جون 7, 2025

تحریر: اختر عباس اسدی

دینِ اسلام میں حج ایک اہم ترین فریضہ ہےجوبیت اللہ مکہ مکرمہ،عرفات،منیٰ مزدلفہ میں بجالائےجانےوالےاعمال سےمکمل ہوتاہے

حج ہرمسلمان پرفرض ہےمگراستطاعت ہونےکےبعدواجب ہوجاتاہےشوال ذیقعداورذوالحجہ حج کےمہینےشمارہوتےہیں جبکہ عمرہ تمتع کےعلاوہ تمام اعمال ذوالحجہ کےمخصوص ایام اوراوقات میں ہی اداکئےجاتےہیں صاحب استطاعت ہونےکےباوجودحج ادانہ کرنےوالاگنہگاراورانکارکرنےوالادائرہ اسلام سےخارج ہوجاتاہے۔

حج اسلام کے عظیم شعائر میں سے ہے اور یہ ایسی افضل ترین عبادت ہے کہ جس کے ذریعہ خدا وند متعال کا تقرب حاصل ہوتا ہے کیونکہ حج کے ذریعہ انسان میں عاجزی، تھکاوٹ، اہل و عیال کی جدائی، وطن سے دوری، روزہ مرہ کے معمولات چھوڑنا، لذات و شہوات کو ترک کرنا، اور اسکے علاوہ بہت سے مکروہات سے پرہیز کرنا پڑتا ہے۔

احادیث کے مطابق بہترین عمل وہ ہے جس میں زحمت و مشقت زیادہ ہو۔

حج کے ذریعے نفس کی ریاضت ہوتی ہے، حج میں مالی اطاعت، بدنی، قولی اور فعلی عبادت سب شامل ہے بلکہ یہ حج کا ہی خاصہ ہے۔ کیونکہ ایسی تمام خصوصیات کسی اور عبادت میں جمع نہیں ہے۔

حج خواہ واجب ہو یا مستحب اسکی بہت زیادہ فضيلت اوراجر و ثواب ہے اور اسکي فضيلت کے بارے ميں پيغمبر اکرم(ص) اور اہل بيت عليہم السلام سے کثير روايات وارد ہوئي ہيں۔

امام جعفرصادق سے روايت ہے:

"الحاجّ والمعتمر وَفدُ اللہ ان سألوہُ اعطاہم وان دَعوہُ اجابہم و ان شفعوا شفّعہم و ان سکتوا ابتدأہم و يُعوّضون بالدّرہم ألف ألف درہم ”

"حج اور عمرہ انجام دینے والے راہ خدا کے راہی ہيں۔ اگر اللہ سے مانگیں تو انہيں عطا کرتاہے اور اسے پکاريں تو جواب ديتاہے،اگر شفاعت کريں تو قبول کرتاہے اگرچپ رہيں تو از خود اقدام کرتاہے اور ايک درہم کے بدلے (جو انہوں نے حج کرنے پر خرچ کئے ہیں) دس لاکھ درہم پاتے ہيں۔

حاجی اور عمرہ کرنے والا

جوشخص بھی بارگاہ خداوندی میں حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرے گا اسے بہت سے فضائل و کمالات حاصل ہونگے

حج وعمرہ کرنے والے کے لیے تین طرح کے فضائل ہیں:

۱۔ حج و عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے وفود (منتخب شدہ افراد) ہیں۔

۲۔ حج و عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔

۳۔ حج و عمرہ کرنے والے کی اللہ تعالیٰ دعا مستجاب فرماتا ہے۔

حج و عمرہ کرنے والا خداوند متعال کا وفد (گروہ)

رسول اللّه صلى الله عليه وآله وسلم نےفرمایا:

"وَفدُ اللّهِ ثَلاثَةٌ، الغازی والحاجّ والمُعتَمِر۔

اللہ تعالیٰ کے وفد تین ہیں، غازی (مجاہد)، حج کرنے والا، عمرہ کرنے والا۔

حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے وفود (گروہ) ہیں اور اللہ کا حق ہے کہ وہ اپنے وفد کا اکرام و احترام کرے اور اسے مغفرت عطا کرے۔

حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:

تین قسم کے افراد اللہ تعالیٰ کے قرب میں ہونگے:۔۔۔۔ وہ مرد کہ جو حج کرنے یا عمرہ کرنے کے لیے نکلے اور اس کا نکلنا صرف اللہ کے لیے ہو تو ایسا بندہ اللہ تعالیٰ کے وفد (گروہ) سے ہوگا یہاں تک کہ وہ واپس اپنے گھر والوں کی طرف پلٹ جائے۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کاارشاد گرامی ہے:

حج کا حق آپ پر یہ ہے کہ آپ جان لیں کہ حج آپ کے رب اور پالنے والے کی بارگاہ میں داخل ہونا اور اپنے گناہوں سے اس کی طرف بھاگنا ہے، اور حج میں آپ کی توبہ قبول ہوتی ہے،اور یہ ایک ایسافرض ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: حج اور عمرہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا وفد (گروہ) ہے اگر وہ اللہ سے مانگے گے تو وہ انھیں عطا کرے گا، اگر وہ دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ اسے پورا کرے گا، اگر یہ لوگ شفاعت کریں گے تو اللہ تعالیٰ شفاعت قبول کرے گا، اگر وہ خاموش رہیں گے تو وہ خود ہی (عطا کرنے میں) ابتدا کرے گا اور انھیں ایک درہم کے بدلے دس لاکھ درہم عوض دیا جائے گا۔

حج اور عمرہ کرنے والےکو اللہ تعالی کا مہمان کہاگیاہے

حضرت آدم علیہ السلام پر اللہ تعالی نے وحی فرمائی کہ میں اللہ تعالیٰ مکہ کا مالک ہوں، (مکہ مکرمہ کا ایک نام بکہ بھی ہے) اس مکہ کے رہنے والے میرے قرب میں ہیں اور اس کے زائر میرے پاس آنے والے گروہ اور میرے مہمان ہیں، میں اسے اہل آسمان اور اہل زمین کے ساتھ آباد کرونگا وہ اس شہر میں فوج در فوج کھلے سر، غبار آلودہ وارد ہوں گے، ان کی آوازیں نعرہ تکبیر اور لبیک لبیک کی فریادوں سے بلند ہونگی

پس ان میں سے جو بھی خالص نیت سے حج/عمرہ کرے کہ جس سے اس کا مقصد صرف میری ہی ذات تو اس نے میری زیارت کی اور وہ میری طرف قدم بڑھانے والا ہے اور وہ میرے پاس مہمان بن کر آنے والا ہے اور مجھ پر لازم ہے کہ میں اسے اپنی عزت و کرامت سے ہدیہ عنایت کروں۔”

خالد بن ربعی سے مروی ہے:

امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام مکہ مکرمہ حرم میں داخل ہوئے۔وہاں ایک اعرابی کو دیکھا جو کعبہ کے غلاف سے لپٹا ہوا تھا اور یہ کہہ رہا تھا:

اے اس گھر کے مالک، خانہ کعبہ تیرا گھر ہے اور (اس گھر کا) مہمان تیرا مہمان ہے اور اس کے مہمانوں میں سے ہر مہمان کی تکریم و تعظیم ہے پس آج کی رات اپنی جانب سے مجھ (مہمان) کی تکریم و تعظیم (یعنی مہمان نوازی میں) مغفرت و بخشش کو قرار دے۔

امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

کیا تم اس اعرابی کی گفتگو نہیں سن رہے؟ اصحاب نے عرض کی: جی ہاں ہم سن رہے ہیں۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ اس سےزیادہ بزرگ تر ہے کہ کسی مہمان کو (بغیر کچھ عطا کیے) پلٹا دے۔

مولائے کائنات فرمانا چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے کسی مہمان کو خالی ہاتھ نہیں پلٹائے گا بلکہ اسے مغفرت و بخشش عطا فرمائے گا، خداوندعالم اس بات سے زیادہ بزرگ تر ہے کہ وہ اپنے کسی مہمان کو خالی ہاتھ لوٹا دے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا مہمان وہ آدمی ہے جو حج اور عمرہ کرے اور وہ جب تک اپنے گھر میں پلٹ نہ جائے وہ اللہ کا مہمان ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا:حج کرنے کے لیے آنے والا اور (حج کے اعمال انجام دے کر واپس) جانے والے انسان کااللہ تعالیٰ ضامن ہوتا ہے، اگروہ سفر میں تھکاوٹ یا دکھ درد سے دوچار ہو تو اسکے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور ہر قدم پر ایک ہزار درجات جنت میں بڑھا دیے جاتے ہیں اور بارش کے ہرقطرے کے عوض جو اس پہ پڑے شہید کے برابر اجر ملتا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: حج اور عمرہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کی ضمانت میں ہوتا ہے اگر وہ (بیت اللہ کی طرف) آتے ہوئے مرجائے تو اللہ تعالیٰ اسکو بخش دے گااور اگر وہ حالت احرام میں مرجائے تو اللہ تعالیٰ اسے تلبیہ پڑھتے ہوئے شخص کی حالت میں اٹھائے گا اگر وہ دونوں حرم میں سے کسی ایک حرم میں مرجائے تو اللہ تعالیٰ اسے عذاب سے مامون اٹھائے گا اور اگر وہ بیت اللہ کی زیارت سےواپسی کی حالت میں مرجائے تو اللہ تعالیٰ اسکے تمام گناہ معاف فرما دے گا۔”

