نومبر 24, 2024

جو تیری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا  ۔۔۔۔۔

تحریر: قادر خان یوسفزئی

عالمی تنازعات نے دنیا کو بہت سے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ جنگ، قحط، غربت، اور انسانی جانوں کا ضیاع، یہ سب تنازعات کے ہی نتیجے ہیں۔ لیکن ان تنازعات کا ایک پہلو اور بھی ہے، جسے ہم لوگ اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، افغانستان میں امریکی جنگ کے دوران، ایک امریکی سپاہی نے اپنے دوست کو ایک خط لکھا۔ خط میں اس نے لکھا کہ ’’ یہاں افغانستان بہت خطرناک ہے، لیکن یہاں کا کھانا بہت مزیدار ہے‘‘۔ اسی طرح روس، یوکرین جنگ کے دوران، روسی سپاہی نے اپنے دوست کو ایک خط میں لکھا کہ ’’ یہاں یوکرین میں بہت سردی ہے، لیکن یہاں کی لڑکیاں بہت خوبصورت ہیں‘‘۔ یہ تو صرف دو مثالیں ہیں، لیکن دنیا بھر میں جنگوں کے دوران ایسے بہت سے دلچسپ واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ واقعات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ انسان کتنی عجیب و غریب مخلوق ہی۔ ہم ایک طرف زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں، اور دوسری طرف ہم کھانے، پینے، اور خوبصورتی کے پیچھے بھی پڑے ہوتے ہیں۔
یہ واقعات ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ انسان کتنا مضبوط ہے۔ ہم جنگوں اور قحط کے باوجود بھی اپنی زندگی کو جاری رکھنا جانتے ہیں۔ ہم ہنستے اور خوش رہنا چاہتے ہیں، چاہے ہمارے ارد گرد کتنی ہی مصیبتیں کیوں نہ ہوں۔ اقوام م متحدہ کو ان تنازعات کو حل کرنے اور دنیا میں امن قائم کرنے کا ذمہ دار ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، اقوام متحدہ کا کردار مایوس کن ہی نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر، روس، یوکرین جنگ کے دوران، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے روس پر حملے پر پابندی لگانے کی قرارداد پاس کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، اس قرارداد کو روس نے اپنی ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ اس واقعے کو کچھ لوگوں نے اقوام متحدہ کی بے بسی کا ثبوت سمجھا۔ اسی طرح، اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی کوششیں بھی ناکام رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن معاہدہ کرنے کی متعدد کوششیں کی ہیں، لیکن یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ اسے بھی کچھ لوگوں نے اقوام متحدہ کی ناکامیاں سمجھا۔ چین، تائیوان تنازع کے حل کے لیے بھی اقوام متحدہ کوئی خاص کردار ادا نہیں کر رہا ہے۔ اس تنازع کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی کوششیں بھی ناکام رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ بھی اقوام متحدہ کے سرد خانے میں 76برسوں سے پڑا ہوا ہے اور اس اہم تنازع کی برف بھی نہیں پگھل رہی ۔ اقوام متحدہ نے روس ، چین ، افغانستان اور ایران جیسے ممالک پر سخت پابندیاں بھی عائد کیں اور عراق ، افغانستان پر جنگ کے احکامات کی توثیق بھی کی لیکن جہاں انسانی حقوق کا معاملہ درپیش ہوتا ہے وہاں سیکرٹری جنرل مذمت کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی کوئی سنتا ہی نہیں۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے کردار ویسا نہیں ہے جیسا اس ادارے کی بنیاد رکھتے وقت منشور بنا یا گیا تھا، ا س کی کئی وجوہ بتائی جاتی ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ ایک بڑا اور پیچیدہ ادارہ ہے، جس میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا میں بہت سے ممالک ہیں، جن کی اپنی اپنی مفادات اور ترجیحات ہیں۔ ان عوامل کی وجہ سے اقوام متحدہ اکثر اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ تاہم، یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس بات کو فراموش نہ کریں کہ اقوام متحدہ ایک اہم ادارہ ہے، جو دنیا میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی خواہش کے باوجود امریکہ جیسے ملک کی منشا کے برخلاف کام نہیں کر سکتا ، اب یہ اس کی مالی مجبوری ہے یا پھر اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر کا وہاں موجود ہونا ۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے ہی دنیا بھر میں کئی ایسے تنازعات حل ہوئے جو امریکہ اور مغربی قوتوں کی خواہش تھے ، عالمی دو عظیم جنگوں میں کروڑوں لوگوں کی جانیں تو گئیں لیکن لاکھوں لوگوں کی جانیں بھی بچائی گئی۔ تشدد کے خلاف اقوام متحدہ نازک رگ رکھتا ہے لیکن ایٹم بم گرانے کے باوجود انصاف کا دوہرا معیار بھی ایک سوالیہ نشان ہے لہذا، ہمیں اقوام متحدہ کی کوششوں کو گہری نظر سے دیکھنا ہوگا۔ ہمیں بلا وجہ کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے کہ اقوام متحدہ مستقبل میں بھی دنیا میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
اب اقوام متحدہ کے طاقت کے استعارے سلامتی کونسل کو ہی دیکھ لیں جس کے پانچ مستقل ارکان چین، فرانس، روس، برطانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کو ویٹو پاور حاصل ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ کسی بھی قرارداد کو مسترد کر سکتے ہیں۔ اس سے یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ سلامتی کونسل دنیا کی آبادی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ نمائندگی کرتی ہے، اور یہ کہ یہ پانچ مستقل ارکان دنیا میں ہونے والے تمام تنازعات کو حل کرنے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ سلامتی کونسل کو کئی تنازعات کو حل کرنے میں ناکام ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، بشمول روس، یوکرین جنگ، مقبوضہ کشمیر، اسرائیل، فلسطین تنازع، اور شام میں خانہ جنگی۔ اس سے یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ سلامتی کونسل دنیا میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ سلامتی کونسل کو ’’دنیا کی موجودہ صورتحال کو زیادہ بہتر طور پر منعکس کرنے کے لیے‘‘ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سلامتی کونسل ’’ ایک رجعت پسند ادارہ‘‘ ہے جو دنیا میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ مستقل ارکان کی مدت میں اضافہ، اور ویٹو پاور کو محدود کرنے کی تجاویز اب تک کسی اتفاق رائے پر منتج نہیں ہوئی ہیں، جس سے تنازعات میں گھرے کروڑوں افراد کا اقوام متحدہ پر سوال اٹھانا معنی رکھتا ہے ۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

17 − fourteen =