تحریر: عمر فاروق
سوشل میڈیا پرمعروف اینکرسید اقرارالحسن اور پیرحق خطیب حسین کے درمیان معرکہ آرائی جاری ہے اس معرکے کا انجام کیا ہو گا یہ تو آنے والا وقت ہی فیصلہ کرے گا البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ روحانی علاج اور شعبدہ بازی کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کی جائیں کیوں کہ بہت سے لوگ دونوں چیزوں کو خلط ملط کر رہے ہیں اور جعلی پیروں و عاملوں کے نام پر تصوف ،اولیاء اور بزرگان دین کے خلاف بھی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں ۔
سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ انسان کے جسم میں دوطرح کی بیماریاں ہوتی ہیں جسمانی وروحانی ،جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے ہومیوپیتھک ،ایلوپیتھک کے طریقے صدیوں سے رائج ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں جدت بھی آتی جارہی ہے جبکہ روحانی بیماریوں کے علاج کوعملیات کہتے ہیں اس کادوسرا نام رقیہ شرعی ہے ۔
ایک دورتھا کہ ہمارے اسلاف نے دینی مدارس کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کوسدھارنے اورروحانی بیماریوں کے علاج کے لیے خانقاہیں بنائیں جہاں لوگوں کی اصلاح نفس کے لیے مرشدکامل اللہ کاذکراوروظائف کی تلقین کرتے تھے معرفت حق کے لیے ریاضتیں کرواتے تھے ،ضرورت کے مطابق چلہ کشی بھی کرواتے تھے ۔اس حوالے سے انڈیا کے مشہور عالم مولاناحفظ الرحمن اپنی کتاب ٫٫عملیات کے بنیادی اصول،، میں لکھتے ہیں کہ مدارس سے جب طلباء علوم وفنون کی تکمیل سے فارغ ہوجاتے تھے توان کوہدایت ہوتی تھی کہ وہ خانقاہوں میں جاکرعلم نبوی کواستعمال کرنے کی تربیت حاصل کریں نفس کومانجھیں یہاں تک کہ نفس امارہ نفس مطمئنہ میں بدل جائے ۔
یہ ان خانقاہوں کاہی فیضان تھا کہ تاریخ اسلام تصوف کے میدان کے شہسواروں سے بھری پڑی ہے، انہی اولیاء کرام نے اشاعت اسلام کے ساتھ ساتھ معاشرے سے شرک وبدعت اور رسومات کے خاتمے کے لئے بنیادی کردار ادا کیا ۔ انہی عظیم لوگوں میں حضرت حسن بصری،حضرت جنید بغدادی،حضرت سید عبدالقادر جیلانی، حضرت مجدد الف ثانی، حضرت نظام الدین دہلوی، حضرت قطب الدین، حضرات امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت بہائو الدین زکریا، حضرت علی ہجویری، حضرت میاں میر، حضرت مولانااشرف علی تھانوی،حضرت احمد علی جیسی عظیم ہستیاں ودیگرشامل ہیں۔ یہ ایک طویل فہرست ہے،معاشرے کے بگڑے ہوئے لوگ ان اکابرین اور ان کے خلفا ء کے پاس آتے تھے تو پھر ان کی اصلاح ایسی ہوتی تھی کہ وہ تہجد گزار بن کر برائیوں سے بچنے والے اور نیکیاں کرنے والے بن جاتے تھے۔
