تحریر: رستم عباس
امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ کربلا خون پر تلوار کی فتح کا نام ہے امام حسین علیہ السّلام وہ عظیم ملکوتی شخصیت ہیں جنہوں نے تاریخ انسانی کے دھارے کو ایک حیرت انگیز اور ناقابل یقین انداز میں بدلا ہے۔امام حسین علیہ السّلام نے سن 61 ھجری میں ایک فاسق اور مجرب اخلاق شخص جو کہ تخت حکومت پر براجمان ہو چکا تھا کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔اور اس کو حاکم ماننے سے انکار کیا کردیا۔اور ساتھ میں اقدام بھی کر دیا صرف بعیت کا انکار نہیں کیا بلکہ اپنا آبائی وطن چھوڑ کر مبارزے کے لیے تیار ہوگئے۔امام نے اس وقت کے تمام ہم عقیدہ افراد کو مدد کے لیے بلایا لیکن امام کا ساتھ دینے کی بجائے مسلمان عافیت سے گھروں میں بیٹھے رہے۔اور یہ عظیم پر نور انقلابی شخصیت اپنے بھائیوں بیٹوں اور 72 ساتھیوں کے ہمراہ کربلا کے صحرا میں بڑے دکھوں کے ساتھ قتل کردی گئی۔ لیکن امام کی مظلومانہ شہادت نے باقی امت کو تڑپا دیا۔شہادت حسین و اصحاب حسین نے انے والے تمام زمانوں کے لیے ایک حیرت انگیز رستا کھول دیا۔اور تاریخ نے دیکھا کہ بنو امیہ کی حکومت یا حداد ال محمد یعنی خون حسین کے نعرے سے محو ہوگئ۔اس سے پہلے عبداللہ ابن زبیر اور مختار ثقفی توابین نے کربلا سے ہی جذبہ فدا کاری مستعار لیاتھا اور ظالم کے خلاف عملی اقدام کیا اور جانیں دیں۔ طول تاریخ میں کربلا نے بہت سی امتوں کی حتی غیر مسلم اقوام کی دستگیری کی ہے۔
حتی کربلا کے قیام کی بدولت ہی سن 1979 میں ایک سید بزرگوار نے ناصرف اپنی قوم کو بلکہ تمام جہانوں کو نجات کے رستے کا پتہ بتایا بلکہ عملی نجات کربلا سے لے کر دی۔اور پھر دنیا مکمل طور پر بدل کر رکھ دی۔زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔
حماس کا موجودہ مبارزہ و حماسہ کربلا و امام حسین علیہ السّلام کے مبارزے اور حماسے کی ہی تکرار ہے۔جو نتائج قیام امام حسین علیہ السّلام سے برآمد ہوئے بلکل وہی نتائج حماس کے طوفان الاقصی آپریشن سے نکلیں گے اور نکل رہے ہیں۔
اج کا یزید اسرائیل بلکل وہ ہی طریقہ اپنا چکا ہے غزہ میں اس وقت تک 3500سے زائد بچے قتل کر چکاہے 3000ھزار سے زائد خواتین کو قتل کر چکا ہے۔اور مجموعی طور پر اس وقت تک 9000 افراد کو شہید کر چکا ہے۔اور غزہ کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔پانی بجلی اور زندگی گزارنے کی ہر سہولت ناپید کر دی گئی ہے۔
لیکن پوری دنیا نے اسرائیل کا اصل چہرہ دیکھ لیاہے پوری دنیا میں مظاہرے ہوچکے ہیں۔حتی امریکی پارلیمنٹ میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہوچکے ہیں۔
چند ایک ممالک نے اسرائیل کے گماشتے سفیروں کو ملک بدر بھی کر دیا ہے۔اور سب سے بڑھ کر دنیا کے تمام دانشور اسرائیل کی نابودی کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔کیونکہ سوشل میڈیا پل پل کی خبر پوری دنیا میں پہنچا رہا۔ دنیا میں ایک تحول پیدا ہوچکا ہےفلسطین کے مظلوم بچوں کی سسکیوں نے مغرب کی شقی عوام کے دل بھی چھید دیے ہیں۔
اور اسرائیل اب بری طرح پھنس چکا ہے۔اگر مزید ظلم کرتا ہے تو بعید نہیں کہ بہت سے ممالک اپنے ملک سے ان کو نکال باہر کریں۔اور اگر جنگ روکتا ہے تو یہ اس کے زوال کا پہلا قدم ہوگا۔
دوسری طرف حماس کے مجاھد 100میڑ گہری سرنگوں میں گھات لگائے رہتے ہیں اور زمینی جنگ میں اسرائیل کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچا چکے ہیں غیر مصدقہ خبروں کے مطابق اسرائیل کے 25سےزائید ٹینک اور 300سے زائید فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔
لبنان اور یمن بھی جنگ میں داخل ہوا چاہتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ حماس نے آج کے دور میں ایک حقیقی کربلا برپا کی ہے اب ہم نے خود کو دیکھنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں کہیں خاموش کوفی تو نہیں۔یا خدا ناخواستہ
ہم اسرائیل کی تجارتی مدد تو نہیں کر رہے۔
کربلا نے یہ راستہ انسانیت کو دکھایا ہے کہ عزت سے جینا ہی زندگی ہے ذلت کی زندگی شرف انسانی کی موت ہے۔اور اگر آزادی اور حریت چاہتے ہو تو وہ خون مانگتی ہے اور خون تلوار پر فتح حاصل کرتا ہے اگر کربلا کے رستے پر بہایا جائے۔