نومبر 17, 2024

حسین منی و انا من الحسین

تحریر: مظہر حسین ہاشمی

اسلام کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اسلام کا بچپن جناب ابو طالب ؑ کی گود میں بہلتا نظر آئے گا، اسلام کی جوانی رحمۃ اللعالمینﷺ کے دامن کی چھاؤں تلے آرام کرتی نظر آئے گی اور اسلام کا بڑھاپا مولا علی ؑکے طاقتور بازوؤں کے آنگن میں سانس لیتا نظر آئے گا۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسلام کو خود کو بچانے کے لئے حسین ؑجیسے لجپال کا سہارا اور پناہ لینا پڑی۔ حسین مولا کی زندگی پر طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ 8 جنوری 626ء بدھ کی صبح، خاتون جنت فاطمہ زہراؑ کی آغوش طاہرہ میں تشریف لائے۔ نانا رسولﷺ کی زبان مبارک چوس چوس کر علم لدنی کے وارث بنتے رہے۔ بابا علی ؑکی گود میں بیٹھ کر درس توحید لیتے رہے۔ حبش کی شہزادی اماں فضہ ؓکے ہاتھوں جھولا جھولتے ہوئے لوری کی شکل میں ناطق قرآن ہوکر صامت قرآن کی تلاوت سنتے رہے۔ 627ء میں جنگ خندق میں نانا رسولﷺ کو نہ صرف یہ کہتے سنا کہ ”قد برز الایمان کلہ الی الکفر کلہ“ (باتحقیق کل ایمان، کل کفر کے مقابلے میں جا رہا ہے) بلکہ بابا علی ؑ کے ہاتھوں عمرو ابن عبدودکی گردن ہوا میں بھی اڑتے ہوئے دیکھی۔

628ء میں جنگ خیبر میں ایک ہزار آدمیوں سے اکیلے لڑنے والے اور 39 دن تک مسلمانوں کو ڈرا کر مار بھگانے والے پہلوان مرحب و عنتر کو اپنے بابا کی ذوالفقار سے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ 630ء میں فتح مکہ کے دن اسلام کے ازلی دشمنوں کو نانا رسولﷺ اور بابا علی ؑکے سامنے سر جھکائے کھڑا دیکھا اور جب چلنا شروع کیا تو 631ء میں نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کرنے اور نانا رسولﷺ کی صداقت و رسالت کی گواہی دینے کے لئے اپنی طاہرہ ماں، ابو تراب بابا اور عظیم بھائی امام حسن ؑکے ساتھ خود چل کرگئے۔ کبھی اللہ کے صادق رسولﷺ کی زبان مبارک سے “حسین منی و انا من الحسین” (حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں) جیسی فضیلت سنی، تو کبھی “الحسن والحسین سیدہ شباب اہل الجنہ” (حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں) کی بشارت سنی۔ کبھی جبریل امین ؑکو فطرس کے ساتھ اس کا سفارشی بن کر آتے ہوئے دیکھا تو کبھی درزی بن کرجنت سے عید کے کپڑے لے کر آتے ہوئے دیکھا۔ 632ء میں پنجتن پاک کے پانچویں بن کر زیر کساء آیہ تطہیر کے مصداق بنے۔ چند ماہ بعد میدان خم غدیر پر سوا لاکھ کے حاجیوں کے مجمع میں اپنے بابا علی ؑکا بازو نانا رسولﷺ کے ہاتھ میں نہ صرف بلند ہوتے ہوئے دیکھا بلکہ “من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ” (جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے) کا اعلان بھی سنا اور بخن بخن (مبارک مبارک) کی آوازیں بھی بلند ہوتے ہوئے سنیں۔

پھر دو ماہ بعد 25 مئی 632ء کو اپنے شفیق نانا کی رحلت کا کبھی نہ بھلا سکنے والا غم بھی روتی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ کریم نانا جو اپنی واللیل زلفیں ننھے ہاتھوں میں پکڑا کر سواری بن جاتے تھے، وہ شفیق نانا جو حسین ؑکو گرتا دیکھ کر مسجد نبوی کے منبر پر خطبہ دینا بھول جاتے تھے، وہ نمازی نانا جو نمازکے سجدہ میں 70 دفعہ سبحان رب الاعلیٰ پڑھنا تو گوارا کر لیتے تھے، لیکن حسین ؑکو اپنی پشت سے اٹھانا پسند نہیں کرتے تھے۔ آپ نے اپنے بچپنے کے سات سال اپنے کریم نانا کی شفقت و محبت کے سائے میں گزارے۔ وہ رحمۃ اللعالمین نانا اب آپ کو اپنی امت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر داغ مفارقت دے گئے۔ ابھی نانا کو گئے عرصہ ہی کیا گزرا تھا کہ معصوم روتی آنکھوں سے اس دروازے کو نہ صرف آگ لگتے دیکھا بلکہ اس دروازے کو اپنی ماں زہراؑ کے پہلو پہ گرتے اور چھوٹے بھائی محسن کو ماں کے پیٹ میں شہید ہوتے بھی دیکھا۔ جس دروازے پر نانا رسولﷺ رک کر آیہ تطہیر پڑھا کرتے تھے، جس پر سردار ملائکہ جبرائیل ؑاور ملک الموت عزرائیل ؑبھی اجازت لے کر آتے تھے، اس عظیم اور مقدس گھر پر نہ صرف یلغار کی گئی بلکہ اپنے مولائے کائنات بابا اور سیدۃ النساء العالمین ماں پر ظلم و ناانصافی کے بادل برستے ہوئے بھی دیکھے۔

