جولائی 20, 2025

تحریر: بشارت حسین زاہدی

امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی حکمرانی کا دور اسلامی تاریخ کا ایک ایسا روشن باب ہے جو عدل، مساوات اور انسانیت کی اعلیٰ اقدار کا مثالی خاکہ پیش کرتا ہے۔ یہ محض ایک سیاسی نظام نہیں تھا بلکہ ایک روحانی اور اخلاقی تحریک تھی

جس کا مقصد ایک ایسی فلاحی ریاست کا قیام تھا جہاں ہر فرد کو اس کے حقوق ملیں

اور ریاست کا ہر فیصلہ اللہ کی رضا اور عوام کی بھلائی کے تابع ہو۔

امام علیؑ کا طرز حکمرانی آج بھی دنیا بھر کے دانشوروں، حکمرانوں اور مفکرین کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔

بنیادی ستون: عدل و انصاف

امام علیؑ کی حکومت کا سب سے نمایاں پہلو عدل و انصاف تھا۔

آپؑ نے کبھی بھی کسی کے ساتھ

ذاتی تعلقات،

قبیلے کی وابستگی،

یا مالی حیثیت کی

بنا پر تعصب نہیں برتا۔

آپؑ کے نزدیک ایک حکمران کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ہر شخص کے ساتھ برابر سلوک کرے،

چاہے وہ مسلمان ہو

یا غیر مسلم، شہری ہو

یا دیہاتی، امیر ہو

یا غریب۔

آپؑ نے مالک اشتر کو جو ہدایت نامہ دیا، وہ عدل و انصاف کی بہترین مثال ہے:

” اپنے دل میں اپنی رعایا کے لیے محبت، رحم دلی اور مہربانی پیدا کرو۔ ان کے لیے وحشی درندے نہ بنو جو انہیں کھانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔”

یہ تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ حکمران کا کردار ایک نگہبان کا ہونا چاہیے نہ کہ ایک ظالم کا۔

بیت المال کا صحیح استعمال اور احتساب

امام علیؑ نے بیت المال (سرکاری خزانہ) کو اللہ اور عوام کی امانت سمجھا اور اس کے استعمال میں انتہائی احتیاط برتی۔ آپؑ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بیت المال کا ایک پیسہ بھی ذاتی مفاد یا کسی مخصوص گروہ کے فائدے کے لیے استعمال نہ ہو۔ آپؑ خود بھی سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور حکومتی اہلکاروں کو بھی اسی سادگی اور ایمانداری کی تلقین کرتے تھے۔ بیت المال کی تقسیم میں بھی آپؑ نے کسی قسم کی تفریق روا نہیں رکھی اور تمام مسلمانوں میں برابر تقسیم کیا۔ اس کے علاوہ، آپؑ نے حکومتی اہلکاروں پر سخت احتساب کا نظام قائم کیا تاکہ بدعنوانی اور غبن کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ یہ احتساب کا نظام اتنا سخت تھا کہ معمولی سی کوتاہی پر بھی اہلکاروں کو جواب دہ ہونا پڑتا تھا۔

عوامی مشاورت اور آزادی رائے

امام علیؑ کی حکمرانی میں عوامی مشاورت اور آزادی رائے کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ آپؑ نے اپنے فیصلوں میں عوام کی رائے کو اہمیت دی اور ان کے مسائل کو براہ راست سننے کے لیے ہمیشہ دستیاب رہے۔ آپؑ کے خطبات میں بارہا یہ بات واضح کی گئی کہ حکمران کو اپنی رعایا کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنا چاہیے اور ان کی بات کو غور سے سننا چاہیے۔ یہ جمہوری اقدار کی ایک عمدہ مثال تھی جہاں حکمران اور عوام کے درمیان براہ راست رابطہ موجود تھا۔

اخلاقیات اور اقدار پر مبنی حکومت

امام علیؑ کی حکومت محض ایک انتظامی مشینری نہیں تھی بلکہ یہ اخلاقیات اور اقدار پر مبنی ایک ایسا نظام تھا جس کا مقصد معاشرے میں نیکی کو فروغ دینا اور برائیوں کا خاتمہ کرنا تھا۔ آپؑ نے حکومتی اہلکاروں کی تقرری میں ان کی دیانت، تقویٰ اور صلاحیت کو معیار بنایا۔ آپؑ کا یہ قول آج بھی رہنما اصول ہے:

"لوگوں کے لیے بہترین حکمران

وہ ہے جو ان کی بھلائی چاہے

اور بدترین حکمران وہ ہے جو انہیں

نقصان پہنچائے۔”

عصری دنیا کے لیے رہنمائی

آج کی دنیا جہاں سیاسی انتشار، بدعنوانی، اور عدم مساوات عام ہے، امام علیؑ کی حکمرانی کا ماڈل ایک روشن مثال پیش کرتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک حقیقی فلاحی ریاست کا قیام کس طرح ممکن ہے۔ اگر آج کے حکمران امام علیؑ کے عدل، مساوات، امانت، اور عوامی مشاورت کے اصولوں کو اپنا لیں تو یقیناً ایک بہتر اور پرامن دنیا کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ یہ ماڈل صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ہر اس فرد اور معاشرے کے لیے قابل تقلید ہے جو ایک منصفانہ اور خوشحال مستقبل کا خواہاں ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔

https://whatsapp.com/channel/0029VaAOn2QFXUuXepco722Q

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

eighteen − 7 =