تحریر: ظفر اقبال
کربلا ایک ایسا واقعہ ہے کہ جو زمان و مکان کے لحاظ سے تو محدود تھا لیکن اس کا مکتبی و الہیٰ چہرہ اس قدر حسین و درخشاں تھا اور کربلائی مکتب کی حامل شخصیات کا خلوص و صداقت بارگاہ الٰہی میں اس قدر بے نہایت تھا کہ نہ یہ کسی مکان میں محدود ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی زمانے کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کارزارِ حضرت عقیلہ بنی ہاشم کے فرمان گرامی کے مطابق جمال الہی تھا اور جمال الہی کو زوال نہیں۔ کربلا ایک ایسا مکتب ہے جہاں انسانیت نے اپنا کمال و جمال متعارف کروایا اور ہر زمانے کے انسانوں کے لئے کہ جو فتنوں اور گمراہی کی دلدل میں گرفتار ہیں ان کے لئے مشعل راہ و تجلی ہدایت بن کر سامنا آیا ہے۔ قابل توجہ یہ بات ہے کہ تاریخ انسانیت میں بہت سے واقعات پیش آئے ہیں کہ جہاں مقام انسانیت پر ظلم کی انتہا ہوئی ہے اور ہمارے معاصر زمانے میں بھی ظلم و ستم کی مختلف داستانیں رنگین ہیں۔ اس نور الہی کے اندر ایک عجیب جلوہ و نورانیت تھی اور ہے کہ جس سے واقعاً انسانیت نورانی ہورہی ہے اور انشاءاللہ آپ نے اربعین حسینی پر اس کا مشاہدہ فرمایا ہوگا کہ یہ جلوہ نور و ہدایت کس قدر نور افشاں ہے۔
یہ نور درحقیقت ان الہیٰ و نورانی کردار کا ہے، کربلا کے ریگزار میں ہزاروں دشمنوں کے درمیان مصطفیٰ و مجتبیٰ تھے جن کی تعداد بہت قلیل تھی لیکن اس قلت کو کیا زوال کہ جس کا اتصال خداوندکریم کی ذات لم یزل سے ہو، اس لئے کہ خداوند کریم کے ہاں قلت و کثرت میں فرق نہیں ہے، بلکہ انسان سے احسن عمل مقصود ہے اور مکتب کربلا نہایت ہی حسین و جمیل تھا، جو کردار کربلا کی سرزمین پر رونما ہوئے بلکہ یوں کہنا چاہیئے تجلیاتِ الٰہی رونما ہوئی سب مشعل ہدایت و نور ہیں اور سب انسانوں کے لئے اسوہ کاملہ ہیں۔ چھ ماہ کے باب الحوائج حضرت علی اصغر علیہ السلام سے لے کر بزرگ ترین انصار امام حسین علیہ السلام تک سب اسوہ خیر و سعادت ہیں اور اس مدح سرائی میں شریک ہیں کہ جس میں سید الاحرار امام الہدی حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں فَإِنِّي لَا أَعْلَمُ أَصْحَاباً أَوْفَى وَ لَا خَيْراً مِنْ أَصْحَابِي وَ لَا أَهْلَ بَيْتٍ أَبَرَّ وَ لَا أَوْصَلَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي (میں اپنے اصحاب و اہلبیت سے بہتر و با وفا اصحاب و اہلبیت کو نہیں جانتا)۔
کس قدر باعظمت ہیں یہ اسوہ کاملہ لیکن ایک ہستی جو ان سب کا عملدار تھا نہایت عزت و عظمت کا حامل تھا۔ اس ہستی کی عظمت و فضیلت کا اوج یہاں پر نظر آتا ہے کہ جب وقت کے امام جوانان جنت کے سردار سبط رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ہستی کے بارے میں یہ تعبیر استعمال فرماتے ہیں بنفسی انت (میری جان و نفس آپ پر فدا ہو)۔ عزیزانِ گرامی یہ عظمت کس کو نصیب ہے کہ وہ ہستی جو تمام کائنات کی جان ہے وہ اپنی جان فدا فرما رہی ہے اس ہستی پر کہ جس کو قمر بنی ہاشم باب الحوائج حضرت اباالفضل عباس علیہ السلام کے نام سے پہنچاتے ہیں جو شیر خدا کا شیر تھا اور اپنے پدر بزرگوار کی سیرت