بقول شبنم شکیل ؔ
جس کی خاطر سے بنائی گئی دنیا
ساری اہل دنیا سے وہی گھر، نہیں دیکھا جاتا
حسین ؑ مولا کو بچپن میں ہی سمجھ آگئی کہ سقیفہ میں کربلا کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی ہے۔ ابھی یہ غم تازہ تھا کہ سات سال کی عمر میں 26 اگست 632ء کو سب سے محبوب ہستی اور پناہ گاہ، اماں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی جدائی کا سامنا کرنا پڑا۔ حسین مولاؑ کے کانوں میں اپنی ماں کے وہ الفاظ گونج رہے تھے کہ “ثبت علی مصائب لو انہا ثبت علی الایام صرنا لیا لیا۔۔۔” (جتنی مصیبتیں مجھ پر آئیں، اگر یہ روشن دنوں پر آتیں تو وہ تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے) اب نانا بھی نہ تھے کہ امتی ظاہراً لحاظ کرتے اور نہ ماں جیسی شفیق ممتا کہ پریشانی میں 7 سالہ معصوم حسین ؑکو دلاسا اور تسلی دیتی اور بابا علی ؑنے تو رسول پاکﷺ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے صبر اور خاموشی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ 632ء سے لے کر 656ء تک یعنی 25 سال تک اپنے بابا علی ؑکے ساتھ خانہ نشین ہوکر زمانے کی سنگدلی کا جائزہ لیتے رہے۔ لیکن جب اور جہاں اسلام کو ضرورت پڑی، اپنے بابا علی ؑاور بھائی امام حسن ؑکے ساتھ مل کر اسلام اور مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرتے رہے۔

اس گوشہ نشینی اور تنہائی کے دور میں، گھر میں قرآن کی جمع آوری کا منظر بھی دیکھا اور گھر سے باہر چاہنے والوں پر مصائب کی یورش کو بھی دیکھا۔ جو اعلان نانا رسولﷺ نے بابا علی ؑکی خلافت کا 16 مارچ 632ء کو میدان خم میں کیا تھا، اسے 25 سال بعد 17 جون 656ء میں بابا علی ؑکے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کے ہجوم کی شکل میں پورا ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ آپ ؑکے بابا نے ظاہری خلافت کو مسلمانوں کی بھلائی اور انصاف قائم کرنے کی خاطر قبول تو کر لیا، لیکن بہت سوں نے اس خلافت راشدہ کو تسلیم نہ کیا۔ مختلف حیلے بہانوں سے برپا ہونے اور ایک سال تک جاری رہنے والی جنگ جمل کو نومبر 656ء سے نومبر 657ء تک میدان جنگ میں رہ کرفتح ہوتے دیکھا۔ ابھی جنگ جمل کی دھول نہیں بیٹھی تھی کہ مارچ 657ء میں آپ ؑکو اپنے بھائیوں سمیت ابو یزید حاکم شام کی بغاوت کچلنے کے لئے بابا علی ؑکی کمان میں صفین آنا پڑا۔ اس جنگ میں آپ ؑنے اپنے 12 سالہ چھوٹے بھائی عباس علمدارؑ کے ساتھ شامی باغیوں سے پانی کے گھاٹ پر قبضہ چھڑا کر سب کے لئے پانی بھرنے کا اعلان کیا۔

