جون 13, 2025

تحریر: اختر عباس اسدی

مقام بیضا پر امام حسین علیہ السلام  نے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا:

بیضا کے مقام پر لشکر حر سے ایک بار پھر گفتگو کا موقع ملا تو ان کے سامنے حقائق کو آشکار کرتے ہوئے اور اپنی جدو جہد کے علل و اسباب کی تشریح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

” ايها الناس، إن رسول الله صلى الله عليه وآله قال "من رأى منكم سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم الله، ناكثاً لعهد الله، مخالفاً لسُنة رسول الله صلى الله عليه وآله ، يعمل في عباد الله بالإثم والعدوان، فلم يغيّر عليه بفعل ولا قول كان حقاً على الله أن يدخله مدخله، ألا وإن هؤلاء قد لزموا طاعة الشيطان، وتركوا طاعة الرحمن، وأظهروا الفساد، وعطلوا الحدود، واستأثروا بالفي‏ء، وأحلّوا حرام الله وحرموا حلاله، وأنا أحق من غيري، وقد أتتني كتبكم، وقدمت عليّ رسلكم ببيعتكم: أنكم لا تسلموني ولا تخذلوني، فإن تممتم على بيعتكم تصيبوا رشدكم…

فأنا الحسين بن علي وابن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وآله ، نفسي مع أنفسكم، وأهلي مع أهلكم، فلكم فيّ أسوة، وإن لم تفعلوا ونقضتم عهدكم وخلعتم بيعتي من أعناقكم، فلعمري ما هي لكم بنُكر، لقد فعلتموها بأبي وأخي وابن عمي مسلم، والمغرور من أغترّ بكم، فحظكم أخطأتم ونصيبكم ضيعتم، ومن نكث فإنما ينكث على نفسه، وسيغني الله عنكم. والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اے لوگو! رسول اللہ صلی اللہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے: اگر کوئی شخص کسی ظالم حاکم کو دیکھے جو اللہ کے حرام کیئے ہوئے کو حلال کرتا ہو، خدا سے کئے عہد و پیمان توڑ رہا ہو، رسول صلی اللہ و آلہ و سلم کی سنت کی مخالفت کر تا ہو اور اللہ کے بندوں کےساتھ ظلم وستم سے پیش آتا ہو، اور یہ شخص ایسے حاکم کو دیکھنے کے باوجود اپنے عمل یا اپنے قول سے اس کی مخالفت نہ کرے تو اللہ کو حق ہے کہ اس خاموش اور بے عمل شخص کو اسی ظالم کے ہمراہ عذاب میں مبتلاء کرے۔

اے لوگو ! جان لو کہ ان لوگوں ( بنو امیہ) نے شیطان کی اطاعت اختیار کرلی ہے اور رحمٰن کی اطاعت ترک کر دیا ہے، فتنہ و فساد کو رواج دیا ہے اور اللہ کےحدود ( احکام الٰہی) کو معطل کردیا ہے۔ ( خاندان نبوت سے مختص) مال کو اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے، اللہ کی طرف سے کئے گیئے حرام کو حلال اور اللہ کی طرف سے قرار دئے گئے حلال کو حرام میں تبدیل کردیا ہے۔ اور میں (ان مفسدوں کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کی رہبری کا) زیادہ حقدار ہوں۔ان حالات میں مجھ تک پہنچنے والے خطوط کا مضمون اور تمہارے قاصدوں کا پیغام یہ تھا کہ تم لوگوں نے اس بات پر میری بیعت کی ہے کہ نہ تم مجھے تنہا چھوڑو گے اور نہ ہی مجھ سے بے وفائی کرو گے۔ اب اگر تم اپنے بیعت پر قائم رہے، تو کامیابی اور ہدایت حاصل کرو گے۔ کیونکہ تم جانتے ہو کہ میں حسین ابن علی علیہ السلام فرزند فاطمہ سلام اللہ علیھا بنت رسول اللہ صلی اللہ و آلہ و سلم ہوں۔میری جان تمھاری جان کے ساتھ اور میرے اہل و عیال تمھارے اہل و عیال کے ہمراہ ہیں ( ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی دوئی نہیں) میں تمھارے لیے نمونہ عمل ہوں۔ اب اگر تم نے مجھ سے کیئے جانے والے اپنے عہد وپیمان کو توڑ دیا اور میری بیعت سے انکار کیا تو یہ تم کوئی نئی بات نہیں کردگے۔

تم میرے والد، میرے بھائی اور میرے چچا کے بیٹے مسلم بن عقیل علیہ السلام کے ساتھ ایسا ہی کر چکے ہو۔ جس نے تم پر بھروسہ کیا، اس نے دھوکہ کھایا ۔ یاد رکھو کہ تم نے اپنا ہی نقصان کیا ہے اور اپنے ہی حصے کو ضایع کیا ہے۔ جو کوئی وعدہ خلافی کرتا ہے وہ خود اپنے آپ ہی نقصان پہنچاتا ہے۔ اللہ جلد ہی مجھے تم لوگوں سے بے نیاز کردے گا۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ”

(تاریخ طبری، ج7، ص 300۔ تاریخ کامل ابن اثیر،ج3، ص 280)

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

5 × 2 =