تحریر: عمر فاروق
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ رفح کی سٹریٹجک اہمیت کیا ہے؟
رفح کی آبادی دو لاکھ 80 ہزارتھی جواب بڑھ کرر تقریبا 14 لاکھ افراد تک پہنچ گئی ہے، کیوںکہ رفح موجودہ جنگ کے آغاز کے بعد 10 لاکھ سے زائدفلسطینیوں کی آخری پناہ گاہ بن گیا تھا۔غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے میں واقع تقریبا 55 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط یہ علاقہ غزہ تک آخری رسائی کی نمائندگی سمجھا جاتا ہے ۔
رفح یہ غزہ کی جنگ کا آخری محاذ ہے۔ رفح اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے آغاز سے ہی شہری آبادی کے لیے ایک پناہ گاہ اور انسانی امداد کے لیے داخلے کا مرکز رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسے ناروے کی پناہ گزینوں کی کونسل کے سربراہ، جان ایجلینڈ نے بے گھر ہونے والوں کا دنیا کا سب سے بڑا کیمپ قرار دیا تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اس علاقے میں نسل کشی کااعلان کیاتوعالمی برادری نے کچھ جنبش کی اوراسرائیل کے اس منصوبے کے خلاف تنقید اور مخالفت کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیںمگریہ سب بے سودثابت ہوئی۔
جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ میں جنگ کے دوران نسل کشی کے الزامات اور رفح میں جارحیت کو ہنگامی بنیادوں پر روکنے کے معاملے پر عالمی عدالتِ انصاف نے جمعے کو اسرائیل کو حکم دیا کہ اسے رفح میں اپنی فوجی کارروائیاں فوری طور پر روکنا ہوں گی(عالمی عدالت انصاف کایہ حکم صرف رفح کے لیے تھا حالانکہ پورے غزہ میں اسرائیل بربریت کامظاہرہ کررہاہے)۔عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے اسرائیل کو جو اہم احکامات جاری کیے گئے ان میں رفح میں آپریشن فوری طور پر روکنے، مصر کی جانب رفح کی اہم راہداری کو انسانی امداد کی فراہمی کے لیے کھولنا اور غزہ میں حقائق کی جانچ پڑتال کے لیے تفتیش کاروں کو مکمل رسائی فراہم کرنا شامل ہیں۔عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے اسرائیل کو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر وہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کر کے عدالت کو اس بارے میں آگاہ کرے۔
جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت کوبتایاتھا کہ رفح غزہ کی پٹی کے لیے دفاع کی آخری لائن کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگر رفح کا انجام بھی دوسرے شہروں کی طرح ہوا تو پوری فلسطینی آبادی کو مزید ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔واضح رہے کہ رفح کایہ علاقہ اقوام متحدہ اورخوداسرائیل کی جانب سے محفوظ قراردیاگیاتھا ۔
اس فیصلے کے بعد اتوار کی رات رفح کے علاقے تل السلطان میں پناہ گزینوںکے کیمپ پر اسرائیل نے فضائی حملے شرع کردیئے ،اسرائیلی بمباری سے رفح کے پناہ گزین کیمپ میں آگ لگ گئی جس میں بڑی تعداد میں شہادتیں آگ میں جھلسنے کی وجہ سے ہوئیں، شہدا ء میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے، رپورٹس کے مطابق آگ میں جھلسنے کے باعث کئی افراد کی حالت نازک ہے، شہدا کی تعداد بڑھ رہی ہے۔فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ رفح میں کیمپ پر 900 کلو سے زائد وزنی بموں کا استعمال کیا گیا، سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس علاقے کے اسپتال اتنی بڑی تعداد میں شہدا اور زخمیوں کو سنبھالنے اور ان کے علاج معالجے کے قابل بھی نہیں ہیں کیونکہ اسرائیلی حکومت غزہ میں نظام صحت کو جان بوجھ کر مکمل طور پر تباہ و برباد کرچکی ہے۔فلسطینی اتھارٹی نے مصر سے زخمیوں کو نکالنے کیلیے ایمبولینسز بھیجنے کی اپیل کی ہے۔مگراسرائیل نے پہلے ہی مصرکی سرحدکراسنگ پوائنٹ کو کنٹرول میں لیاہواہے۔