110 روز تک جاری رہنے والی اس جنگ میں لشکر شام کو چال بازی اور مکاری سے اپنی جان بچانے کے لئے قرآن مجید کو نیزوں پر اٹھائے اور حکمین مقرر کرتے ہوئے دیکھا۔ حکمین کے مہمل، لغو اور مکارانہ فیصلے کو جب مسترد کیا گیا تو پھر خارجیوں کے 18 ہزار افراد کو راہ راست پر لانے کے لئے مارچ 658ء میں آپ کو بابا علی کی قیادت میں نہروان بھی جانا پڑا۔ جس میں بابا علی ؑکے سمجھانے پر 6 ہزار خارجی گھروں کو لوٹ گئے، لیکن 12 ہزار خارجیوں سے جنگ ہوئی اور صرف 9 آدمی زندہ بچے اور مولاؑ کی فوج میں سے صرف 9 آدمی شہید ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد اپنے بابا علی ؑکے سپہ سالار مالک اشتر کو زہر ملے دودھ دیئے جانے اور 27 سالہ محمد ابن ابوبکر کی حاکم شام کے سفاکانہ حکم کی بنیاد پر گدھے کی کھال میں زندہ جلائے جانے کی اندوہ ناک خبریں بھی سنیں۔ پھر 28 جنوری 661ء کو نماز صبح کے سجدے میں اپنے بابا علی ؑ کو عبدالرحمن ابن ملجم کی زہر آلود تلوار سے زخمی ہوتے دیکھا اور ہاتف غیبی کی یہ اندوہناک ندا بھی سنی “قد قتل امیر المومنین۔۔۔۔”، “امیرالمومنین قتل کر دیئے گئے، ارکان ہدایت گرا دیئے گئے۔”

پھر ستمبر 661ء میں وقت کے امام اور بڑے بھائی امام حسن ؑ کو اسلام کی سربلندی اور اپنوں کی بیوفائی کی وجہ سے خلافت سے دستبردار ہوتے ہوئے دیکھا اور سب و شتم کی جو قبیح اور مسموم رسم ابو یزید حاکم شام نے بابا علی ؑپر ملک شام سے شروع کی تھی، اس مکروہ رسم کو 72 ہزار منبروں تک پھیلتے ہوئے بھی دیکھا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ آپ کو بچپن کے ساتھی اور غمخوار بھائی امام حسن ؑکو اموی چال سے انہی کی بیوی جعدہ کے ہاتھوں 27 مارچ 670ء کو نہ صرف مسموم دیکھنا پڑا بلکہ کریم نانا کے ساتھ دفن کرنے کی وصیت کے بدلے میں جسد مبارک سے 70 تیر بھی نکالنے پڑے۔ ابو یزید سے دس سال تک تو بھائی امام حسن ؑکی امامت میں صلح نامے کا پاس رکھا اور بھائی امام حسن ؑکی شہادت کے بعد مزید دس سال یعنی 28 اپریل 680ء تک ابو یزید کی موت ہونے پر اس عہد پر کاربند رہے۔

لیکن حالات نے یک دم پلٹا کھایا اور امام ؑنے دیکھا کہ 632 ء میں نانا رسولﷺ کی رحلت کے بعد بابا علی ؑسے جو بیعت کا مطالبہ کیا گیا تھا، وہی مطالبہ آج پھر 680ء میں ہو رہا تھا۔ حسین مولاؑ نے طے کر لیا تھا کہ جب میں نے پہلے اپنے بزرگوں کی روش سے علیحدگی اختیار نہیں کی تو آج علیحدگی کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ مجھے تو آج یہ ثابت کرنا ہے کہ میں امام بھائی کی صلح کے احترام میں خاموش تھا، ورنہ مجھ حسین ؑمیں نانا کا عزم، بابا کا حوصلہ، ہاشم کا خون اور عبدالمطلب کا جوش سلامت ہے۔
صبر زہراؑ کا تقاضا تھا جو اب تک تھا خاموش
ورنہ پہلو میں دل حیدر کرار ؑبھی ہے
حاکم شام کا فاسد بیٹا یزید جب خلافت جیسے مقدس منبر پر متمکن ہوا تو 3 مئی 680ء کو اپنے والد کی وصیت کی روشنی میں مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ کے ذریعے امام حسین ؑسے بیعت طلب کی۔ امام حسین ؑ نے مروان کے سامنے کہہ دیا ”مثلی لاے بایع مثل یزید“ (مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا)۔ آپ ؑنے اسی روز اپنے ناناﷺ اور اماں زہراؑ کے مزارات مقدسہ سے مدینہ چھوڑنے کی اجازت طلب کی۔ جوانان بنی ہاشم اور مخدرات عصمت و طہارت کے ہمراہ 4 مئی 680ء کو مدینہ سے مکہ کی طرف عازم سفر ہوئے۔