مولاناحفظ الرحمن مزیدلکھتے ہیں کہ عملیات کافن جس کاخانقاہی زندگی سے ایک خاص ربط تھا استاداورمرشدکی اجازت کے بغیرکوئی ایک قدم بھی نہیں اٹھاتاتھا (مگروقت کے ساتھ ساتھ اس میدان میں بھی تنزلی ہوتی گئی )جس کادل چاہتاہے وہ خود ساختہ عامل بن بیٹھتاہے نہ اب اس کوکسی استادکے پاس جاکرکچھ سیکھنے کی حاجت رہی ہے ،نہ ہی محنت ومشقت برداشت کرنے کی ،نہ چلہ کشی کی اورنہ ہی وہ ان ضرورتوں کومحسوس کرتاہے ۔اب عملیات کے ساتھ یہاں تک مذاق ہورہاہے کہ جوفن کی مبادیات سے بھی واقف نہیں ہیں وہ بھی اپنے آپ کوعامل باورکراناچاہتے ہیں اوراپنی تشہیرکے لیے کوئی رسالہ لکھ دیتے ہیں اوراس پرچندنقوش وتعویزات نقل کرکے اجازت عام کاسرٹیفکیٹ بھی دے دیتے ہیں جبکہ نہ خود انہیں کسی سے اجازت حاصل ہوتی ہے اورنہ صحیح معنوں میں وہ اجازت کے رمزکوسمجھتے ہیں ۔(واضح رہے کہ یہ بات انہوں نے آج سے تقریبا چالیس سے قبل لکھی تھی آج توصورتحال اس سے بھی بدترہے)
آج ایسے ہی جاہل عاملوں کی بھرمارہے انہوں نے ادھر ادھر سے کچھ کتابیں پڑھ کر یا اپنے ہی جیسے کسی استاد یا پیر کی شاگردی کرکے تھوڑا بہت کچھ سیکھ لیا ہوتا ہے اور پھر اس کے بل بوتے پر خلقِ خدا کے مسائل حل کرنے کے نام پرمیدان میں آجاتے ہیں، ایسے لوگ باقاعدہ طور پر دین کا علم بھی نہیں رکھتے اور انہیں کسی علم میں کوئی کمال یا دسترس بھی حاصل نہیں ہوتی،ان کا بنیادی مقصد معاشرے میں سستی شہرت حاصل کرنا یا معصوم لوگوں کو لوٹنا ہوتا ہے، انہیں خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا طریقہ کار شرعی طور پر کہاں تک درست ہے۔؟
علوم روحانیت کا شعبہ درحقیقت ایک وسیع اور مشکل ترین شعبہ ہے ،یہ شعبہ آپ کو اللہ سے دور نہیں بلکہ قریب ہونے کا درس دیتا ہے ۔ نفس کی پیروی نہیں بلکہ نفس پر غالب ہونے کے طرق بتاتاہے ۔ پھرعاملین کے لیے بڑی کڑی شرائط ہیں ،ہمارے ہاں عوام الناس شعبدہ بازی کو کرامت سمجھ کر دھوکہ کھا جاتے ہیں، نام نہادعامل بھی عوام کودھوکہ دینے کے لیے ایسے شعبدے دکھاتے رہتے ہیں کہ وہ مریدین کوقابومیں رکھ سکیں۔یہیں سے اصل بگاڑپیداہوتاہے ،جس کی وجہ سے سینکڑوں آستانے اور درگاہیں غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کی آماجگاہیں بن گئی ہیں، جہاں علاج کے نام پرشعبدہ بازی سے مریدین کومتاثرکیاجاتاہے۔یار لوگوں نے جہالت کا نام طریقت رکھ دیا،چرس بھنگ ناچ گانے سٹے کے نمبر بتانے والوں اور جعلی عاملوں کا نام مجذوب رکھ دیا،ایسے ہی جاہل پیروں اورفقیروں کے متعلق امام احمد رضا خان بریلی نے ارشادفرمایاہے کہ بلاشبہ جاہل فقیر کا مرید ہونا شیطان کا مرید ہونا ہے (ملفوظات شریف ص 297 )
یہ یاد رہے کہ میری مراد جعلی عاملوں، بہروپیوں، بابائوں سے ہے، وگرنہ اصل اہل اللہ، جن کی سب سے بڑی پہچان اتباع سنت ہوتی ہے، وہ تو خلق خدا کے لیے اللہ کی رحمت کا مظہر اور انسانیت کے لیے اللہ پاک کا انعام ہوتے ہیں۔اگرچہ آج ہمارے عوام کی عقلیں خرافات اور شعبدہ بازی کے لگا ئے ہو ئے چرکوں سے تار تار ہیں اور ہر طرف تاریکی کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، لوگ اپنے عقیدے کے سلسلے میں لاپرواہی کا شکار ہو چکے ہیں تاہم کچھ شخصیات ایسی بھی ہیں جو توہمات اور باطل کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والے گم گشتگان راہ کو نجات اور امن کے ساحل پر لانے کے لیے کوشاں ہیں۔
