ستمبر 4, 2024

جوبائیڈن ضد پرقائم ، ڈیموکریٹ پارٹی میں پھوٹ

تحریر: نسیم حیدر

جوبائیڈن کےدوبارہ صدارتی امیدوار رہنے کی ضد کے سبب امریکہ کی ڈیموکریٹ پارٹی میں پھوٹ پڑتی نظر آرہی ہے۔

ڈیموکریٹ پارٹی کا نیشنل کنونشن 19 سے22 اگست کو شکاگو میں ہوگا جس میں صدارتی امیدار کو باضابطہ طورپر نامزد کیا جائے گا تاہم صدارتی امیدوار کو باضابطہ چُننے والے بعض ڈیلی گیٹس نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر جو بائیڈن دوبارہ صدارت کے امیدوار رہے تو وہ کنونش کا بائیکاٹ کردیں گے۔

ڈیلی گیٹس پارٹی کے وہ لیڈر ہوتے ہیں جنہیں ریاست یا بیرون ملک مقیم ڈیموکریٹس کی نمائندگی کے لیے چنا جاتا ہے، عام تاثر ہے کہ پرائمریز میں ڈیموکریٹ ووٹر اپنے صدارتی امیدوار کو چنتے ہیں تاہم حقیقت میں بلآخر ڈیلی گیٹس صدارتی امیدوار کا انتخاب نیشنل کنونشن میں کرتے ہیں۔

اس سال تقریباً4 ہزار 6 سو بہتر ڈیلی گیٹس ہیں جن میں سے 3 ہزار9 سو 33 پلیجڈ ڈیلی گیٹس ہیں اور 7 سو39 آٹومیٹک یعنی سپر ڈیلی گیٹس ہیں، ڈیموکریٹک نامزدگی جیتنے کیلئے صدارتی امیدوار کو کم سے کم1ہزا9سو 68 پلیجڈ ڈیلی گیٹس کی حمایت درکار ہوتی ہے۔

اگر معاملہ دوسرے راؤنڈ تک جائے تو پھر سپر ڈیلی گیٹس بھی ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس صورت میں امیدوار کو دونوں طرح کے ڈیلی گیٹس کے کم سے کم2ہزار 2سو58 ووٹ لینا ہوتے ہیں۔

ایک اہم ڈیموکریٹ شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سب سے زیادہ ڈیلی گیٹس کی حامل ریاست کیلی فورنیا کے کئی ڈیلی گیٹس نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر بائیڈن اپنی ضد پر قائم رہے اور دستبردار نہ ہوئے یہ ڈیلی گیٹس کنونشن میں شرکت ہی نہیں کریں گے۔

نومبر میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں بھی ووٹ تو عوام ڈالتے ہیں تاہم صدر کا چناؤ الیکٹرول کالج کرتا ہے، عوام صرف اس شخص کوووٹ ڈالتے ہیں جو صدر کا ترجیحی الیکٹر ہوتا ہے۔

امریکہ کی بعض ریاستیں سرخ یعنی ری پبلکنز کی، بعض نیلی یعنی ڈیموکریٹس کی گڑھ کہلاتی ہیں۔ جیسا کہ وائیومنگ، مغربی ورجینیا، شمالی ڈکوٹا، اوکلا ہاما اور ٹیکساس وغیرہ سے ہمیشہ ری پبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار ہی جیتتا ہے ، اسی طرح کیلی فورنیا اور نیویارک و دیگر سے ہمیشہ ڈیموکریٹ پارٹی کا امیدوار ہی جیتتا تھا۔

الیکشن میں فیصلہ کن کردار پانسہ پلٹنے والی ریاستیں ادا کرتی ہیں جن کے ووٹرز کی بڑی تعداد اگر کسی امیدوار کے حق میں ووٹ ڈال دے تو پھر حریف کی شکست پر مہر ثبت ہوجاتی ہے۔

اگرچہ صدر بائیڈن کیلئےدوبارہ صدارت کا امیدوار رہنا ہی امتحان بن چکا ہے تاہم اگر وہ دوبارہ نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوبھی جائیں۔ اس صورت میں بھی نومبر کے صدارتی الیکشن میں انکی جیت اس لیے غیریقینی ہے کیونکہ سروے کے مطابق پانسہ پلٹنے والی 6 ریاستیں جنہیں جو بائیڈن نے سن2ہزار20میں جیت لیا تھا، اس بار وہاں انکی پوزیشن ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں کمزور نظر آتی ہے۔

ان ریاستوں میں ایری زونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا ،وسکونسن اور پنسلوینیا شامل ہیں۔ پنسلوینیا وہی ریاست ہے جہاں ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر ریلی کے دوران قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔

