نومبر 24, 2024

حضرت اقبال ؒ اور فارسی زبان

تحریر: شبیر احمد شگری

مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا محمدعلی ،مولانا شوکت علی،حضرت قائد اعظم محمد علی جناح جیسی نمایاں شخصیات، جن کی زندگی بھی حضرت اقبالؒ کی حیات کے مانند تھی۔یہ سب ایک ہی نسل اور عہد سے تعلق رکھتے تھے اوران کا شمار حریت پسندوں و مجاہدوں میں تھالیکن حضرت اقبالؒ کی شخصیت ان سے جداگانہ تھی، حضرت اقبالؒ کے کام کی عظمت کا موازنہ کسی اور سے نہیں کیا جاسکتا۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ باقی شخصیات کے کاموں کی اہمیت کم تھی لیکن حضرت اقبالؒ کا مسئلہ صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ اسلامی دنیا اور مشرق کا مسئلہ تھا ۔انھوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔
حضرت اقبالؒ کبھی ایران نہیں گئے لیکن ان کی زیادہ شاعری فارسی زبان میں ہے ۔ حضرت اقبالؒ کی فارسی شاعری اور جو اہمیت وہ ایران کو دیتے تھے اس کی وجہ سے ایرانی قوم ان کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ ایران میں حضرت اقبال کو اقبال لاھوری کے نام سے جانا جاتا ہے اور لاھور کو بھی ایرانی انھی کے توسط سے پہچانتے ہیں۔ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ خامنہ ای خود کو حضرت اقبالؒ کا مرید مانتے ہیں۔ اور ان سے عشق کا یہ عالم ہے کہ حضرت اقبال کے دو ہزار سے زائد اشعاران کو زبانی یاد ہیں۔خامنہ ای صاحب انقلاب ایران سے پہلے حضرت اقبالؒ پر کتاب لکھ چکے تھے ۔ اسی طرح شہید مطہری جیسی دانشور شخصیت بھی حضرت اقبال سے بہت متاثر تھی۔ ایرانی کہتے ہیں کہ حضرت اقبال انقلاب اسلامی ایران کی پیشگوئی کر چکے تھے ۔ انھوں نے فرمایا تھا۔
میرسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند دیدہ ام از روزن دیورا زندان شما
اس شعر میں حضرت اقبالؒ فرما رہے ہیں کہ میں نے زندان کے دیوار کے سوراخ سے ایک مرد کو آتے دیکھا ہے جو غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالے گا۔ ایرانی اس شعر کو حضرت اقبالؒ کی حضرت امام خمینی ؒ کی آمد اورانقلاب اسلای ایران کی پیشگوئی کہتے ہیں۔ اس لئے بھی ایرانی قوم حضرت اقبالؒ کو بہت احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ یہاں میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی اس تقریر کے چند جملے بھی بیان کرنا چاہوں گا جو انھوں نے 1986 میں کی تھی جب وہ ایران کے صدر تھے ۔ تہران میں ہونے والی اس تقریب میں حضرت اقبال کے بیٹے جاوید اقبال مرحوم اور ان کے بیٹے منیب اقبال نے بھی شرکت کی تھی۔ یہ تقریر انتہائی پر اثر اور ایرانیوں کی حضرت اقبال سے محبت و جزبات کا بہترین اظہار بھی ہے ۔جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں پاکستان کے علاوہ دوسری قوموں نے حضرت اقبال سے کیا رہنمائی لی ہے ۔
آیت اللہ خامنہ ای صاحب فرماتے ہیں۔ وہ درخشاں ستارہ جس کی یاد ،جس کا شعر ،جس کی نصیحت اور سبق گٹھن کے تاریک ترین ایام میں ایک روشن مستقبل کو ہماری نگاہوں کے سامنے مجسم کررہا تھا،آج خوش قسمتی سے ایک مشعل فروزاں کی طرح ہماری قوم کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کیے ہوئے ہے ۔ہماری عوام جو دنیا میں اقبال کے پہلے مخاطب تھے ،افسوس کہ وہ کافی بعد میں اس سے آگاہ ہوئے ،ہمارے ملک کی خاص صورت حال ،خصوصاً اقبال کی زندگی کے آخری ایام میں ان کے محبوب ملک ایران میں منحوس استعماری سیاست کا غلبہ اس امر کا باعث بنا کہ وہ کبھی ایران نہ آئے ۔فارسی کے اس عظیم شاعر جس نے اپنے زیادہ تر اشعار اپنی مادری زبان میں نہیں بلکہ فارسی میں کہے ،کبھی اپنی پسندیدہ اور مطلوب فضا،ایران میں قدم نہیں رکھا ،اور نہ صرف یہ کہ وہ ایران نہ آئے بلکہ سیاست نے ،جس کے خلاف اقبال عرصہ درازتک برسرِ پیکار رہے ،اس بات کی اجازت نہ دی کہ اقبال کے نظریات و افکار کا بتایا ہوا راستہ اور درس ایرانی عوام کے کانوں تک پہنچے جسے سننے کیلئے وہ سب سے زیادہ بے تاب تھے ۔اس سوال کا جواب کہ کیوں اقبال ایران نہیں آئے ،میرے پاس ہے ۔
