نومبر 22, 2024

حسینؑ اور کربلا قرآن و حدیث کے آئینے میں

تحقیق وتحریر: کوثر عباس قمی الحیدری

ہمارا مذہب نسبتوں کا مذہب ہے، جب کسی عام زمین کی نسبت خدا کے گھر کی طرف ہو جائے تو وہ قابل احترام ہو جاتی ہے۔ کسی کاغذ کی نسبت قرآن کی طرف ہو جائے تو قابل احترام ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کسی جانور کی نسبت حضرت اسماعیل کے دُنبے سے ہو جائے تو وہ اور اس کی رسیاں بھی قابل احترام ہو جاتی ہیں اور شعائر اللہ کہلاتی ہیں۔ اسی طرح ماہِ محرم کی نسبت بھی حسین ؑ ابن علی ؑ کی طرف ہے اور قابل احترام ہے ( جس کی حرمت کو فوجِ یزید نے پامال کیا)علامہ سید امداد حسین کاظمی سورہ فجر کی اس آیت ’’والفجر ولیال عشر ‘‘ قسم ہے وقت فجر اور دس راتوں کی‘ کی تفسیر میں فخر الدین رازی اور کتاب سواطع الابھام‘ تفسیر التنزیل سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے محرم کا پہلا عشرہ مراد ہے اور اس میں اس دن کی بزرگی پر تشبیہ ہے کیونکہ اس میںیوم عاشورا ہے۔اور نبی کریم ﷺ سے محبت رکھنے والا ہر شخص اپنے اپنے انداز میں ان دس راتوں میں آپ کے نواسے پر آنے والے مصائب کی یاد زندہ کرتا ہے بلکہ مشاہدہ میں آیا ہے کہ ان ایام میں غیر مسلم بھی انسانیت (پر آنے والے مصائب) کے ناطے حسین ؑ ابن علی ؑ کی بارگاہ میں ہدیہ تعزیت پیش کرتے ہیں۔ سال کا آخری مہینہ ذی الحجہ بھی قربانی کا اور سال کا پہلا مہینہ بھی قربانی کا۔ وہ قربانی ۱۰ (ذی الحجہ) کو ، یہ بھی ۱۰ (محرم) کو۔ وہ قربانیوں کی ابتداء ۔۔۔ اور یہ قربانیوں کا انتہاء۔
۱۰ ذی الحجہ والے (ابراہیم و اسماعیل) کعبہ بنانے والے، اور ۱۰ محرم (حسین ؑ ابن علی ؑ ابی طالب ؑ ) کعبہ بچانے والے۔ بلکہ بسانے والے۔ جس طرح اُن کی یاد کو باقی رکھنا ضروری ہے اور جذبہ قربانی اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ضروری ہے اسی طرح نبی کریم ﷺ کے نواسے کی قربانی کی یاد باقی رکھنا بھی ضروری ہے اور دین کیلئے جان و مال اور اولاد قربان کرنے کا جو سبق حسین ؑ ابن علی ؑ نے کربلا میں دیا، اسے بھی اگلی نسلوں تک پہنچانا ہے۔امام حسین علیہ السلام کی قربانی سورہ صافات کی آیت ۱۰۷ کے مطابق ’’ذبح عظیم‘‘ ہے یعنی عظیم قربانی اور اس قربانی کی یاد قائم رکھنے کا نام ’’عزاداری‘‘ ہے۔ نواسۂ رسولؐ اور آپ کی ذریت پر آنے والے مصائب کو سن کر گریہ کرنا ’’رونا‘‘ مقصد حسین ؑ سے اتفاق اور کربلا میں جو جہاد ہوا اُس میں شرکت سے مجبوری پر حسرت و ملال کا اعلان ہے یا لیتنا کنا معکم و نفوذ فوزاً عظیما اے کاش ہم بھی آپ کے ساتھ جہاد کرتے اور شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوتے۔سورہ دُخان کی آیت ۲۹ میں ارشاد ہوا ’’فما بکت علیہم السماء والارض پس (کچھ لوگ ایسے تھے) جن پر نہ تو آسمان رویا نہ زمین۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں علامہ مرحوم سید امداد حسین کاظمی تحریر فرماتے ہیں کہ تفسیر مجمع البیان میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آسمان حضرت یحیٰ بن زکریا علیہما السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد چالیس دن تک رویا ہے اور ان دونوں کے سوا کسی پر نہیں رویا۔ کسی نہ کہا! یابن رسول اللہ ﷺ اس کے رونے کی علامت کیا تھی؟ (یعنی کیسے رویا؟) فرمایا: طلوع و غروب کے بعد کی سرخی (خون آلود ہو جاتی اور) مزید بڑھ جاتی تھی۔ ( اور شہادت والے دن جو بھی پتھر اُٹھایا جاتا اس کے نیچے خون دکھائی دیتا، یہ زمین کا رونا تھا)۔
