تحریر: رستم عباس
تاریخ انسانی خاصان خدا کے خون سے رنگین رہی ہے۔یہ کرہ ارض ایک ایسی عجیب جگہ ہے جہاں کشت وخون کے دریا کے دریا بہائے گئے ہیں۔جب سے یہ دنیا بنی اور حضرت آدم اس زمین پر اتارے گئے اسی دن سے یہ معاجرہ شروع ہوگیا تھا کہ حضرت آدم کے بیٹے قابیل نے اپنے ہی بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔یہ سلسلہ پھر رکا نہیں ہے۔
ایک سوال بہت کھٹکتا ہے کہ آخر کیوں وہ لوگ مغلوب ہوئے قتل کئے گئے جو اپنے زمانے کے تمام انسانوں سے ہر جہدسے بہتر تھے۔صالح اور رحم دل مظلوموں کے مددگار اور سیرت وکردار میں ہر دلعزیز تھے۔اور ان کو اس دنیا میں راحت اور سکون سے جینے نہیں دیا گیاہے
ایک بات تو طے ہے کہ یہ زمین کا خالق اور مالک اللہ ہے جو اپنے نفس ذات میں تمام خوشگوار صفات رکھتا ہے۔اور اس نے زمین پر اپنی صفات کے مظہر نمائندے بھیجے ہیں۔یہ خاصان خدا اپنے کردار میں اور اپنے قول میں اٹل ہوتے ہیں۔یہ اپنے ھدف اور موقف سے زرا برابر پیچھے نہیں ہٹتے۔انکی زندگی کا ھدف الہی مقدرات کو زمین پر نافذ کرنا اور الہی صفات کو زمین پر رائج کرنا ہوتا ہے۔یہ عظیم انسانی صفات کے مالک انسان اپنے ھدف کی طرف مسلسل حرکت کرتے ہیں۔کہ معاشرے کو الہی صفات سے مزین کریں۔ایسے میں وہ لوگ جو اپنے نفوس کے ھاتھوں کھلونا بن چکے ہوتے اور مکلمل شیطان کی آماجگاہ میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔وہ شیطان کا لشکر ان عظیم اور باھدف شخصیات کے راستے کی دیوار بن جاتا ہے۔یہ شیطان کا لشکر خاصان خدا کے مقابلے میں اجاتا ہے۔
یہاں پر عام عوام تین گروہوں تقسیم ہوجاتی ہے
1.ظالمین شیطان کا لشکر
2.مفاد پرست دوغلے یہ بھی شیطان کا لشکر ہے
3۔اچھے لوگ لیکن بے طرف اور بزدل لوگ
اب یہاں اصل معاجرہ شروع ہوتا۔اولیا کے مقابلے میں آنے والے لوگ مٹھی بھر ہوتے ہیں جو سٹینڈ لیتے ہیں۔منافقین بھی حق کے بغض میں ان ظالمین سے مل جاتے ہیں۔لیکن وہ جو نیک پارسا اور حق کے طرف دار طبقہ ہے ہر دور میں اکثریت میں رہا ہے۔یہ لوگ اصل گیم چینجر ہوتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے یہ نیک لوگ حق سے محبت تو کرتے ہیں اولیاء اللہ سے محبت تو کرتے ہیں لیکن ان جیسا موقف نہیں رکھتے ان جیسا ھدف نہیں رکھتے۔ظالمین کے ساتھ اولیاء خدا جیسا رویہ نہیں رکھتے۔
لیکن اولیاء اللہ سپرمین ہوتے ہیں اپنی الہی صفات میں اٹل اور بےلچک حق سے رتی برابر بھی پیچھے نہیں ہٹتے ایسے میں کیا ہوتا ہے؟؟؟؟؟
ایسے میں شیطان کا لشکر ان اولیاء خدا کو گھیرتا ہے۔ان سے قتال کرتا ہے۔لیکن حق کے طرف دار بے طرف اور جان بچانے کے لیے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں۔شیطان اور اسکے ساتھی مل کر اولیاء اللہ کے خون سے تاریخ انسانی کو رنگین کرتے ہیں۔
اج 28رجب روز شہادت رسول خدا و روز شہادت امام حسن مجتبی ہے۔
