تحریر: سید فرخ عباس رضوی
(دوسرا حصہ)
اب سوال یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا وہ کونسا حق ہے کہ جس کی معرفت امام علیہ السلام کی زیارت کی شرط ہے؟
ظاہرا یہ امام حسین علیہ آلاف التحية و الثناء کا وہ حق ہے جو ہماری گردن پر ہے۔
ہماری گردن پر امام معصوم کے بہت سے حقوق ہیں۔ جن میں ایک حق سرفہرست ہونے کے ساتھ ساتھ بنیادی اور اساسی حق ہے، بلکہ یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ باقی سارے حقوق اسی حق سے نشئت پاتے ہیں اور یہ حق باقی تمام حقوق کا سرچشمہ ہے۔ وہ حق یہ ہے کہ ہم من و عن امام کے سامنے تسلیم ہوجائیں اور ان کی اطاعت کریں۔ روئے زمین پر خدا وند سبحانہ و تعالی نے کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ امام معصوم کی زندگی یا سیرت پر حاشیہ لگائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم نے کسی کو امام مان لیا اور ہم اس کی عصمت کے قائل ہونے کے ساتھ ساتھ خدا کے بعد تمام جن و انس کے درمیان اس کے اعلم ہونے پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہی چیزیں امام کی ولایت کلیہ الہیہ کا سبب ہیں، تو پھر اطاعت سے سرپیچی کا کوئی بہانہ ہی نہیں بچتا، یہی نہیں بلکہ کسی شخص میں اس معصوم امام کو مشورہ دینے کی بھی جرات نہیں ہونی چاہیے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی امام حسین علیہ السلام کی آنکھ بند کرکے اطاعت کی وہ متن تاریخ قرار پایا اور جو بھی اس اطاعت میں افراط و تفریط کرگیا یعنی یا تو امام سے آگے بڑھا یا پیچھے رہ گیا وہ تاریخ کے حاشیہ میں چلا گیا۔ یاد رہے ہماری گفتگو امام برحق حسین بن علی علیھما السلام کی اطاعت کرنے والوں کے بارے میں ہورہی ہے ، ابھی دشمنان اہل بیت ہماری گفتگو کا حصہ نہیں۔
ہمارے اس مدعا کے مصادیق اظہر من الشمس ہیں، یعنی شہداء کربلا سلام اللہ علیہم اجمعین، اور ان شہدا میں بلا موازنہ سرکار قمر بنی ہاشم علیہ السلام۔ ان شہدا بالاخص حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کے تمام تر فضائل کا منبع اپنے وقت کے امام کی اطاعت ہے۔
اسی کے برعکس عبیداللہ بن حر جعفی جیسی مثالیں کچھ کم نہیں کہ جو تاریخ میں اپنا منہ چھپانے کے قابل بھی نہ رہے۔
کلام طولانی کرنا منظور نہیں۔ پس اس تمام تر گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ زائر اور حرم سرکار شہدا علیہ السلام کی طرف پیدل چلنے والا تمام تر راستہ میں امام حسین علیہ السلام کے اس حق کی طرف متوجہ رہے ، اور اسی فکر میں ڈوبا رہے کہ وہ کہیں سید الشہدا علیہ السلام کی اطاعت میں پیچھے تو نہیں رہ گیا ؟
جاری ہے۔۔۔۔