تحریر: عمر فاروق
ملتان کی نشست پر شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی کو شکست دینے والے علی موسی گیلانی قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ میرا مقابلہ کسی نظریے سے نہیں بلکہ جھوٹ سے تھا ۔
علی موسی گیلانی کی یہ بات سوفی صد درست ہے کیوں کہ اس سے پہلے الیکشن کام، کاردگی ، نظریے یا منشور پرلڑے اور جیتے جاتے تھے مگر پی ٹی آئی کاجب سے ملکی سیاست میں عمل دخل بڑھا ہے اس کے بعد سیاست کا رخ ہی تبدیل ہو گیا ہے اب الیکشن نظریے یا کارکردگی کی بجائے سوشل میڈیا اور پروپیگنڈہ کی بنیاد پر لڑا جاتا ہے ۔
اس کی واضح مثال یہ ہے کہ تقریبا ساڑھے چار سال کی بدترین حکومت کے باوجود عمران خان دوبارہ سے عوام میں پزیرائی حاصل کر رہے ہیں اور ان کی ساری پزیرائی کے پیچھے اسی سوشل میڈیا اورجھوٹ کے ہتھیار کا کمال ہے اسی پروپیگنڈے کا اثر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے پہلے پنچاب کی پندرہ نشستوں اور اب قومی اسمبلی کی چھ نشستوں پرعمران خان نے کامیابی حاصل کی ہے ہمارے عوام اگر کارکردگی ،نظریے یا شعور کی بنیاد پر فیصلہ کرتے تو قطعا پی ٹی آئی کو ووٹ نہ دیتے بلکہ وہ چار سال کی حکمرانی پر جواب طلب کرتے مگر یہاں جھوٹ کو شکست دینا اتناآسان نہیں وہ بھی جب منظم جھوٹ بولاجائے ۔
یہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ اس جنریشن وار کاحصہ ہے جس کو آپ ففتھ یاسکستھ جنریشن وار کا نام دے سکتے ہیں اور اس میں خطرناک بات یہ ہے کہ ایک قومی سیاسی جماعت کی طرف سے اس ہتھیارکو استعمال کرنا یہ ریاست کے لیے چیلنج بنتا جا رہا ہے اس طریقہ واردات کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایسی اصلاحات اور متعارف کروائی جائیں جو نہ صرف مبہم اور غیر واضح ہوں بلکہ کوئی ان سے اختلاف کرنے کی جسارت نہ کر سکے۔یہ ایسی موم کی ناک ہے جسے اپنی مرضی سے کسی طرف بھی موڑا جا سکتا ہے اور دوسری طرف آپ کے بدترین دشمن بھی اس کی مخالفت نہیں کر سکتے۔
اس کی تازہ مثال معروف صحافی اینکر پرسن ارشدشریف کے قتل کا واقعہ ہے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ایک مرتبہ پھر سے تحریک انصاف منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہے عمران خان اور ان کے فالورز تین دن سے ارشد شریف کی لاش پر سیاست کر رہے ہیں اور اس کی آڑ میں وہ اداروں اورریاست کے خلاف بدترین مہم چلا رہے ہیں۔پی ٹی آئی کے فالورز کی طرف سے بے بنیاد اور نہایت گھٹیا الزامات کی سیاست کی جا رہی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے یہ تاثر دیاجا رہا ہے کہ جیسے وہ ارشد شریف کی لاش کی تنہا وارث ہے حالانکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ارشد شریف صرف اور صرف ایک بہترین صحافی تھے وہ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار نہیں تھے ۔
