نومبر 23, 2024

خاموش پکار۔۔۔!

تحریر: عمر فاروق

قاضی عبدالقدیرخاموش کے رگ و ریشہ میں امت مسلمہ کادرد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ دین حق کے شیدا اور مزاحمتی سیاست کے علمبردار، ملک و ملت کے بہی خواہ، مسلم دنیا کے خیر خواہ، پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ اور شریعت ِاسلامی کی بالاتری کے لئے جان لڑا دینے والے۔آپ اپنوں اور غیروں کو یکساں طور پر رشد و ہدایت کی جانب رہنمائی کرنے والے مردِ مجاہد ہیں۔

قاضی عبدالقدیرخاموش بہت بڑے عالم نہیں مگرزندگی کی تجربات سے انہوں نے بہت کچھ سیکھاہے اسی تجربے کی بنیادپرانہوں نے علم کی شمعیں جلائیں اور ایسے چراغ روشن کئے کہ جن کی روشنی سے” بے راہ رو,,اور راہِ راست سے بھٹکے ہوئے لوگوں نے سیدھی راہ پائی اور اپنی عملی زندگی کی اِصلاح کر لی۔ انہوں نے مشن علامہ احسان الہی ظہیرشہید کی نشرواشاعت اور ترویج کے لئے اپنا تن، من، دھن سب کچھ نچھاور کردیا انہوں نے نمودو نمائش کی چمک دمک سے بالاتر رہ کر دین حق کی بے لوث خدمت کو اپنا شعارِ زندگی بنائے رکھا۔ حصولِ شہرت کی خاردار وادیوں سے الجھنے کے بجائے اپنے دامن کو بچا کر انسانیت کی خیر خواہی او رمسلمانوں کی بہتری کے لئے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے۔

قاضی عبدالقدیرخاموش کاشمارخطیب بے بدل علامہ احسان الہی ظہیرکے قریبی ساتھیوں میں ہوتاہے اس لیے ان کی زندگی پرعلامہ شہیدکی گہری چھاپ ہے ۔قاضی خاموش نے اپنے لائق اور قابل ترین استاذ کی آغوش تربیت میں رہ کر علمی وعملی فیض حاصل کیا اور کندن بن نکلے۔ ! یہی وجہ ہے کہ وہ جرات وبیباکی میں ‘لایخافون لومت لائم ،کی عملی تصویرہیں ،ان کے خطاب میں علامہ شہیدکی جھلک نظرآتی ہے ۔آج بھی وہ ضعف وعلالت کے باوجود جب بولتے ہیں توباطل لرزہ براندام ہوجاتاہے ۔ سامعین کے مزاج شناس اورموقع ومحل کے مطابق گفتگو کا خداداد سلیقہ اور شعلہ بیانی ان کے امتیازات میں سے ہے۔ آواز میں بڑی شیرینی اور لطافت ہے۔

سابق وفاقی وزیرعلامہ کوثرنیازی مرحوم نے قاضی خاموش کے متعلق لکھا تھا کہ وہ خاموش نہیں ہیں ،وہ بولتے ہیں تویوں لگتاہے کہ جیسے ابھی طوفان امنڈپڑے گا جیسے ایک بپھراہوادریاموجزن ہے ،خاموش ہوتے ہیں توان کی آنکھیں بولتی ہیں ۔

وہ بولتاہے نگاہوں سے اس قدراردو

خموش رہ کے بھی اہل زباں سالگتاہے

1987میں جب علامہ احسان الہی ظہیرکوشہیدکیاگیا تویہ قاضی عبدالقدیرخاموش ہی تھا جوخون کاحساب لینے کے لیے میدان میں ڈٹ گیا ، آپ کی بلند ہمتی، ایمان و توکل اورجہد مسلسل نے کئی سالوں تک اس تحریک کوزندہ رکھا ۔قیدوبندکی صعوبتیں ،دہشت گردی کے مقدمات،حکمرانوں کی دھمکیاں ،خوف اورلالچ جب آپ کے عزم واستقامت کونہ توڑسکے توپھرضمیرکے سوداگروں نے کاریگری دکھائی اور سودابیچ کرچل دیئے علامہ اقبال نے انہی کے لیے کہاتھا ۔