جب اقبال کی عزت و شہرت عروج پر تھی اور جب بر صغیر کے گوشہ و کنار میں اور دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں میں انہیں ایک عظیم مفکر،فلسفی ،دانشور ،انسان شناس اور ماہر عمرانیات کے طور پر یاد کیا جاتا تھا،ہمارے ملک میں ایک ایسی سیاست نافذ تھی کہ ایران آنے کی دعوت نہ دی گئی اور ان کے ایران آنے کے امکانات فراہم نہ کئے گئے ۔سالہا سال تک ان کی کتابیں ایران میں شائع نہ ہوئیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اس ملک میں ایرانی اور مسلمان کے تشخص کو نابود کرنے کیلئے غیر ملکی ادب و ثقافت کا تباہ کن سیلاب رواں تھا۔اقبال کا کوئی شعر اور کوئی تصنیف مجالس و محافل میں عوام کے سامنے نہ لائی گئی۔
آج اقبال کی آرزو یعنی اسلامی جمہوریت نے ہمارے ملکی میں جامہ عمل پہن لیا ہے ۔اقبال لوگوں کی انسانی اور اسلامی شخصیت کے فقدان سے غمگین رہتے تھے اور اسلامی معاشروں کی معنوی ذلت اور ناامیدی کو سب سے بڑے خطرے کی نگاہ سے دیکھتے تھے ،لہذا انہوں نے اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ مشرقی انسان اورخصوصاً مسلمان کی ذات اور وجود کیلیے کام کیا۔
اگر وہ آج زندہ ہوتے تو ایک ایسی قوم کو دیکھ سکتے جو اپنے پیروں پر زندگی بسر کرتی ہے ، اپنے قیمتی اسلامی دارالحکومتوں سے سیراب ہے ، خود انحصاری کرتی ہے ، اور مغربی غلامی اور مغربی اقدار کے نظام سے بے نیاز اور طاقتور زندگی گزارتی ہے اور اہداف پیدا کرتی ہے ۔ ان اہداف پر چلتی ہے ، اور خود کو قومیت اور وطن پرستی کی چار دیواری میں قید نہیں کرتی اور اقبال کے دوسرے خواب، جو ان کے گراں قدر اثرات میں بکھرے پڑے ہیں، اس قوم میں یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
فارسی زبان جس نے اپنے اقبال کے ذہن کے ساتھ زندگی گذاری ہے ،بات کروں تاکہ اس عظیم اجتماع مین اپنے اوپر ان کے عظیم احسان اور اپنے عزیز لوگوں کے ذہن پر ان کے اثرا ت کے عظیم حق کو کسی حد تک ادا کرسکیں۔ اقبال تاریخ اسلام کے نمایاں ،عمیق اوراعلی شخصیتوں میں سے ہیں کہ ان کی خصوصیات اور زندگی کے صرف ایک پہلو کو مد نظر رکھا جاسکتا اور ان کے صرف اس پہلو اور اس خصوصیت کے لحاظ سے تعریف نہیں جاسکتی ۔اگر ہم صرف اسی پر اکتفا کریں اور کہیں کہ اقبال ایک فلسفی ہیں اور ایک عالم ہیں تو ہم نے حق ادا نہیں کیا ۔اقبال بلاشک ایک عظیم شاعر ہیں اور ان کا بڑے شعرائ میں شمار ہوتا ہے ۔اقبال کے اردو کلام کے بارے میں اردو زبان و ادب کے ماہرین کہتے ہیں کہ بہترین ہے ،شاید یہ تعریف، اقبال کی بڑی تعریف نہ ہو کیونکہ اردو زبان کی ثقافت اور نظم کا سابقہ زیادہ نہیں ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کے اردو کلام نے بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں بر صغیر کے افراد پر(خواہ ہندو ہوں یا مسلمان) گہرا اثر ڈالا ہے اور ان کو اس جد وجہد میں اس وقت تدریجی طور پر بڑھ رہی تھی ،زیادہ سے زیادہ جوش دلایا ہے ۔
طوالت کے پیش نظریہاں خامنہ ای صاحب کی تقریر کا ایک مختصر ساحصہ پیش کیا ہے لیکن آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایرانی قوم بھی حضرت اقبال ؒ کو اپنا قومی شاعر مانتی ہے اور ان کی بہت قدر کرتی ہے ۔ اور صرف ایران ہی کی بات نہیں بلکہ پوری دنیا میں حضرت اقبال کے افکار کو پڑھا جاتا ہے اس پر تحقیق کی جاتی ہے ۔ اور ساری دنیا ان کی عظمت کی قائل ہے ۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

2 + 7 =