ایسے باکردار صاحب ِعلم و عرفان لوگ تاریخ انسانی میں روشن ستاروں کی طرح جگمگاتے، ٹہکتے اورپھولوں کی طرح مہکتے رہتے ہیں۔وہ ایسے علمی چراغ روشن کرتے ہیں کہ وہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے نشانِ راہ کا کام دیتے ہیں۔علم و شعور تو ایسی بے بہا دولت اور ایسا انمول خزینہ ہے جو اپنے قدردانوں کو اعلی و ارفع مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ ان کا مقصد ِوجود نظری اور عملی طور پر علم و معرفت کے موتیوں کو بکھیرنا ہوتا ہے، صحیح العقل انسان اپنی زندگی میں پر کیف مقام حاصل کرنے اور معرفت الہی سے لطف اندوز ہونے کے لئے روحانیت کا سفر طے کرتا ہے لیکن عموما ایسا ہوتا ہے کہ اس سفر میں کچھ لوگ صحیح راستے کا انتخاب نہیں کرپاتے ، کچھ صحیح راستے کا انتخاب تو کرتے ہیں لیکن بیچ ہی میں بھٹک جاتے ہیں اور کچھ ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو روحانیت کے اس سفر میں منزل تک پہنچ پاتے ہیں ۔انہی شخصیات میں خادم الامت حضرت سیدنورزمان ہاشمی نقشبندی شاذلی بھی شامل ہیں ۔
آپ نے عملیات کے حوالے سے اسلامی اقدار کو زوال اور حاشئے پر چلے جانے کے بعد حیات نو بخشی۔آپ نے عملیات کے فن کودوبارہ جلابخشی ہے ،آ پ نے اس کی روح کے مطابق اسے دوبارہ زندہ کیاہے ،شائقین عملیات کو اس فن کے رموز واسرار سے آگاہ کیاہے ،کھرے اورکھوٹے کافرق واضح کیاہے ۔ آپ نے اپنی بلند ہمتی، ایمان و توکل،جہد مسلسل اوراپنی ذات میں پوشیدہ بے پناہ صلاحیتوں اور توانائیوں کے استعمال سے اس میدان میں اعلی اہداف حاصل کیے ہیں، آپ کو ہمہ گیر شخصیت، قوت ایمانی، عقل سلیم، حکمت و دانا ئی، صبر و بردباری، سچائی و پاکیزگی ، تجملات دنیا سے بے اعتنائی،، زہدو تقوی و پرہیزگاری، خوف خدا نے آسمان ولایت کاخورشید تابناک بنادیاہے ۔
آپ نے روحانی علاج (عملیات )کاشرعی اصولوں کے مطابق نہ صرف ایک نصاب مرتب کیاہے بلکہ اس کے اصول وضوابط ،شرائط وحدودطے کی ہیں اس کے ساتھ ساتھ روحانی علاج کے لیے معالج کی صلاحیت، دین،عقیدے، استقامت، سچائی اور دیانتداری کی جانچ پڑتال کوبھی لازمی قراردیاہے اورسب سے بڑی بات روحانی علاج کوخانقاہ کے ساتھ منسلک کیاہے کیوں کہ خانقاہ کے ماحول میں صوفی یاروحانی معالج، مرید ، شاگردوں اورمریضوں کی اسی نہج پر تربیت کرتے ہیں، اس کا تزکیہ نفس ، باطنی صفائی اور ایثار وقربانی کی عادت ڈالتے ہیں۔ غیبت، چغلی، جھوٹ، عہدشکنی، ریا کاری، بداخلاقی، بدزبانی، خود غرضی اور اس جیسی بہت سی خامیاں دور کی جاتی ہیں۔
نگاہ ولی میں یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی۔
یاد رکھئے!ایسے تمام لوگوں کو زندگی میں سکون حاصل کرنے کیلئے صحیح راستے کا تعین کرنا ہوگا اور روحانیت کی منازل طے کرانے والے اعمال سے روزمرہ زندگی کو منور کرنا ہوگا۔