٹوٹ گیا، شائد جلی ہوئی آیت کا خیال آگیا ہو، شائد اپنے تنہاء ہوجانے کا سوچا ہو، یا شائد یہ دل میں گمان آیا ہوکہ آج سورہ کوثر کی ایک آیت ضعیف ہوئی میں نے دفن کردیا میرے بعد باقی آیات کو ننگے سر جب شہر شہر پھرایا جائے گا تو کون بچائے گا؟ آج ایک آیت کی قبر علی ع نے بنا دی سورہ کوثر کی باقی آیات اور تفاسیر کو کون کربلا و شام میں زیر زمین چھپائے گا؟
کبھی کبھی اپنے مسلمان ہونے پہ شرم آتی ہے کہ ہم کیسے منافق مسلمان ہیں ایک گاوں کے مولوی کی اتنی عزت کہ اسکی بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھتے ہیں ، مولوی کے بعد اس کی بیٹی کو اتنا احترام دیتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے رخصت کرتے ہیں، یہ سارا احترام صرف اس لئے کہ مولوی نے چند سال مسجد میں نماز پڑھائی ، قرآن کی تعلیم دی، اور جس محمد ص نے وحشی جانور سے انسان بنایا جس نے کلمہ پڑھا کر مسلمان بنایا اس کی اولاد کے ساتھ کیا کیا؟؟؟؟
کہتے ہیں کہ ہم جو ہر نماز کے بعد تسبیح پڑھتے ہیں اسے تسبیح فاطمہ کہتے ہیں کیونکہ یہ سیدہ فاطمہ بنت محمد سے منسوب ہے، آج اسی تسبیح والی فاطمہ س خود اپنے دوسرے دانوں سے ایسی جدا ہوئی کہ اس کے بعد پوری تسبیح کے دانے بکھر گئے
علی ع نجف
حسن ع بقیع
حسین ع کربلا
اور
زینب س شام
اے محمد ص کی زخمی سورہ کوثر ہم اس دنیا میں بھی گواہی دیتے ہیں اور قبروں سے اٹھتے وقت بھی گواہی دیں گے کہ آپ سچی ہیں ، آپ سچی تھیں کیونکہ آپ سچے باپ کی سچی بیٹی ہیں۔
جو پڑھ لیا زمانے نے وہ مرثیہ حُسینؑ
لکھا نہ جا سکا جو وہ نوحہ ہے فاطمہؑ