و صورت کا مالک تھا۔ اس ہستی کی سیرت کا کلی طور جائزہ لیں تو جب بھی حضرت عباس علیہ السلام گفتگو فرماتے تھے اس میں ہدایت اور انسان کی رشد و نمو کی بات ہوتی تھی۔ ان کے مدنظر حق کی اطاعت اور پیروی تھی اور جب بھی کوئی قدم اٹھاتے تو عزت و شرف اور کرامت کی طرف ہی اٹھاتے، جب بھی کسی چیز سے نفرت کرتے تو اس کی پلیدی کی وجہ سے۔
اپنی زندگی کے ہر مقام پر حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے وقت کے امامؑ کا دفاع فرمایا اور ان کا اتباع کیا۔ حضرت عباس علیہ السلام اس وجہ سے فضل و کمال کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ ایسا اس لئے تھا کہ اس ہستی کے ساتھ سایہ کی مانند رہتے تھے کہ جس ہستی کو سید المرسلینؐ نے جوانان جنت کا سردار قرار دیا ہے جو انبیاء و ملائکہ مقربین کا فخر ہے جو تمام فضیلتوں کا سردار ہے اور وہ ہستی سیدالشہداء کی ذات ہے۔ حضرت عباسؑ نے کبھی بھی اپنے امام پر چاہے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا زمانہ ہو یا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا دور ہو یا سید الشہداء کا عرصہ ہو نہ گفتار میں اور نہ ہی کردار و عمل میں اپنے امام پر سبقت نہیں لی بلکہ اپنے وقت کے امام کے محض پیروی اور اطاعت کرنے والے تھے اور امام کے ساتھ ان کے سائے کی مانند رہتے تھے اور یہ قمر بنی ہاشم تمام فضائل اور کمالات امام حسین علیہ السلام کی نورانی ہستی سے کسب فیض فرماتے تھے اور امام کے کامل مطیع تھے۔ قابلِ توجہ ہے یہ نکتہ کہ حتیٰ ولادت باسعادت میں بھی اپنے مولا و آقا امام حسین علیہ السلام کے تابع تھے کہ امام کی ولادت تین شعبان المعظم چار ہجری کو ہوئی اور چار شعبان کو حضرت عباس علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔
حضرت عباس علیہ السلام کی ولادت
چار شعبان المعظم ۲۶ ھجری کو حضرت ام البنین کے بطن مبارک سے قمر بنی ہاشم طلوع ہوتا ہے اور خاندان عصمت و طہارت میں خوشی کی لہر ڈور جاتی ہے اور سب سے زیادہ خوشی امام حسین علیہ االسلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیھا کو ہوتی ہے۔ ولادت کے بعد اس مولود مبارک کو والد بزرگوار حجت خدا امیر المومنین علی ابن ابیطالبؑ کے پاس لے جایا جاتا ہے تاکہ سنت حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جاری کریں۔ امیر المومنینؑ نے اپنے فرزند ارجمند کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کے مقدس کلمات ادا فرمائے۔ اس کے بعد امیر المومنینؑ نے گریہ کرنا شروع کردیا اور حضرت امیر المومنین کے گریہ کرنے کی وجہ وہ تمام مصائب تھے جو کربلا میں پیاس و عطش کی حالت میں اس یادگار علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر وارد ہونے تھے کیونکہ یہ وہ ہستی ہے جب درندہ صفت لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طیب و طاہر اولاد کا محاصرہ کرنا تھا اور ان کو شہید کرنا تھا تاکہ اپنے خیال باطل میں اسلام کا خاتمہ کردیں، اس وقت اس مولود مبارک نے اپنے امام کا دفاع کرنا ہے اور حرم رسول خدا کی امید بننا ہے۔ امیر المومنین نور امامت سے وہ سب مناظر جو اس ہستی پر آنے تھے مشاہدہ فرما رہے تھے۔