عمران خان کی سیاست کا بدترین رخ دیکھنا ہو تو اس کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف ان کے سوشل میڈیا کی طرف سے ارشد شریف کے قتل پر سوگ اور ماتم کے ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں اور اس تناظر میں انہی دنوں میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی طرف سے دیوالی کا کیک کاٹے جانے کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے مگر دوسری طرف عمران خان اسی سوگ اور ماتم کے دنوں میں لانگ مارچ کا اعلان کر رہے ہیں مگر سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بات تک نہیں کی جا رہی ہے ۔حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ عمران خان پہلے بھی لاشوں پر سیاست کرتا رہا اور اب بھی یہی کر رہا ہے۔
ارشد شریف کے واقعہ کو بنیاد بنا کر لانگ مارچ کا اعلان دراصل گدھ بن کر لاش کو نوچنے کے مترادف ہے۔اس مظلوم لاش پربھی وہ مفادات سمیٹنے سے بازنہیں آرہے ہیں دراصل عمران خان سیاسی گدھ کاروپ دھارچکاہے جس کا سیاسی اوراخلاقی میدان میں مقابلہ کرنامشکل ہے۔،ایسے شخص سے کسی بھی حال میں انسانیت، رواداری اور اخلاقیات کی توقع رکھنا فضول ہے۔پی ٹی آئی کویہ اعزازبھی حاصل ہے کہ اس کے سوشل میڈیاایکٹوسٹ معروف شخصیات کے جعلی سوشل میڈیا اکائونٹس بنا کرعمران خان کے کارناموں کے جھوٹے قصیدے بیان کرنے میں ماہر ہیں پھراس جھوٹ کواتناپھیلایاجاتاہے کہ عام آدمی کے لیے سچ اورجھوٹ میں فرق کرنامشکل ہوجاتاہے ۔اس جھوٹ کوپھیلانے کے لیے انہوںنے سرکاری خزانے پرسینکڑوں ،،سرپھرے،،بھرتی کیے ہوئے ہیں ۔
تحریک انصاف واقعی میں اب ریاست مخالف جماعت کاروپ دھارچکی ہے اورعمران نیازی نے اپنی محنت سے ایسے انتہاپسندقسم کے لوگ تیارکیے ہیں کہ بلوچ انتہاپسند،سندھی قوم پرست یامنظورپشتین کے چاہنے والوں اورعمران نیازی کے ماننے والوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں رہاہے ۔میں اس موقع پرپھرارشدشریف کے قتل کی بات کروں گا کہ ارشدشریف کاقتل ملک سے ہزاروں کلومیٹردورافریقہ کے ایک دوردراز ملک میں ہواجس ملک میں قتل ہوااس کی پولیس کی طرف سے ابتدائی طورپرقتل کے واقعہ کی ذمے داری بھی قبول کرلی گئی ،مگرتحریک انصاف کے سوشل میڈیا اورعمران نیازی نے نہایت چالاکی سے اس قتل کاساراملبہ ریاست پاکستان اورحکومت پرڈالنے کی کوشش کی ہے ۔یہ وہ بدترین پروپیگنڈہ اورجذباتی مہم ہے جس میں قوم کے نوجوانوں کوگمراہ کیاجارہاہے۔
عمران نیازی سے سوال کیاجاسکتاہے کہ ان کے اپنے دورحکومت میں جج ارشدملک ،جج وقارسیٹھ ،علامہ خادم حسین رضوی ،ڈاکٹرعامرلیاقت کی ناگہانی موت ہوئی ،ان تمام افرادکی موت ایک معمہ ہے،ان افرادکی اچانک اموات پرآج بھی تحقیقات کی جائیں توبہت کچھ آشکارہوجائے گا اسی طرح مولانا سمیع الحق ،ڈاکٹرعادل جیسے جید علماء کوشہیدکیاگیا مفتی تقی عثمانی پرقاتلانہ حملہ ہواپولیس افسرطاہرداوڑکواسلام آبادسے اٹھاکرلاش افغانستان میں پھینک دی گئی مگراس وقت عمران نیازی نے اس بے تابی کامظاہرہ نہیں کیاجس کااظہاروہ اس وقت کررہاہے ۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ تمام افرادشعبہ صحافت سے وابستہ نہیں تھے مگرعمران نیازی اوران کے ماننے والے بتائیں گے کہ عمران نیازی کادورحکومت اہل صحافت کے لیے توبدترین دورتھا۔