وقتِ سودا خند خند و کم خروش

ما چو طفلانیم و او شکر فروش

جب سوداگر کسی سے سودا بازی کررہا ہوتا ہے تو ہنس ہنس کے بات کرتا ہے اور زیادہ شور شرابا نہیں مچاتا۔ اس مکار تاجر کے کرتوتوں کے سامنے ہم ایسے کم عمر بچے ہیں کہ جن کو وہ مٹھائیاں دے کر بہلا پھسلا لیتا ہے۔

جس طرح آغاشورش کاشمیری صحافت اور سیاست میں بے ضمیر اور خوشامدی ٹولہ سے بہت بیزار رہتے تھے اس گروہ کو وہ طنزا ،،انجمن ستائش باہمی ٫٫کے نام سے پکارتے تھے شائدیہی وجہ ہے کہ اس انجمن ستائش باہمی کے ارکان نے آغا شورش کاشمیری سے خوفناک انتقام لیا۔اسی طرح قاضی خاموش کی بھی سیاست میں اس بے ضمیراورخوشامدی ٹولے سے جنگ رہی ،آپ سیاست میں آئے توآپ نے علوم کے صنم کدے میں اذان دی اور میدان عمل کے طاغوتوں سے جنگ کی، یہی وجہ ہے کہ انقلاب کے ہاتھوں زخم کھائے اور گھات لگائے ہوئے دشمن برسوں اس موقع کی تلاش میں تھے اور آج بھی وہ سورج کے غروب کا انتظار کرنے والی چمگادڑوں کی طرح اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں، مگرادھر جذبات کی گرمی ایسی ہے کہ دوستوں کو اس سے راحت ملتی ہے اور دشمنوں کے پر جل جاتے ہیں، پھر وہ شیطانی پرواز کے قابل نہیں رہ جاتے۔

قاضی عبدالقدیرخاموش کی ہردلعزیزی کا جووصف نمایاں نظرآتا ہے وہ باطل کے سامنے ڈٹے رہنا،یہی صفت ان کی عزیمت اورجدوجہدکاروشن باب ہے،موصوف کی زندگی مجاہدوں سے بھری ہے،حالات کاادراک،مستقبل کی منصوبہ بندی ان کی سحرانگیزشخصیت کاخاصہ ہے!

بڑی مدت میں ساقی بھیجتاہے ایسامستانہ

بدل دیتاہے جو بگڑا ہوا دستور میخانہ

قاضی خاموش جیسے صاحب عزیمت لوگ اگرچہ اونچے اور بڑے گھرانوں اور خاندانوں میں آنکھیں نہیں کھولتے، مگر اپنی خداداد ذہانت و فطانت، اپنے شعور و آگہی او رقابلیت و اہلیت کی وجہ سے بلندیوں کی انتہا تک پہنچ جاتے ہیں جہاں بڑے سے بڑے سرمایہ دار اور صاحب ِثروت اپنی انتہائی جدوجہد اور کوشش کے باوجود نہیں پہنچ سکتے۔ قاضی صاحب کا دینی ،مسلکی،سماجی اور علمی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ِملکی سیاست میں بھی ان کی خدمات کا حصہ بڑا وافر ہے ۔

