فروری 2, 2025

جھوٹی خبر پر سزا کیوں نہیں ہونی چاہیے؟

تحریر: آصف محمود

پارلیمان 26 ویں آئینی ترمیم لائے تو عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور پارلیمان جھوٹی خبر پر سزا کا قانون لائے تو آزادی صحافت کو نزلہ اور زکام ہو جاتا ہے۔ آپ ہی بتائیے، کیا ایسا گد گدا دینے والا جاڑا پہلے کبھی آیا تھا؟

سوال یہ ہے کہ جھوٹی خبر پر سزا کیوں نہیں ہونی چاہیے؟ سزا نہ دی جائے تو کیا تمغہ حسن کارکردگی دیا جائے؟

ناقدین کا فہم دیکھیے، وہ اس قانون کو پیکا ایکٹ کہے جا رہے ہیں۔ وہی بات کہ کوہ ہمالیہ کا پہاڑ، رمضان کا مہینہ اور آب زمزم کا پانی۔

جب یہ طے ہی کر لیا گیا ہے کہ پارلیمان بدنیت ہے اور وہ جو کرتی ہے غلط کرتی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ہمیں اس پارلیمان کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اطراف میں جب بزرگانِ خود معاملہ موجود ہیں تو پارلیمان کا تکلف کس لیے؟ کیوں نہ بار ایسوسی ایشننز کو ایوان زیریں اور پریس کلبوں کو ایوان بالا کا درجہ دے لیا جائے؟

کیا ہی خوب ہو کہ پارلیمان کے پاس قانون سازی کا اختیار ہی نہ رہنے دیا جائے، اسے زیادہ سے زیادہ اس بات کی اجازت ہو کہ سپریم کورٹ کے ملازمین اور سپریم کورٹ کے وکلا کے لیے مزید کچھ سیکٹرز اور صحافیوں کے لیے مزید دو چار میڈیا ٹاؤن بنانے کی منظوری دے دے۔ اس خدمت خلق سے تھک کر چُور ہو جائے تو ازرہ مروت اسے اس بات کی بھی آزادی ہو کہ کسی سہانی شام اجلاس بلا کر اپنی تنخواہوں میں بھی اضافہ فرما لے، مکمل اتفاق رائے کے ساتھ۔

ادھر صورت حال یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 239 میں صاف لکھا ہے کوئی آئینی ترمیم، کسی بھی بنیاد پر، کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکتی لیکن اس کے باوجود آئینی ترمیم چیلنج ہو جاتی ہے۔ پارلیمان بےچاری دل میں بھی نہیں سوچ سکتی کہ کیا یہ عمل کسی بھی درجے میں آئین شکنی، اس کی پامالی یا آئین سازی کا متبادل طریقہ کار تو نہیں ہے۔

ادھردہائی یہ ہے کہ آزادی صحافت خطرے میں ہے اور حزب اختلاف بھی داد شجاعت دینے میدان میں اتر آئی ہے۔ آزادی صحافت کا پرچم اب تحریک انصاف کے ہاتھ میں ہے۔ اسے پوری تسلی ہے کہ قوم کے حافظے کا فارم 45 بھی غائب ہو چکا ہے۔

بھلے وقتوں کی بات ہے جب انصاف اور تحریک انصاف ایک پیج پر ہوتے تھے۔ ان ٹی وی چینلوں کو لاکھوں کے جرمانے ہو گئے تھے جنہوں نے خان صاحب کی شادی کی (جھوٹی!) خبر چلائی تھی۔ خبر بعد میں سچ ثابت ہو گئی تو انصاف اور تحریک انصاف دونوں دہی کے ساتھ کلچہ کھاتے رہے، ان میں سے کوئی بھی بدمزہ نہ ہوا۔

اسی تحریک انصاف کے دور میں ’سٹیزن پروٹیکشن رولز‘ متعارف کرانے کی کوشش کی گئی تھی جس میں سوشل میڈیا کمپنیوں پر جرمانے کی حد 500 ملین رکھی گئی تھی۔ جی ہاں صرف 500 ملین۔ پیمرا کی ریگولیشنز اس کے علاوہ تھیں۔

اس وقت مسلم لیگ ن تنقیدد کرتی تھی اور تحریک انصاف دفاع کرتی تھی۔ اب تحریک انصاف تنقید کرتی ہے اور ن لیگ دفاع کرتی ہے۔ بیانات بھی وہی ہیں، بہانے بھی وہی ہیں، اعتراضات بھی وہی ہیں، بس کردار بدل گئے ہیں۔

تو کیا صرف یہ ہے کہ جو کام ہمارے دور حکومت میں ہو گا وہ درست ہو گا اور اس میں غلطی کا کوئی احتمال نہیں اور جو کام دوسروں کے دور حکومت میں ہو گا وہ غلط ہے اور اس کے درست ہونے کا کوئی امکان نہیں؟

جھوٹی خبر پر سزا بالکل ہونی چاہیے مگر سوالات کچھ اور بھی ہیں۔ مثلا یہ کہ اگر جھوٹی خبر پر سزائیں ہونے لگیں تو خود وزارت اطلاعات کا مستقبل کیا ہو گا؟

جہاں عالم یہ ہو کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کے وقت موٹر وے بند کرتے وقت کہا جائے کہ موٹر وے ضروری مرمت کے لیے بند کی گئی ہے وہاں سزائیں صرف میڈیا اور سوشل میڈیا کے لیے کیوں؟

جو جھوٹ انتخابی منشور میں بولا جاتا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اس پر بھی کسی کو سزا ہو گی؟

خواجہ آصف کہہ رہے ہیں کہ ہمارے نصاب میں جھوٹ بولا گیا ہے۔ کیا خواجہ آصف جھوٹی خبر دے رہے ہیں یا نصاب کے مرتبین نے قوم کو جھوٹی خبریں دی ہیں؟ سچ کب اور کیسے سامنے آئے گا؟

کیا یہ سچی خبر ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت نواز شریف نے بنایا؟

کیا پاکستان واقعی اسلامی اور جمہوریہ ہے؟

کیا تمام اراکین پارلیمان واقعی آرٹیکل 62 کے مطابق سچے، دیانت دار، امین، راست باز اور دین کا کماحقہ علم رکھنے والے ہیں؟

کیا 2018 میں عمران خان اور اب شہباز شریف واقعی منتخب وزیر اعظم ہیں؟

خرابی یہ ہے کہ ہم دلیل کے نہیں عصبیتوں کے اسیر ہیں۔ ہمارے ہاں موقف کسی اصول کی بنیاد پر نہیں، بلکہ تعصب کی بنیاد پر اختیار کیا جاتا ہے۔ معیار یہ ہے کہ لکیر کے اُس پار سب غلط ہے، لکیر کے اِس پار سب درست ہے۔ چنانچہ اس صف بندی میں کوئی بھی سرخرو نہیں۔

یہ سب فریب ناتمام کی چاند ماری ہے۔ اس میں کوئی پارلیمان کی بالادستی کو رو رہا ہے، کوئی آزاد عدلیہ کا سہرا کہہ رہا ہے اور کسی کو آزادی صحافت کا غم کھائے جا رہا ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

2 × five =