تحریر: سید اعجاز اصغر
اب سلسلہ تبلیغ شروع ہوا، حضرت نوح علیہ السلام نے توحید و نبوت کے اقرار و اطاعت کا حکم دیا تو حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے ان کی کسی بات کو نہ مانا اور بد ترین تشدد پر اتر آئے، نوح علیہ السلام کی قوم آپ کو اس قدر مارتی تھی کہ آپ بے ہوش ہوجاتے تھے، حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جتنی زحمت حضرت نوح نبی نے اپنی قوم سے اٹھائی تھی کسی اور پیغمبر نے نہ اٹھائی،
اب یہ سلسلہ تبلیغ چلتا چلتا حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تک رواں دواں رہا مگر توحید و رسالت و نبوت کے پیروکاروں کی تعداد انتہائی کم رہی، بڑی بڑی صعوبتوں اور تکلیفوں کے کٹھن ماحول میں دین اسلام کی تبلیغ کرتے کرتے رسول خدا نے بے مثال استقامت کا مظاہرہ کیا، کفار کے بعد اور امت کی بے وفائی کا صدمہ لیکر دار فانی سے کوچ کر گئے،
بعد از رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دین اسلام کی محافظت،وصیت، ولایت اور خلافت حضرت علی و اولاد علی علیھم السلام کو بحکم خدا بزبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام غدیر 18 ذوالحجہ کو آخری خطبہ بعد از حجتہ الوداع آخری امت کو اتمام حجت پیش کرکے قیامت تک کے فتنہ کو دبانے کے لئے بہت بڑی دلیل تھا،
حضرت علی، حضرت امام حسن علیھم السلام کی خلافت کے دوران امت مسلمہ کے ناروا سلوک ، ظلم و ستم، نافرمانی خدا و رسول تاریخ اسلام میں درج ہیں جسے تمام مکاتیب فکر جانتے ہیں
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