حضرت عباس علیہ السلام کے القاب
باب الحوائج:
حضرت عباس علیہ السلام کا ایک اہم ترین لقب باب الحوائج تھا، آپ اپنی زندگی میں بھی امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے ساتھ ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا فرماتے تھے اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شہادت کے بعد واقعہ کربلا تک امام حسین علیہ السلام کے ساتھ لوگوں و نیاز مندوں کی حاجت کو پورا فرماتے تھے، جب کوئی ان دو امامان بزرگوار کے پاس اپنی ضرورت پیش کرتا تو حضرت عباس علیہ السلام اس کو انجام دیتے تھے اور جیسے امیر المومنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات قدسی کے لئے مددگار تھے، حضرت عباس علیہ السلام کا یہی کردار رسول خدا کے فرزند امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھا، جب بھی امام کو کوئی مشکل پیش آتی تھی تو سب سے پہلے اپنے بھائی حضرت عباس علیہ السلام سے بیان فرماتے تھے اور وہ اس مشکل کو حل فرماتے تھے۔ اس وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب ملا۔ البتہ شہادت کے بعد بھی ہمیشہ نیاز مندوں کی حاجت کو پورا فرماتے ہیں اور اس حوالے سے بہت سے واقعات موجود ہیں کہ جن کا ذکر کرنا تفصیل طلب ہے۔
باب الحسینؑ:
حضرت عباس علیہ السلام کو اپنے برادر بزرگ حضرت امام حسین علیہ السلام سے بےحد عشق و محبت تھی اور ہمیشہ ان کی خدمت کو اپنے لئے افتخار شمار فرماتے تھے، جیسے والد بزرگوار امیر المومنین رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کو اپنے لئے افتخار سمجھتے تھے اس لئے رسول خداؐ نے فرمایا اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا، فَمَنْ اَرَادَ الْمَدِیْنَۃَ فَلْیَاْتِ (میں علم کا شہر ہو اور علی علیہ السلام اس کا دروازہ ہیں جو بھی اس شہر میں وارد ہونا چاہتا ہے اس کو دروازے سے ہی آنا ہوگا)۔ حضرت عباس علیہ السلام بھی باب شہر حسینی کا دروازہ ہیں۔ علامہ طباطبائی صاحب تفسیر المیزان ایک واقعہ اپنے استاد عارف بزرگ آقا سید علی قاضی سے نقل فرماتے ہیں کہ حالت مکاشفہ میں مجھ پر روشن ہوا کہ وجود مقدس ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام خداوند کریم کی تمام رحمت واسعہ کا مظہر ہیں لیکن اس رحمت واسعہ میں داخل ہونے کا دروازہ و حلقہ اتصال بین امت و امامت حضرت اباالفضل العباس علیہ السلام کی ذاتِ مبارکہ ہیں۔
سقا:
حضرت عباس علیہ السلام کا ایک مشہور ترین لقب سقا ہے کہ جب دشمن دین و انسانیت نے حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انسان کی بنیادی ضروریات یعنی پانی کو بند کردیا تو حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ فرات کے کنارے پر موجود دشمنوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور پانی سے لشکر حسینی کو سیراب فرماتے ہیں اور آخر میں اسی ہدف کو انجام دینے کے لئے اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔ البتہ آپ سے قبل آپ کے آباء واجداد بھی اس لقب سے ملقب تھے۔