ان دونوں شہادتوں کے سلسلے میں اور دوران شہادت کے واقعات میں ملت اسلامی کے لیے بہت سی عبرتیں ہیں۔بلخصوص شہادت امام حسن مجتبی علیہ السّلام ایک بہت افسوس ناک اور ملت اسلامیہ کے لیے شرمناک سانحہ ہے۔امام حسن کی عظمت اور فضیلت سے تمام عرب آشنا تھے آپ علیہ السّلام رسول خدا کے سب سے بڑے فرزند پیں۔رسول خدا نے امام حسن علیہ السّلام کے بارے فرمایا تھا یہ میرا بیٹا سردار ہے۔میرا یہ بیٹا جوانان جنت کا سردار ہے۔جس نے اس سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔لیکن امت کی پستی دیکھیں کہ ان کے مقابلے پر اتر ائی۔اورشیطان کے لشکر نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔اس شیطان کےشکر کا امام معاویہ ابن ابی سفیان ہے۔
لیکن گیم چینجر طبقہ نیک اور حق کا محب طبقہ یہاں پر نہایت شرمناک طریقے سے امام حسن سے جدا ہوتا ہے۔امام حسن کو تنہاء چھوڑ دیتا ہے۔عبیداللہ ابن عباس 12ھزار کا لشکر لے کر معاویہ سےجا ملتا ہے۔امام کے لشکر میں یہ خبر پھیل جاتی ہے کہ سپاہ سالار پیسے کے عوض بک گیا ہے اور صلح کی جھوٹی افواہ پھیلتی ہے۔یہ ہی حق کے حمایتی اٹھتے ہیں اور اپنے امام کا خیمہ بھی لوٹ لیتے ہیں۔امام حسن کے نیچے سے جائے نماز بھی کھینچ لیتے ہیں۔اور خنجر سے مجروع بھی کردیتے ہیں۔امام حسن مجبور ہوکر معاویہ بن ابی سفیان سے مصالحت کرتے ہیں۔دشمنان اہل بیت یہاں پر کہتے ہیں جس سے حسن نے صلح کی آپ اس کو کیوں نہیں۔ مانتے اور امام حسن نے بڑی خوشی سے صلح بھی کی اور نعوذ باللہ اس کی بیت بھی کی
امام حسن علیہ السّلام نے اپنی صلح کی وجہ خود بتائی ہے
کتاب الحتجاج میں باب احتجاجات امام حسن میں محروم طبرسی نے ایک روایت نقل کی ہے۔
امام حسن علیہ السّلام نے فرمایا کہ میرے سامنے دو راستے تھے دو منصوبے تھے ایک دشمن کا منصوبہ اور ایک میرے دوستوں میرے محبوں کا منصوبہ۔دشمن کا منصوبہ تھا کہ ہر حال میں مجھ سے حکومت لے لے اور میرے دوست چاہتے تھے کہ مجھے رسیوں میں باندھ کر معاویہ کے ہاتھ فروخت کردیں۔مجھے دشمن کا منصوبہ دوستوں کے منصوبے سے بہتر لگا لہزا میں نے مجبوراً صلح کر لی۔
امام حسن علیہ السّلام کامعاویہ سے صلح کرنا ایک بہت دشوار امر تھا لیکن جب امت ساتھ نہ دے جب لوگ حق کی حمایت نہ کریں تو حسن مجتبی کو زہر کاگھونٹ پینا پڑتا ہے اور امت ساتھ نہ دے حق کے لیے قیام نہ کرے تو حسین علیہ السّلام کو پس گردن ذبح ہونا پڑتا ہے۔لیکن یہ خاصان خدا اپنے موقف پیچھے نہیں ہٹتے۔
آج روز شہادت امام حسن روز عہد ہے کہ ایے وقت کے امام ہم کوفی نہیں ہیں ہم شامی نہیں ہیں۔ہم کربلائی ہیں۔ہم حق کی خاطر اپنے خوں کے آخری قطرے تک قیام کریں گے ڈٹے رہیں گے۔لڑہں گے ہم بھی امام حسن کی طرح اپنے موقف پر اٹل ہیں پہاڑ سرک جائے لیکن ہم اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ہم نظام امامت کے قیام تک مہدی کے ظہور تک جدوجہد کریں گے
اللہ لعنت کرے اس گروہ پر جس نے آپ سے جنگ کی اللہ لعنت کرے اس گروہ پر جس نے آپ سے دغا کیا اللہ لعنت کرے اس گروہ پر جو آپ کے مصائب پر راضی و خوش ہے اور آپ کے دشمنوں کا دوست ہے۔۔