نومبر 24, 2024

دہشت گردوں کا مذہب  

تحریر: علی سردار سراج 

2 دسمبر 2023 بروز ہفتہ بوقت 18:30 بجے بمقام چلاس، ہڈور پڑی کے سامنے گلگت سے پنڈی جانے والی K2 بس 4647- BLN کے اوپر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق بس میں موجود افراد میں سے 16زخمی جبکہ 08 افراد جابحق ہوئے ہیں۔

شہید ہونے والوں کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے اور زخمیوں کی جلد شفا یابی کے لئے اللہ تعالی سے دعا گو ہیں۔

لکھنے کے لئے قلم اور بولنے کے لئے زبان کی ہمراہی ضروری ہوتی ہے ۔

آج نہ زبان ساتھ دیتی ہے اور نہ قلم ،کیونکہ جس موضوع پر اظہار خیال کرنا چاہتا ہوں وہ بے پدر ہے۔

شاہراہ قراقرم بالخصوص بشام سے چلاس کے درمیان لوگوں کا خون بہنا ایک عام سی بات بن گئی ہے ۔

کچھ لوگ دریائے سندھ کی نامہربان موجوں کی نظر ہوتے ہیں اور کچھ پہاڑی تودوں کے نیچے دب جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو دہشت گرد بھون کر رکھ دیتے ہیں ۔

البتہ پہاڑی تودے اور دریا کی موجیں تمام مذاہب والوں کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں رہے ہیں اور دہشت گرد، کل کے واقعے کے علاوہ باقی واقعات میں مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کو ہی نشانہ بناتے رہے ہیں ۔

جس مسئلے کا کوئی مسئول ہی نہ ہو اس پر بات کرنے کا کیا فائدہ؟؟

یہ موضوع اس بچے کی طرح ہے جو حرام زادہ ہے۔ اس کا شر تو ہے لیکن خسارت دینے کے لئے یا تربیت کرنے کے لیے باپ موجود نہیں ہے ۔

آسمانی اور زمینی آفات کو تو مسلمان ویسے بھی خدا کا امتحان یا اپنے گناہوں کا نتیجہ سمجھ کر منہ بند رکھتے ہیں ۔ لہذا روڈ سلائیڈنگ کا مسئلہ ہو یا ایکسڈنٹ ہوکر دریا برد ہونے والوں کا مسئلہ اس میں حکومت کا کیا قصور اور حکومت کیا کر سکتی ہے؟

یہاں پر ایک پکا مسلمان بن کر زبانوں کو بند ہی رکھنا ہے اگر زبان کھولنا چاہیں تو صرف مرنے والوں کے لئے مغفرت کی دعا اور زندہ لوگوں کو صبر کی تلقین ہی کر سکتے ہیں ۔

نہ معلوم یہ اسلام اور مسلمانی کہاں سے آ گئی ہے ۔

قرآن کریم تو موت اور حیات کا فلسفہ ہی یہ بتاتا ہے کہ دیکھا جائے کون نیک عمل کو احسن طریقے سے انجام دیتا ہے؟

اور مسلمان روڈ جیسے عام المنفعت نیک عمل کو بھی درست طریقے سے بنانے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔

رہا دہشت گردی کا مسئلہ تو یہ بھی ایک بے پدر موضوع ہے۔

کیوں کہ سب یہ اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہے ۔

اس کا قطعا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کسی بھی آئین کو نہیں مانتے ہیں، بلکہ وہ اپنے مذہب میں سب سے زیادہ سخت ہیں اس لئیے اگر کوئی ان کے مذہب کا حامی نہ ہو تو اس سے بھی حق حیات کو بھی چھین لیتے ہیں اگر کوئی مخالف ہو تو پھر اس کو اڑانے کے لئے بم باندھ کر خود بھی پاش پاش ہونے کو بالا ترین سعادت سمجھتے ہیں ۔

دہشت گرد کے مذہب نہ ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان کے فاسق باپ اپنی اس ناجائز اولاد سے اپنی نسبت کا اقرار نہیں کرتے ہیں ۔

ورنہ دہشت گردی مذہب کے روپ میں سکھائی اور پڑھائی جاتی ہے اور مسلسل دہشت گردوں کے اوپر کام ہوتا ہے ۔

بہرحال جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہے ان سب کو چاہیے کہ وہ مل کر شرعی فتوی صادر کریں کہ دہشت گردی کرنے والے اسلام سے خارج ہیں اور ایسے لوگوں کا خون مباح ہے۔

اور ریاستی اداروں کو بھی چاہیے کہ ان بے مذہب دہشت گردوں کے قلع قمع کرنے کے لئے تمام مذاہب کے بڑے بڑے علماء کا شرعی اور اخلاقی تعاون حاصل کریں تاکہ ان لوگوں کے چہرے سے بھی نقاب اتر جائے جو دہشت گرد پالتے تو ہیں لیکن ان کی ذمہ داری قبول کرنے سے سر پیچی کرتے ہیں ۔

آخر میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے کہ ایک خاص علاقے میں بار بار ہونے والے واقعات اس بات کا زمینہ فراہم کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کو شک کی نگاہ سے دیکھیں ۔

گلگت بلتستان کی حکومت بیمار حکومت سے تو کوئی توقع نہیں ہے لیکن ریاستی اداروں سے بالخصوص پاک فوج سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے ناسور سے ملک عزیز کو پاک کریں۔ بالخصوص شاہراہ قراقرم پر خصوصی توجہ دے کر وہاں پر سفر کرنے والے مسافروں کو قدرتی آفات اور دہشت گردی کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے جدی اقدامات کریں ۔

آخر میں گلگت بلتستان کے باشعور لوگوں کی قدر دانی کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے صبر اور تحمل کے ذریعے سے دہشت گردوں کے نا پاک عزائم کو خاک میں ملایا اور چلاس کے ان لوگوں کی قدر دانی کرتا ہوں جنہوں نے زخمیوں کی علاج معالجے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں ۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

10 − four =