قاضی خاموش کی ساری زندگی جدوجہدسے تعبیرہے، انہوں نے ماضی کی تمام تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔1977کی تحریک نظام مصطفی میں وہ فعال رہنماء کے طورپرسامنے آئے ۔ 1985میں جب علامہ احسان الہی ظہیر شہید نے اہلحدیث نوجوانوں کی ملک گیر تنظیم، اہلحدیث یوتھ فورس،، تشکیل دی تو قاضی خاموش اس کے پہلے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ قاضی خاموش اس انتخاب پرپورااترے اورانہوں نے نوجوانوں میں انقلابی روح پھونکی،غفلت سے بیدار کرکے انہیں اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا حوصلہ دیا۔یہی وجہ ہے کہ مکتبہ اہل حدیث کے آج کے نوجوان جب ان کے پاس بیٹھتے ہیں تووہ حسین ماضی کی یاد میں نوحہ کناں نظر آتے ہیں۔

جمعیت اہلحدیث کے رہنمائوں سے اختلاف کے بعد انہوں نے جمعیت علماء اہلحدیث تشکیل دی ۔قاضی خاموش باہمی اتحاداورقومی یکجہتی کے فروغ کے لئے اہم ستون مانے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حالات کومدنظررکھتے ہوئے انہوں نے بین المسالک ہم آہنگی کے لئے اسلامی یکجہتی کونسل بنائی۔ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا عبدالقادرآزاد اورمولانا مودودی کے صاحبزادے کے ساتھ مل کر مسلم کرسچن فیڈریشن ،مسلم سکھ فیڈریشن جیسی جماعتیں قائم کیں جن کے ذریعے ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی وبرداشت کوفروغ ملا۔

بعدازاں وہ 90کی دہائی میں ملکی سیاست میں محترمہ بینظیر بھٹو کے قریب ہوگئے اور محترمہ کی سربراہی میں بننے والے سیاسی اتحاد اے۔آر۔ڈی کے جنرل سیکرٹری بھی مقرر ہوئے۔ عالمی سیاست میں وہ سامراجی قوتوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے عظیم رہنمائوں کے ساتھ کھڑے رہے عراق کے سابق صدراورمردآہن صدام حسین،عراق کے وزیراعظم طارق عزیزسمیت اہم عالمی رہنمائوں سے ان کایارانہ تھا، فلسطین کے رہنماء یاسر عرفات کے قریبی معتمد ساتھی قبیلہ بنو تمیم کے گل سربد اورقبلہ اول کے امام سید اسد بیوض تمیمی دو مرتبہ قاضی خاموش کی دعوت پر پاکستان تشریف لائے۔

قاضی خاموش کاکہناہے کہ کسی بھی صاحب ِعلم شخص کو تنگ نظر، تنگ دل اور تنگ فکر نہیں ہونا چاہئے بلکہ کشادہ ذہن اوروسیع ظرف ہونا چاہئے۔قاضی عبدالقدیرخاموش کوجب تک ضعف وعلالت نے نہیں گھیراتھا اس وقت تک انتہائی فعال ومتحرک رہنماء تھے ،ہرتعمیری اورمثبت کام میں خاموشی کیساتھ بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں ۔اپنی بے لوث خدمات کی وجہ سے مکتبہ اہل حدیث کاسنجیدہ طبقے میں انہیں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتاہے ،

چنددن پہلے قاضی عبدالقدیر کی کتاب ،،خاموش پکار،،چھپ کرمنظرعام پرآئی، جو ان کے سیاسی،سماجی ،مذہبی اورعالمی حالات پر تحریر کردہ مختلف اخبارات اور سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی تحریروں اورکالموں پرمشتمل مجموعہ ہے۔ خاموش کی زبان اورقلم کچھ نہ کہہ کر بھی بہت کچھ کہہ جاتی ہے۔خاموش پکار صرف وہ دل سنتا ہے جس میں احساس کی سماعت ہو۔خاموشی کی زبان صرف وہ دل سمجھتا ہے جس میں احساس زندہ ہو۔

لباس صبح میں ہے کوئی رہبر صادق

جگا رہی ہے اندھیرے کو روشنی کی پکار

ترا سکوت نہ رسوا کرے روش تجھ کو

کہ دور دور پہنچتی ہے خامشی کی پکار

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

twenty − 8 =