ذبح عظیم کے فضائل و مصائب پر پہلی مجلس حضرت اسماعیل ؑ کی جگہ دُنبہ ذبح ہونے کے بعد ہوئی تھی جب حضرت ابراہیم ؑ کے دِل میں خیال آیا کہ اگر حضرت اسماعیل ؑ ذبح ہو تے ، میں صبر کرتا تو بہت اجر پاتا تو خداوند کریم نے فرمایا تھا: ابراہیم ؑ ! آپ کو اسماعیل ؑ کے ذبح ہونے پر زیادہ تکلیف ہوتی یا رسول کریم ﷺ کے بیٹے حسین ؑ ابن علی ؑ کے ذبح ہونے پر؟ تو آپ ؑ نے فرمایا تھا میں محمد رسول اللہ ﷺ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز اور آپؐ کی اولاد کو اپنی اولاد سے زیادہ عزیز سمجھتا ہوں تو خداوند متعال نے بیان فرمایا کہ کس طرح نبی کریم ﷺ کی اُمت کے اشقیاء حسین ؑ ابن علی ؑ کو تین دن کا بھوکا اور پیاسا بلا جرم و خطا شہید کریں گے تو حضرت ابراہیم ؑ نے یہ مصائب سن کر گریہ کیا تو ارشادِ رب العزت ہوا: ابراہیم ؑ ! آپ ؑ نے رسول کریم ﷺ کے نواسے کے غم میں گریہ کیا۔ ہم نے آپ کیلئے وہی اجر لکھ دیا جو اگر آپ کے بیٹے اسماعیل ذبح ہو جاتے تو آپ اُس پر صبر کی صورت میں پاتے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں فضائل حسین ؑ ابن علی ؑ اور مصائب کی مجلس حسین ؑ ابن علی ؑ کی ولادت باسعادت پر ہوئی۔ جسے قرآن مجید کی سورہ احقاف کی آیت ۱۵ میں بیان کیا گیا ہے: حَمَلَتْہٗ اُمُّہٗ کُرْہًا وَوَضَعَتْہٗ کُرْھًا (جب آپ بطن مادر میں بھی تھے تب بھی ماں روتی رہی اور جب آپ کی ولادت ہوئی تب بھی ماں روتی رہی)۔ جب حسین ؑ کی ولادت باسعادت پر حضرت جبرائیل ؑ نے بحکم خدا آپ ؑ پر آنے والے مصائب بیان کئے تو رسول کریم ﷺ سمیت سب نے گریہ کیا۔ مصائب کے مقابل رونا بزدلی ہو سکتا ہے۔ کسی معرکہ کے وقت جان کے خوف سے رونا بزدلی ہو سکتا ہے مگر کسی معرکۂ جہاد میں شرکت کرنے سے مجبوری اور پھر حسرت سے رونا کہ ہم اس سعادت کو حاصل نہ کر سکے‘ عین عبادت اور شجاعت ہے۔ اسی لئے تو قرآن نے اس مقصد کی خاطر رونے کو احسن قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے سورہ توبہ کی آیت نمبر ۹۲: ’’تولو اعینہم تفیض من الدمع حزنا الا یجدوا ما ینفقون (جنگ میں روانہ ہونے کیلئے اُن کے پاس سواری نہیں ہوتی تو وہ رسولؐ سے جنگ پر جانے کیلئے سواری چاہتے ہیں مگر آپ فرماتے ہیں میرے پاس سواری نہیں ہے تو وہ لوگ روتے ہوئے پلٹ جاتے ہیں کہ سواری نہ ہونے کی سبب وہ جہاد سے (یا شہادت سے) محروم رہ گئے۔ ‘‘ اور سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۸۳ واذا سمعوا ما انزل الی الرسول تریٰ اعینھم تفیض من الدمع میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ گریہ کے حوالے سے فطرت اور مذہب کی یہ ہم آہنگی اس غم کے بقا کی ضامن ہے۔ ایسی نشست (مجلس) جس میں ان ہادیانِ دین کا تذکرہ ہو‘ اُن کی سیرت بیان ہو‘ اُن پر آنے والی مصیبتوں کا تذکرہ اور اس پر گریہ ہو، خدا و رسول ﷺ اور آئمہ علیہم السلام کو بہت پسند ہیں۔ اس پر اجر کا وعدہ ہے۔ اس لئے بھی کہ یہ مجالس عوام کی تعلیم اور اُن کی ذہنی تربیت کے مراکز ہیں۔ اِن مجالس کے متعلق آئمہ علیہم السلام کا ارشاد ہے۔ رحم اللہ احیا امرنا خدا اُن لوگوں پر رحم فرمائے گا جو ہماری یاد کو زندہ رکھتے ہیں اور اس کیلئے تکالیف برداشت کرتے ہیں‘ بے دریغ خرچ کرتے ہیں اور کربلا والوں کی بھوک اور پیاس کی یاد زندہ رکھنے کیلئے نیاز اور سبیل کا اہتمام کرتے ہیں۔جو آیات کربلا کو بیان کر رہی ہیں اُن میں سے سورہ بقرہ کی آیات ۸۴، ۸۵، ۸۶ ہیں۔علامہ سید امداد حسین کاظمی اپنے ترجمہ و تفسیر القرآن المبین ص ۱۶ میں اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ : و اذ اخذنا میثاقکم ۔۔۔ سے وما اللّٰہ بغافل عما تعملون تک نہایت اہم مضمون بیان کر رہی ہے۔ اس میں چند اُمور غور طلب ہیں جن کی تطبیق کربلا سے ہوتی ہے:۱۔ اس سے قبل کی آیت میں تخاطب بنی اسرائیل سے ہے جبکہ اس آیت میں تخاطب حاضرین سے ہے یعنی مسلمانوں سے تخاطب سے پہلے بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے انہیں وہ عہد یاد دہا گیا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا جس کی انہوں نے خلاف ورزی کی تھی۔ دوسری آیت میں مسلمانوں سے لیا گیا عہد یاد دلایا گیا ہے۔ مسلمانوں سے جو عہد لیا گیا تھا وہ کسی کا خون نہ بہانا تھا، یعنی کچھ مقدس ہستیاں ایسی تھیں، کچھ ایسے مقدس وجود تھے جن کے بارے میں عہد لیا گیا تھا کہ خبردار ان کا خون نہ بہانا (اس لئے کہ لحمک لحمی، جسمک جسمی، دمک دمی کے تحت ان ہستیوں کا خون بہانا خود محمد مصطفی ﷺ کا خون بہانا تھا)۔۴۔ ان وجودوں کا ملک سے باہر نکالنا بھی منع اور حرام قرار دیا گیا تھا۔۵۔ ثم اقررتم۔ پھر تم نے اقرار بھی کیا کہ نہ تو ہم ان وجودوں کو ملک سے باہر نکالیں گے اور نہ ان کا خون بہائیں گے۔
و انتم تشہدون (حالانکہ تم مشاہدہ بھی کر رہے ہو گے)۔میدان کربلا میں حسین ؑ ابن علی ؑ نے قوم اشقیاء کو (ایک ایک فرد کو) نام بہ نام پکارا اور اپنا تعارف بھی کرایا کہ میں کون ہوں (اور یہاں کربلا میں میرے آنے کی وجہ کیا ہے) ۔مدینہ سے کربلا تک آپ نے جو خطبات ارشاد فرمائے ہیں وہ مقتل اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں کہ تم دیکھتے نہیں دین میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں‘ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ میں نہ تو شر پھیلانے نکلا ہوں اور نہ ہی متکبر حکمرانوں کی طرح کوئی علاقہ فتح کرنے نکلا ہوں بلکہ میرے یہاں آنے کا مقصد نبی کریم ﷺ کی اُمت کی اصلاح ہے۔ میں ہر قربانی دے لوں گا مگر اپنے نانا ؐ کی شریعت نہیں بدلنے دوں گا) اور قوم اشقیاء نے اقرار بھی کیا (ثم اقررتم) کہ ہاں جانتے ہیں کہ آپ فرزند علی ؑ ، دل بند فاطمہ ؑ ، اور نواسۂ رسول ؐ ہیں۔ لہٰذا حسین ؑ نے اپنا تعارف اور مقصد بیان کر کے اُن پر حجت تمام کر دی کہ روزِ محشر یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم جانتے نہیں تھے کہ حسین ؑ کون ہیں؟ثم انتم ھٰؤُلَآءِ تقتلون انفسکم یعنی تم باوجود اقرار کے کہ ہم جانتے ہیں آپ کون ہیں پھر قتل کیوں کرتے ہو و تخرجون فریقا منکم من دیارھم آیت کے اس حصے میں من دیارھم قابل غور ہے۔ شروع میں جب میثاق لیا گیا تھا تو دیارکم کہا گیا یعنی تمہارا شہر لیکن جب یہ واقعہ ھائلہ ہوا تو اب دیارھم کہا گیا کہ وہ اپنے شہر سے نکالے گئے یعنی میثاق لیتے وقت وہ براہ راست (ظاہری طور پر) شہر کے مالک نہ تھے لیکن شہر سے نکالے جاتے وقت وہ شہر کے مالک بن چکے تھے۔ مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم سے میثاق لیا گیا تھا تو اس وقت وہ (امام ہونے کے باوجود) امامت کے فرائض ادا کرنے پر مامور نہ تھے لیکن جب وہ نکالے گئے تو اس وقت وہ اللہ کی طرف سے فرائض امامت ادا کر رہے تھے۔
۸۔ تظاھرون علیہم بالاثم والعدوان یعنی تم سب لوگ ایک دوسرے کے پشت پناہ اور مددگار بن کر ان کا مقابلہ کرتے ہو امام حسین ؑ کی جماعت جو بنی ہاشم کے علاوہ) کل بہتر نفوس تھے اور اس جماعت میں ان کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی تھے لیکن آپ کے مقابلے میں لاکھوں کا لشکر تھا جس کی کثرت آیت نے واضح کر دی بالاثم والعدوان اُن کے جرم اور زیادتیوں کی طرف اشارہ ہے و ان یاتوکم اسراریٰ تفادوھم آیت کے اس جزو سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا انہی اہلبیت ؑ کے لُٹے ہوئے قافلہ کی قید اور رہائی کا واقعہ یاد دلا رہا ہے وھو محرم علیکم اخراجہم محرم کے معنی اگر وصفی لیے جائیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ اشارۃً بتا رہا ہے کہ یہ واقعہ محترم میں ہو گا اور اگر لفظی لیے جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ ان سے قتال کرنا اور انہیں نکالنا سب تم پر حرام تھا۔۱۱۔ افتومون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان مقدس وجودوں کی نسبت کوئی نوشتہ یا تحریر لکھی گئی تھی جس کے دو (یا کئی) جزو تھے اور کچھ کو وہ مانتے تھے اور کچھ اجزاء کو نہیں۔ وہ نوشتہ کیا تھا (ممکن ہے) حدیث ثقلین ہو انی تارک فیکم الثقلین۔۔۔۔ کتاب اللہ و عترتی۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے رسول کریم ﷺ کی عترت۔ ایک جزو یعنی قرآن کو تو وہ مانتے تھے (اگرچہ اس پر عمل نہیں کرتے تھے) اور قرآن ان کے گلوں میں حمائل بھی تھے اور دوسرا جزو یعنی اہل بیت ؑ تو نہ صرف یہ کہ مانتے نہیں تھے بلکہ قتل کرتے تھے جس کی خدا نے خبر دیدی۔
۱۲۔ فما جزاء من یفعل ذالک منکم الا خزی فی الحیاۃ الدنیا و یوم القیامۃ یردون الی اشد العذاب اس میں سزا کے دو جزو بیان ہوتے ہیں ایک اس دنیا میں اور وہ بطور ذلت و خواری اور دوسرا آخرت میں۔ دنیا کا عذاب تو لوگوں نے دیکھا کہ مختار ثقفی نے چُن چُن کر ایک ایک قاتل کو بڑے دردناک عذاب سے ذلیل کر کے مارا اور آخرت کا عذاب اللہ نے تیار کر رکھا ہے جو اتنا ہولناک ہو گا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ان تمام باتوں کی تصدیق و تائید رسول کریم ﷺ کی اُس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو تفسیر صافی ص ۳۸ میں اس آیت کے ذیل میں لکھی گئی ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایا: میں تمہیں اِس امت کے یہودیوں کی خبر دوں؟ سب نے عرض کیا ۔ ہاں یا رسول اللہ ﷺ ۔ آپ ؐ نے فرمایا وہ لوگ میری امت میں سے ہی ہوں گے جو میری فضیلت والی طاہر و مطہر اولاد کو قتل کریں گے میری شریعت بدل ڈالیں گے اور میرے بیٹیوں حسن ؑ و حسین ؑ کو شہید کریں گے جس طرح کہ پہلے یہود یوں نے حضرت ذکریا ؑ اور حضرت یحیٰ ؑ کو شہید کیا تھا۔ آگاہ رہو کہ خدا نے ان پر لعنت کی ہے مثل اسلاف یہود کے اللہ تعالیٰ ان کی بقیہ اولاد پر قیامت سے پہلے حسین ؑ مظلوم کی اولاد میں سے ایک ہادی مہدی ؑ مبعوث کریگا جس کے دوستوں کی تلواریں انہیں جہنم میں پہنچا دیں گی۔ (بحار الانوار ج۱۰، ص ۱۹۰) ۔ نیز آپ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۰۴ ۔۲۰۵ و من الناس من یعجبک قولہ فی الحیاۃ الدنیا و یشھد اللہ علی ما فی قلبہ و ھو الد الخصام ۔ و اذا تولی سعی فی الارض لیفسد فیھا و یھلک الحرث والنسل واللہ لا یحب الفساد ۔ لوگوں میں سے کوئی شخص ہے جس کی باتیں دنیاوی زندگی میں آپ کو اچھی لگتی ہیں اور وہ اپنے دل میں جو کچھ ہے اس پر اللہ کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سخت دشمن اور جھگڑالو ہے اور اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ حاکم بنے گا اور زمین پر بھاگ دوڑ کر کے فساد بپا کریگا اور خاص کھیتی اور خاص نسل کو برباد و ہلاک کریگا۔‘‘ تفسیر صافی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ آیت عام منافقین کے بارے میں ہے اور اس میں ایک خاص شخص بھی مراد ہے کیونکہ اس آیت کے ذریعے خداوند متعال نے اپنے حبیب کو ایک ایسے شخص سے متعارف کر دیا ہے جو ظاہراً تو آپ کے پاس بیٹھنے والا (اور آپ کا دم بھرنے والا) ہے۔ اس کی پہچان یہ بتائی کہ بڑی چکنی چپڑی باتیں کر تا ہے اور اپنی بات پر یقین دلانے کیلئے قسمیں بھی کھاتا ہے اور اس کی پہچان (اذا تولی کہہ کر بتایا ) یہ ہے کہ اسے حکومت بھی ملے گی جسے حاصل کر کے وہ خدا کی زمین پر فتنہ و فساد پھیلائے گا۔ وہ ایک خاص کھیتی اور ایک خاص نسل کو تباہ و برباد کریگا۔ (درحقیقت وہ) آپ ؐ کا سخت دشمن اور بہت جھگڑالو ہے۔ تاریخیں گواہ ہیں کہ حرث (کھیتی) اور نسل رسول ؐ(حضرت محسن، حضرت امام حسن و حضرت امام حسین علیہم السلام) کو کس نے قتل کیا۔(اسی لئے تو معصوم ؑ فرماتے ہیں کہ حق کو پہچاننا ہو تو دیکھو باطل کے تیر کہاں لگ رہے ہیں) کیا اصحاب کساء و مباہلہ یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ، امیر المومنین علی ؑ ابن ابی طالب ؑ ، جناب سیدہ کونین ؑ اور حسنین ؑ شریفین کریمین سے بڑھ کر بھی کوئی اہل حق ہو گا بس جن جن لوگوں نے ان ہستیوں کیساتھ جنگ کی، ذریت رسول ؐ کو قتل کیا، زمین پر فساد بپا کیا۔ اُن کے بارے میں اسی آیت کے آخر میں ارشاد ہوا فحسبہ جہنم ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور کیا برا ٹھکانہ ہے ) ایسے لوگ کوئی بھی ہوں دین کے رہبر نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ان کے اقوال و افعال زندگی کیلئے نمونہ عمل بن سکتے ہیں۔ پاک رسول ؐ نے دین کا معیار حسین ؑ ابن علی ؑ کو قرار دیا اور فرمایا:
’’ان الحسین مصباح الہدیٰ و سفینۃ النجاۃ۔۔ بیشک حسین ؑ ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہے۔‘‘
’’میرے اہل بیت ؑ کی مثال کشتی نوح ؑ کی مانند ہے جو سوار ہو گیا نجات پا گیا، جو رہ گیا، ھلاک ہو گیا۔‘‘

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

sixteen − ten =