ان کے دورحکومت میں صحافیوں پرحملے کیے گئے ان پرتشددکیاگیاانہیں اغواء کرکے ٹارچرکیاگیا صحافیوں کے گھروں اوردفاترپرپتھرائوکیاگیا صحافیوں اوران کے اہل خانہ کے خلاف غلیظ ٹرینڈچلائے گئے متعددصحافی عمرانی فسطائیت کی وجہ سے ملک چھوڑنے پرمجبورہوئے سینکڑوں بے روزگارہوئے متعددٹی وی چینلزاوراخبارات بندہوئے ،صحافیوں کوجکڑنے کے لیے کالے قوانین بنائے گئے نیازی کے وزاراء نے سرعام صحافیوں پرہاتھ اٹھایامگر اس وقت آپ کے پیٹ میں تو مروڑنہیں اٹھاکیوں ؟کیایہ سمجھ لیاجائے کہ اس وقت آپ کے سیاسی مفادات اسی کردارکے ساتھ وابستہ تھے اوراب کی بارمفادات موجودہ سیاسی کردارسے وابستہ ہیں ؟
سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف واقعی سیاسی جماعت ہے یاکلٹ ؟عمران خان کے ماننے والے اب انہیں مرشدلکھناشروع ہوگئے ہیں،آپ انہیں اگرکوئی بات سمجھانے کی کوشش کریں گے تووہ لڑپڑیں گے وہ یہ دیکھتے ہیں کہ عمران نیازی جوکہہ رہاہے وہی حق اورسچ ہے وہ حق اورباطل کاتعین اس طرح کرتے ہیں کہ عمران نیازی کس طرف کھڑاہے؟ان میں اتنی ہمت اورصلاحیت نہیں کہ وہ عمران خان کی غلط بات کوغلط کہہ سکیں ۔خدانخواستہ اگرکوئی ایسی گستاخی کامرتکب ہوتابھی ہے تواسے پارٹی سے نکال دیاجاتاہے ۔
عمران کے ماننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ جوبھی اس کامخالف ہے وہ چوراورکرپٹ ہے، غداراورامریکی ایجنٹ ہے ۔حالانکہ فارن فنڈنگ اورتوشہ خانہ کیس میں ثابت ہواکہ عمران نیازی خائن ،بددیانت ،کرپٹ اورجھوٹاہے جبکہ آڈیولیکس میں اس کے تمام ترسازشی بیانیے کے بخیے ادھیڑکررکھ دیئے ہیں ۔مگراس کے ماننے والوں کواس کی پرواہ نہیں ہے آپ اس طرح کے درجنوں فیصلے کرلیں ۔آڈیووڈیولیکس کرلیں ان کی ذہنیت پرکوئی فرق نہیں پڑتا ۔
پی ٹی آئی ایک جماعت نہیں اک کلٹ ہے ان کے سیاسی کارکن نہیں بلکہ عقیدت مند ہیں۔ خان ان کے نزدیک انسان نہیں فرشتہ ہے جو کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا۔اب سوال یہ ہے کہ ایسی سوچ کی حامل جماعت اورکارکنوں سے ریاست نے کیسے نمٹناہے ؟انہیں کیسے راہ راست پرلاناہے کیاان کے لیے بھی کوئی ،،آپریشن راہ راست ،،ہے یااسی طرح وہ دندناتھے پھرتے رہیں گے۔ ریاست اورریاستی اداروں پرحملہ آورہوتے رہیں گے ؟جھوٹ اورپروپیگنڈے کی بنیادپرعوام کوگمراہ کرتے رہیں گے ؟
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھناہوگا کہ عمران خان کے لانگ مارچ یافسادمارچ کی ٹائمنگ ہمیشہ اہم رہی ہے ،اگلے چندماہ میں فوج کے نئے سپہ سالارکی تقررری ہونی ہے اورچھ سال بعد یہ تقرری ہورہی ہے ۔ اس وقت وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف سعودی عرب کے دورے پرہیں اورسعودی عرب سے بھاری سرمایہ کاری کی خبریں آرہی ہیں پھرشہبازشریف نومبرکے پہلے ہفتے میں چین کے دورے پرجارہے ہیں جہاں سی پیک طرزپربڑی سرمایہ کارکی توقعات وابستہ ہیں اورعمران نیازی ایک مرتبہ پھرسے لانگ مارچ کی کال دے چکے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ عمران خان ایک مرتبہ پھرکس کے اشارے پرملک اورریاست کے خلاف ،،فسادمارچ،، کرنے جارہے ہیں ؟