435 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے چھٹے دن یعنی 9 مئی کو مکہ کی پرامن سرزمین پر پہنچے۔ عراق کے شہر کوفہ کی طرف سے ہزاروں کی تعداد میں حسین مولاؑ کو عراق بلانے کے لئے خط موصول ہونے شروع ہوگئے۔ (یاد رہے کہ 20 سال پہلے مولا علی ؑکی خلافت کا دارالخلافت کوفہ رہا تھا)۔ آپ ؑ نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل ؑکو 19 جولائی 680ء کو کوفہ بھیجا۔ حسین مولاؑ کو عراق میں حالات اچھے ہیں، کی خبر دی گئی۔ پھر ستمبر میں حج کا موسم آگیا۔ آپ ؑنے حج کی نیت کی اور دوران حج آپ ؑکو معلوم ہوا کہ 30 یزیدی گماشتے حاجیوں کے لباس میں عمر بن سعد کی امارت میں آپ ؑکو قتل کرنے کے ارادے سے مکہ آچکے ہیں۔ آپ ؑ نے حج کے احرام توڑ دیئے، تاکہ حرمت کعبہ پامال نہ ہو، لاکھوں کے مجمع میں اموی چال کامیاب نہ ہوسکے اور قاتل زیر نقاب نہ چلے جائیں۔ آپ ؑ 9 ستمبر 680ء کو عراق کی طرف راہی سفر ہوئے۔ آپ ؑکو پانچویں منزل زابلہ پر 10 ستمبر کو مسلم بن عقیل ؑکی شہادت کی خبر ملی، کیونکہ کوفہ میں مسلمان تو بہت تھے، لیکن مسلم ایک تھا۔

آپ بہت رنجیدہ ہوئے، لیکن بحکم خدا اپنا سفر جاری رکھا۔ نویں منزل ذوحسم پر یزید کے ایک ہزار فوجیوں نے حر بن یزید ریاحی کی قیادت میں آپ ؑ کا راستہ روکا۔ لیکن آپ ؑ چلتے رہے اور 2 اکتوبر کو چودہویں منزل کرب و بلا پہنچے۔ آپ ؑ نے وہیں پر خیمے لگانے کا حکم دیا۔ شامی اور کوفی فوجوں کی آمد شروع ہوئی۔ عمر بن سعد آئے، شمر بن ذی الجوشن پہنچے۔ 7 اکتوبر کو پانی بند کر دیا گیا اور 9 اکتوبر کو کم سے کم 30 ہزار فوج یزید و ابن زیاد نے جنگ کا طبل بجا دیا۔ حسین مولاؑ نے اپنے اور جانثاران کے لئے عبادت خدا کی خاطر ایک دن کی مہلت لے کر یزیدی فوج کو ایک دن مزید سوچ لینے کی مہلت دی کہ اب بھی جہنم کا ایندھن بننے سے بچ سکتے ہو تو بچ جاؤ، کیونکہ جوانان جنت کے دو سرداروں میں سے ایک سردار میں خود ہوں۔ لیکن عقل کے اندھوں اور ناعاقبت اندیشوں پر اس نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا، سوائے حر بن یزید ریاحی اور اس کے گھر والوں کے، جو معافی کے بعد جنت کے حقدار ٹھہرے۔

10 اکتوبر کو مختلف مراحل میں جنگ ہوتی رہی، کچھ اصحابؓ صبح کی نماز کے وقت، کچھ ظہر کی نماز اور باقی اصحاب ؓاور بنو ہاشم ؑایک ایک کرکے داد شجاعت دیتے ہوئے اسلام پر قربان ہوتے رہے۔ آخر میں 6 ماہ کے علی اصغر ؑکو بابا کے ہاتھوں پر حرملہ کا تیر سیراب کرگیا۔ خیام میں آخری سلام کرکے آپ ؑ میدان جنگ میں آئے، حملے پہ حملہ کیا۔ تھوڑی دیر میں زمین کربلا میں بھونچال آیا اور آواز بلند ہوئی “الا قتل الحسین بکربلا، الاذبح الحسین بکربلا۔۔۔۔”، “حسین ؑکربلا میں قتل ہوگئے، حسین ؑکربلا میں ذبح ہوگئے۔۔۔۔” حسین مولا ؑ 626ء سے 680ء تک اپنے کریم اور شفیق نانا کی حدیث “حسین منی” (حسین ؑمجھ سے ہے) کا عملی نمونہ بن کر رہے اور 680ء کے بعد “وانا من الحسین” (اور میں حسین ؑسے ہوں) کی عملی تفسیر بن گئے۔ امام وقت نے اسلام اور انسانیت کو اپنے، نوجوانان بنو ہاشم اور اصحاب باوفا کے مقدس خون سے ایسا آب حیات پلا دیا کہ ہر باشعور اور غیرت مند مرد مسلمان اور انسان تاقیامت امام حسین ؑکا ممنون اور مقروض ہوگیا اور کائنات کے مظلوم، کمزور اور مستضعف انسان کو حریت اور آزادی کا ایسا انقلابی درس دے گئے کہ وہ اپنی ناتوانی اور کمزوری کو ایک طرف رکھ کر وقت کے یزید، ابن زیاد، شمر اور مروان سے بے خوف و خطر ٹکرا رہے ہیں اور ٹکراتے رہیں گے۔

 

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

3 × 2 =