تحریر: علی سردار سراج
یہ شنا زبان کی ایک ضرب المثل ہے ، جس کو تحریر حاضر کا عنوان بنایا گیا ہے ۔ جس کا ترجمہ بنتا ہے ” گوشت لذیذ شوربہ تلخ ”
یہ وہاں پر بولی جاتی ہے جب کوئی اپنے مطلب کے حصے کو انتخاب کرکے باقی حصے کو نظر انداز کرے ۔
جہاں پہ حق ہوتا ہے وہی پر ذمہ داری بھی ہوتی ہے اور جہاں نفع ہوتا ہے وہی نقصان بھی ہوسکتا ہے ۔
فقہ کے مشہور قواعد میں سے ہے ” من له الغنم فعليه الغرم” جس کو قاعدہ تلازم بھی کہا جاتا ہے ۔
ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ انسان کسی چیز سے فائدہ تو اٹھائے لیکن اس سے پہنچنے والے نقصان سے شانہ خالی کرے۔
اس قاعدے پر عقلا کے اتفاق کے ساتھ ساتھ شرع کی تائید بھی ہے۔
لیکن قوانین چاہیے شرعی ہوں یا عقلائی طاقت اور قدرت کے سامنے دم توڑ جاتے ہیں ۔
اس شرعی اور عقلائی قانون کا پچھتر سالوں سے گلگت بلتستان میں کھلے عام استحصال ہو رہا ہے ۔
پچھلے پچھتر سالوں سے گلگت بلتستان کے سیاسی حتی ابتدائی انسانی حقوق کی بات چھڑ جائے تو یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے اور جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں ہوتا ہے گلگت بلتستان کے لوگوں کے مقدر میں محرمیوں کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے۔
صحت، تعلیم، سے لے کر سینٹ اور پارلیمنٹ اور عدلیہ سے دور رکھے ہوئے لوگوں سے خیراتی نوالہ( گندم سبسڈی ) بھی چھیننے کے ساتھ ساتھ سرکار لوگوں کی زمینوں پر بھی قبضے کر رہی ہے ۔
لیکن اس متنازعہ علاقے میں یہاں کے بلند و بالا پہاڑ، گرتے دریا، معدنیات، باڈر سے حاصل ہونے والے ٹیکس ۔۔۔۔۔ جان نچھاور کرنے والے جوان ۔۔۔۔ کبھی بھی متنازع نہیں رہے اور پاکستان کا حصہ ہیں!!!!!!!!
اسی کو کہا جاتا ہے ” جولی چیٹی موص اسپاو ”
یہ دھرا معیار زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا ہے ۔
گلگت بلتستان کے لوگ صبور ضرور ہیں لیکن صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔
پاکستان کے ذمہ دار اداروں کو اور پاکستان کے ساتھ مخلص لوگوں کو احساس محرومی کے نتیجے میں ابھرنے والے جذبات کی سنگینی کا احساس ہونا چاہئے ۔
اور جس قدر جلدی ممکن ہو اس دیرینہ زخم کا مداوا ہونا چاہئے ۔۔۔۔