قمر بنی ہاشم:
حضرت عباس علیہ السلام نورانی صورت اور حسن جمال کے مالک تھے، جب بھی لوگوں میں آتے تو آپ چاند کی مانند چمکتے تھے، اس لئے آپ کو قمر بنی ہاشم سے یاد کیا جاتا ہے۔
حضرت عباس علیہ السلام کی کنیت
ابوالفضل:
حضرت عباس علیہ السلام کی ایک مشہور کنیت ابوالفضل ہے، اگرچہ اس حوالے سے اختلاف ہے کہ آیا آپ کا فرزند فضل تھا کہ جس کی وجہ سے آپ کو اباالفضل کہا جاتا ہے یا صاحب فضیلت و کمال کی وجہ سے آپ اباالفضل کی کنیت سے معروف تھے۔
البتہ بعض مورخین نے لکھا ہے کہ جس کا نام بھی بنی ہاشم میں عباس تھا اسکو ابا الفضل کہا جاتا تھا۔
ابو قربۃ:
یہ بھی آپ کی ایک کنیت ہے یعنی صاحب مشک۔ جب دشمن نے اہلبیت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پانی جیسی نعمت کو بند کیا کہ جس سے دشمن کے حیوانات بھی سیراب ہورہے تھے اور اِدھر خیام حسینی میں شش ماہ کے بچے کے لئے بھی پانی نہیں تھا۔ دشمن کی آھنی دیواروں کو توڑ کر دریا فرات سے خاندان رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے پانی فراہم فرمایا، اس وجہ سے آپ کو ابو قربۃ کی کنیت سے یاد کیا جاتا ہے۔
حضرت عباس علیہ السلام کا مقام معصومین علیہم السلام کی نگاہ باعظمت میں
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم:
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سچے خواب میں کہ جس کو رؤیا صادقہ کہتے ہیں حضرت عباس علیہ السلام کو فرمایا خداوند کریم آپ کی آنکھوں کو ہمیشہ نور سے منور کرے آپ باب الحوائج ہیں اور جس کی بھی شفاعت کرنا چاہے کرسکتے ہیں۔
امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام:
مولا کائنات حضرت علی علیہ السلام جب بستر شہادت پر موجود تھے تو حضرت عباسؑ کو بلایا اپنے سینہ مبارک لگا کر فرمایا
بہت جلدی قیامت کے دن میری آنکھیں آپ کی وجہ سے منور ہونگی۔
حضرت فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھا:
ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے فرمایا حضرت فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا سے پوچھے میری امت کی شفاعت و نجات کے لئے آپ کے پاس کون سی چیز ہے؟ امیر المومنین نے جب یہ پیغام سنایا تو حضرت زھراء سلام اللہ علیہا نے یوں فرمایا اے امیر المومنین میرا فرزند عباسؑ کہ جس کے دونوں بازوں قطع کئے جائیں مقام شفاعت کے لئے کافی ہے۔
امام حسین علیہ السلام:
سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے متعدد مواقع پر اپنے بھائی کی فضلیت کو بیان فرمایا ہے کہ ان میں ایک یہی جملہ تھا بنفسی انت یا اخی (میری جان آپ پر فدا ہو)۔
امام علی ابن الحسین علیہ السلام:
امام سجاد علیہ السلام نے جب 13 محرم الحرام کو بنی اسد کے ساتھ مل کر شہداء کے بدن بے سر کو دفن فرمایا تو اپنے چچا حضرت عباس علیہ السلام کے لئے یوں فرمایا اے قمر بنی ہاشمؑ آپ کے بعد اس دنیا کے سر پر خاک ہو یعنی بہت ہی دکھ کا اظہار فرمایا اور ایک اور مقام پر فرمایا میرے چچا حضرت عباس علیہ السلام کا خداوند کریم کی بارگاہ میں اس قدر عظیم مقام ہے کہ باقی شہداء اس پر رشک کریں گے۔ اس طرح امام صادق علیہ السلام اور امام ہادی علیہ السلام و امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کی زبان مبارک سے آپ کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔
حضرت عباس علیہ السلام کی اہم صفات و خصوصیات
بندگی اور عبودیت:
حضرت عباس علیہ السلام کی مہم ترین صفت جو امام صادق علیہ السلام سے ان کے زیارت نامہ میں یوں بیان ہوئی ہے۔ السلام علیک أيها العبد الصالح (سلام ہو آپ پر اے اللہ کے صالح و فرمانبردار بندے)۔ ایک دوسری جگہ یوں فرمایا ہے السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ الْمُطِيعُ لِلّٰهِ وَ لِرَسُولِهِ وَلِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِمْ (سلام ہو آپ پر اے عبد صالح، سلام ہو آپ پر اے اللہ کے اور اس کے رسولؐ کے اطاعت کرنے والے اور امیر المومنینؑ اور امام حسنؑ اور امام حسین علیھم السلام کے اطاعت کرنے والے)۔ اب توجہ فرمائیں کہ کون سی ہستی آپ کی بندگی و اطاعت کی گواہی دے رہی ہیں۔ معصوم کی زبان مبارک جس کی بندگی اور اطاعت کی گواہ ہو وہ کس قدر باعظمت ہے اور ہستی حضرت ابا الفضل عباس علیہ السلام ہیں۔ ایک اور روایت میں ہے حضرتؑ کی پیشانی پر سجدوں کے نشان تھے جو کہ حضرت کی اللہ کی بارگاہ میں بندگی اور عبادت کی نشانی ہے۔ بندگی و عبودیت سب سے عظیم مقام ہے جس پر اللہ کے رسول اور اس کے مخلص بندے فخر محسوس کرتے تھے۔
نصرت امام زمان علیہ السلام:
ایک انسان کے لئے سب سے بڑا افتخار اور سب سے بڑی ذمہ داری امام زمان کی نصرت کرنا ہے اور نصرت بھی اس وقت جب امام زمان تنہائی کا شکار ہو۔ اس وقت جب سب امت مصلحتوں کا شکار تھے اور مختلف بہانوں سے حق کو ترک کردیا گیا تھا، کسی نے عبادت کے بہانے سے، کسی نے اہل و عیال کے بہانے سے، کسی نے مال کے بہانے سے، کسی نے خوف اور ڈر کے بہانے سے۔ اس وقت حضرت عباسؑ نے اپنے ولی اور اپنے امام کا ساتھ دیا اور اپنی جان اور اپنے بھائیوں کی جان راہ امام حسین علیہ السلام میں قربان کردی۔ امام صادق علیہ السلام نے بھی اس ایثار اور فداکاری کو حضرت عباس علیہ السلام کی صفات میں بیان فرمایا کہ سلام ہو میرا ابوالفضل العباس علیہ السلام پر جنہوں نے اپنے بھائی کی خاطر اپنی جان قربان کردی اور دشمنوں کے امان نامہ کو ٹھکرا دیا۔ ایک اور جگہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ہیں کیسا وہ باعظمت و فدا کار بھائی تھا جس نے اپنی بھائی کی نصرت کی اور وہ بہترین بھائی تھا۔ حضرت عباس علیہ السلام نے کربلا میں صبر و استقامت و شجاعت و بہادری اور وفاداری کا وہ باعظمت نمونہ پیش کیا، جو ہر راہی حق کے لئے ایک بہترین نمونہ عمل ہے۔
ایمان محکم:
اگرچہ کلمہ شہادتین پڑھنے سے انسان دیرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے لیکن ایمان ایک قلبی اعتقاد کا نام ہے، جو کلمہ بھی زبان پر لاتے ہیں دل اس کو قبول کرتا ہو اور اس پر دل سے یقین ہو اور عمل و کردار سے اس کا اظہار بھی ہو تو یہ ایمان ہے کہ خود امیر المومنینؑ نے ایمان کی یہی تعریف بیان فرمائی ہے۔ امام صادق علیہ السلام اپنے چچا حضرت عباس علیہ السلام کے ایمان کے متعلق فرمایا ہے کہ کان العباس صلب الایمان (حضرت عباس علیہ السلام ایمان میں محکم واستوار تھے)۔ یہی ایمان انسان کی رفتار و کردار میں بھی ثبات و استواری کی نشاندہی کرتا ہے اور محکم اور سخت طوفانوں میں ان کے اندر لغزش نہیں آتی اور پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے لیکن مومن کامل کو اپنے ایمان سے ہٹا نہیں جا سکتا۔ حضرت عباس علیہ السلام کی شخصیت بھی ایسے ہی محکم ایمان سے منور تھی۔
بصیرت:
جب فتنوں اور شبہات کا زمانہ ہو تو اس وقت جو چیز انسان کو نجات عطا کرتی ہے وہ بصیرت ہے۔ انسان بصیرت سے ہی فتنوں کے پشت پردہ عوامل کو بھانپ لیتا ہے اور دشمن کی چالوں سے واقف ہوجاتا ہے۔ بے بصیرتی نے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور دین اور مسلمانوں کے دشمنوں نے سب سے زیادہ استفادہ ان کی بے بصیرتی سے کیا ہے۔ حضرت عباس علیہ السلام یادگار امیر المومنینؑ کہ جو بصیرت کے امام ہیں صاحب بصیرت تھے۔ یہاں پر بھی امام صادق علیہ السلام اپنے چچا حضرت عباس علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں کان العباس نافذ البصیرۃ (حضرت عباسؑ ہمیشہ دقیق و عمیق بصیرت کے مالک تھے)۔ بصیرت یعنی پشت پردہ عوامل سے آگاہی، دوست و دشمن کی شناخت، ایک واقعہ کے فقط ظاہری نگاہ پر اکتفا نہ کرنا بلکہ اس کی دقت و گہرای میں جانا یہ اور یہ معلوم ہونا کہ ابھی میرا وظیفہ اپنے مولا و امام کی نسبت کیا ہے اور کس کام کو کس وقت انجام دینا ہے، یہ سب ارکان بصیرت ہیں۔
عہد و پیمان کی وفاداری:
علامہ حلی رحمت اللہ علیہ نے اپنی کتاب النقد التنزیۃ میں یہ واقعہ نقل فرمایا ہے کہ ایک دن امام علی ابن ابی طالبؑ نے حضرت عباسؑ کو اپنے پاس بلایا اور ان کو اپنے سینہ مبارک سے لگایا اور پیشانی پر بوسہ دیا اور حضرت عباس علیہ السلام سے یوں عہد لیا کہ جب عاشورا کے دن فرات میں پانی تک پہنچق تو ہرگز ایک قطرہ بھی نہیں پینا کہ جب اس وقت امام حسین علیہ السلام پیاسے ہو۔ حضرت عباسؑ نے اپنے پدر بزرگوار کے عہد سے وفاداری فرمائی اور دریائے فرات سے اس شدت پیاس کے ساتھ مشک کو بھر کر باہر آگئے اور یہی اہل ایمان کی نشانی ہے۔ یہی عہد تھا جو حضرت ام البنین کے فرزندان نے اولاد حضرت فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا کی نسبت انجام دیا۔ جب امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور اپنے اصحاب و اہلبیت سے اپنی بیعت کو اٹھا لیا اور فرمایا دشمن فقط میرے خون کا پیاسا ہے، آپ سب اس اندھیرے سے استفادہ کرتے ہوئے چلے جائیں تو اس وقت سب سے پہلے جس ہستی نے اپنی وفاداری کا اعلان کیا وہ حضرت عباس علیہ السلام تھے اور اپنے مولا و آقا کو فرماتے ہیں کہ ہم ہرگز یہ نہیں کرسکتے اور خدا ہمیں وہ دن نہ دکھائے کہ جس دن آپ کے بغیر زندہ ہوں۔
بشکریہ اسلام ٹائمز