امام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی ہے: مومن حاجی کی اللہ تعالیٰ پر یہ ضمانت ہے کہ اگر وہ اپنے سفر میں مر گیا تو اللہ تعالیٰ اسےجنت میں داخل کرے گااور اگر وہ زندہ رہا اور اپنے اہل وعیال کی طرف پلٹ گیا تو گھر والوں کے پاس اس کے پہنچنے کے بعد ستر راتوں تک (اس کے نامہ اعمال میں) کوئی گناہ نہیں لکھا جائے گا۔

حج و عمرہ کرنے والے کی دعا مستجاب ہوتی ہے

انسان اور خالق کے درمیان دعا ایک ایسا وسیلہ ہے جو خالق و مخلوق کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔ بندہ دعا کرتا ہے اور خدا قبول کرتا ہے۔

بہت سے لوگوں کو دعائیں و مناجات کرتے ہوئے دیکھا گیاہے اگر دعاؤں اور مناجات کو قبول ہوتے دیکھنا ہے تو حج اور عمرہ کرنے والے کو دیکھو۔

تین دعائیں مستجاب ہیں: حج کرنے

والے کی دعا جب وہ اپنے گھر والوں سے دور ہوکر کرتا ہےاور مریض کی دعا۔

اور مظلوم کی دعا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے مروی ہے کہ حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کا وفد (گروہ) ہیں جب یہ دعا کرتے ہیں تو اللہ پوری کرتا ہے اور یہ جو مانگتے ہیں اللہ انکو عطا کرتا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: حج کرنے والوں کی تین انعامات ہیں:

(۱) جہنم سے آزادی۔ (۲) گناہوں سے پاک ہوناجیساکہ ابھی پیدا ہوئے ہوں۔ (۳) وہ کہ جن کے اہل و عیال اور مال کی حفاظت کی جاتی ہے، یہ وہ کم ترین اجر ہے جسے حاجی اپنے ساتھ لے کر لوٹتا ہے۔

حج ترک کرنے والے کی مذمت

حج تمام صاحب استطاعت لوگوں پر واجب کردیا گیا ہے۔ جیسے روایات میں اسکی تشویق دلائی گئی ہے ویسے ہی حج ترک کرنے کی مذمت بھی وارد ہوئی ہے، کوئی بھی مسلمان دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے حج انجام نہ دے تو اس میں اور غیر مسلم میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ جیسا کہ روایت میں ملتا ہے کہ جو بھی اپنے واجب حج کو کسی عذر کے بغیر ترک کرے وہ قیامت میں یہودی یا نصرانی محشور ہوگا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

جو اس حال میں مرا کہ اس نے حجۃ الاسلام ادا نہیں کیا درحالانکہ اسے کسی ظاہری ضرورت، یا طویل بیماری، یا ظالم حکمران نے روکا بھی نہ ہو تو وہ کسی بھی حال میں مرنا چاہےمرے، چاہے یہودی مرے یا نصرانی۔”

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:

کعبہ کے اردگرد اللہ تعالیٰ کی ایک سو بیس رحمتیں ہیں جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں کے لیے ہیں اور چالیس نمازیوں کے لیے ہیں اور بیس کعبہ کودیکھنے والوں کے لئے ہیں۔

حج کرنے والے کے سفر کا بوجھ و اخراجات اور انکی ضمانت اللہ تعالیٰ پر ہے

پس جب (حاجی) مسجد الحرام میں داخل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسکے لیے دو فرشتے مقرر کرتا ہے جو اسکے طواف، اس کی نماز طواف، اور اس کی سعی کی حفاظت کرتے ہیں، اور جب عرفات کی شام ہوتی ہے تو وہ دونوں (فرشتے) اس کے داہنے کندھے پر مارتے ہیں اور وہ دونوں اسے کہتے ہیں: اے فلاں! پس جو گزر چکا ہے وہ کافی ہوگیا پس تم مستقبل میں دیکھو کہ تم کیسے گزارتے ہو۔

لوگوں میں سب زیادہ گناہ گار حاجی

حج کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی برستی ہوئی رحمت اور مہمان نوازی میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ پروردگار نے رحمت و غفران کو اسکے لیے ذخیرہ کر رکھا ہے۔

مسجد الحرام میں ایک شخص نےامام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا: لوگوں میں سب سے بڑا گنہگار کون ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا:

"جو شخص ان مقامات عرفات منیٰ اور مزدلفہ میں کھڑا ہو، اور ان دونوں پہاڑوں (صفا و مروہ) کے درمیان سعی کرتا ہے، پھر اس گھر (خانہ کعبہ) کا طواف کرے اور مقامِ ابراہیم (علیہ السلام) کے پیچھے نماز پڑھے،پھر وہ دل ہی دل میں کہے اور گمان کرے کہ خدا نے اسے معاف نہیں کیا ہے، تو وہ لوگوں میں سے سب سے بڑا گناہگار ہے۔”

اللہ تعالی اپنےمہمانوں کواجرکثیرعطافرمائے اورتمام مسلمانوں توحج بیت اللہ کی توفیق عطافرمائے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

20 − 4 =