غزہ کی سول ڈیفنس ٹیموں کے سربراہ ڈاکٹر محمد المغیر نے بتایا کہ ہم نے لاشوں اور زخمیوں کو باہر نکالا تو دیکھا زیادہ تر لاشیں جل کر خاک ہوگئی تھیں جبکہ زخمی اپنے اعضا سے محروم ہوگئے تھے۔ کچھ بچوں کی لاشوں کے سر تن سے جدا تھے۔ اس حملے میں بین الاقوامی طور پر ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال ہوا ہے جس کی وجہ سے خیموں میں ہر طرف خوفناک آگ بھڑک اٹھی جس نے ہر چیز کو جلاکر راکھ کردیا۔
یہ اقوامِ متحدہ کی پناہ گزینوں سے متعلق تنظیم(یو این آر ڈبلیو اے) کے ٹین اور لکڑی سے بنے خیموں اور کمروں پر مشتمل کیمپ تھے جہاںاسرائیل نے حملہ کیا۔24گھنٹوں میں 230 سے زائد فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا، اس سے قبل اسرائیل نے جبالیہ، نصیرت اور غزہ سٹی میں کیمپوںکونشانہ بناچکاہے۔
رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں یو این کیمپوں پر دسواں حملہ کیا ہے،اسرائیل اقوام متحدہ کے سکولوں ،صحت کے مراکزاورپناہ گزین کیمپوں کومسلسل نشانہ بنارہاہے ، اسرائیلی بمباری میں اقوام متحدہ کے 193 کارکن مارے جا چکے ہیں۔مگراقوام متحداسرائیل کے خلاف کاروائی سے گریزاں ہے۔
فلاحی تنظیم ڈاکٹرز ودآٹ بارڈرز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ ایک بار پھر ظاہر کرتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔رفح میں ایک عینی شاہد نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ غزہ کی پٹی کے بے گھر افراد کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری پاگل پن ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسی انسانیت ہے، ان لوگوں کو جلا دیا گیا ہے۔ اب بھی خدا ہمارے لیے کافی ہے، اور وہ سب سے بہتر ہے، میں کیا کہہ سکتا ہوں؟انھوں نے مزید کہا کہ اچانک ایک میزائل ایک کیمپ پر گرا اور اکثر افراد جل گئے، جا کر دیکھو ان کے ساتھ کیا ہوا۔
اسرائیلی حکومت عالمی ٹربیونل کے تمام احکامات ماننے سے انکاری ہے، اسرائیلی حکومت پاگل پن، انتقامی کارروائیوں کو نئی مجرمانہ سطح پر لیجا رہی ہے۔واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں اب تک 36 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
غزہ کے متاثرین کوکئی طرح کی مشکلات کاسامناہے اسرائیلی بمباری سے بچنے کے علاوہ بھوک وافلاس نے بھی انہیں گھیراہواہے ایسے میں پناہ گزینوں تک امدادی سامان پہنچانے میں شدیددشواری ہے حالیہ ہفتوں میں سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امداد لے کر جانے والی گاڑیوں کو روک کر لوٹ مار کی جا رہی ہے۔دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن بشمول مقبوضہ غرب اردن میں رہائش پذیر یہودی آباد کاروں کی جانب سے وائرل کی گئی پر درجنوں ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ امدادی ٹرکوں سے سامان کو زمین پر پھینک رہے ہیں۔ان کاکہناہے کہ یہی ایک طریقہ ہے جس سے ہم یہ جنگ جیت سکتے ہیں اور یہی واحد طریقہ ہے جس سے ہم اپنے (سات اکتوبر 2023 کو حماس کی طرف سے اسرائیل پر کیے گئے حملے میں)یرغمال بنائے جانے والے شہریوں کو واپس لا سکتے ہیں۔
کچھ کارکنان اس کے لیے یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ غزہ میں رہنے والوں کو اس وقت تک کچھ نہیں ملنا چاہیے جب تک اسرائیلی یرغمالی ان کے پاس ہیں اور امداد بھیجنے کا صاف مطلب اس جنگ کو طول دینا ہے۔ایک ویڈیو میں اسرائیلی شہریوں کے ایک گروپ کو لوٹی جانے والی لاری کے اوپر جشن مناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ایک اور ویڈیو میں امداد لے جانے والی ایک لاری کو نذرِ آتش کیا جا رہا ہے۔
دیگر ویڈیوز میں یروشلم میں یہودی امداد لے جانے والی گاڑیوں کو روک کر ڈرائیورز سے دستاویزات دکھانے کے مطالبات کر رہے ہیں تاکہ تسلی کی جا سکے کہ امداد غزہ تو نہیں جا رہی۔ مقبوضہ غربِ اردن میں دو ایسے ڈرائیورز کو بھی گاڑیوں سے نکال کر مارا پیٹا گیا جو غزہ کے لیے سامان نہیں لے جا رہے تھے۔مسلم حکمران ،اسلامی ممالک ،انسانی حقوق کی تنظیمیں ،عالمی عدالت انصاف ،اقوام متحدہ ،عالمی دنیاغزہ کے مظلوموں کوتحفظ دینے میں مکمل ناکام ہوچکی ہیں ایک اللہ ہی ان مظلوموں کا آخری سہارہ ہے ۔