اس حملے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے زخمی ہونے کے باوجود جوتے چھوڑ کر نہ بھاگنے، خون آلود چہرے کےساتھ مکا لہراکر جنگ جاری رکھنے کا عزم کرنے اور انکے سر پر امریکی پرچم لہرانے کی تصاویر وائرل ہونے کے سبب ری پبلکن امیدوار کی مقبولیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

ری پبلکن پارٹی کا نیشنل کنونشن بھی اس بار غیر معمولی رہا ہے جہاں وہ تمام رہ نما بشمول ران ڈی سینٹس، نکلی ہیلی اور ووک راماسوامی جو ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں کبھی صدارتی امیدوار بننا چاہتے تھے، اب ٹرمپ کی حمایت میں یک زبان نظرآئے، ری پبلکن پارٹی میں اپنے امیدوار کی ایسی غیر معمولی حمایت نے بھی ڈیموکریٹ پارٹی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

اس سے پہلے جب ڈونلڈ ٹرمپ پر مختلف الزامات کےتحت فرد جرم عائد کی گئی تو ری پبلکن حلقوں نے اسے بھی سیاسی مقدمے بازی قرار دیا تھا اور اسے بنیاد بناتے ہوئے صدارتی انتخابی مہم کیلیے ایک سوپچاس ملین ڈالر چندہ جمع کرلیا تھا۔اور اب دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے کہا ہےکہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کو ماہانہ 45 ملین ڈالر دیں گے اور یہ عمل نومبر کے صدارتی الیکشن تک جاری رہے گا۔

ایلون مسک صرف ایک شخصیت ہیں جبکہ کئی اور ایسی شخصیات بھی ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں ڈالرنچھاور کرنے پر تیار ہیں، یعنی انتخابی مہم کیلئے  ٹرمپ کو رقم کی کمی نہیں۔

بائیڈن کویکسر مختلف صورتحال درپیش ہے۔ مایہ ناز اداکار جارج کلونی اور جولیا رابرٹس نے 4 ہفتے پہلے بائیڈن کے لیے فنڈ ریزنگ کی تھی اور ایک ہی رات میں 30 ملین ڈالر جمع کرلیے تھے مگر جارج کلونی جیسے ہالی ووڈ اسٹار نے بھی اب بائیڈن سے کہا ہے کہ وہ دستبردار ہوجائیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کیخلاف کیسز میں اہم ترین کردار ادا کرنیوالوں میں سے ایک ڈیموکریٹ رکن کانگریس اور ایوان کی جوڈیشری کمیٹی کے رکن ایڈم شیف نے تو یہاں کہہ دیا ہے کہ بائیڈن کسی بھی صورت ٹرمپ کو ہرا نہیں سکتے، انہیں یہ منصب کسی اور کے لیے چھوڑ دینا چاہیے ورنہ پارٹی پر نومبر بھاری گزرے گا۔

اس صورتحال میں جوبائیڈن اگر سونے کو چھو رہے ہیں تو وہ بھی مٹی بن رہا ہے۔ انکی جانب سے چند روز پہلے پیش کردہ سپریم کورٹ میں اصلاحات کا شوشہ بھی اسی لیے کام نہ کرسکا۔ خود ڈیموکریٹس نے بھی صاف کہہ دیا کہ یہ محض ووٹرز کولبھانے کی کوشش ہے کیونکہ اصلاحات کانگریس کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں اور جو بائیڈن کے پاس اب اتنا وقت ہی نہیں کہ ان تجاویز پر عمل کیا جائے۔

پہلے مباحثے میں بدترین پرفارمنس اور اسکے بعد بار بار زبان پھسلنے کے سبب جو بائیڈن کی مقبولیت خود ڈیموکریٹ پارٹی میں بھی اس قدر تیزی سے گری ہے کہ اب پارٹی کے دو درجن کے قریب اراکین کانگریس نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دوسری بار صدارت کی دوڑ سے دستبردار ہوں۔

ڈیموکریٹ پارٹی کے بعض اراکین کا خیال ہے کہ نائب صدر کاملا ہیریس کو صدارتی امیدوار نامزد کیا جانا چاہیے جبکہ کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوسم کو انکا نائب ہونا چاہیے جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ گورنر نیوسم کو صدارتی امیدوار کے طورپر آنا چاہیے۔

مشکل یہ ہےکہ ان دونوں ہی کا تعلق کیلی فورنیا سے ہے اور ملک کا صدارتی اور نائب صدارتی امیدوار ایک ہی مضبوط ڈیموکریٹ ریاست سے ہونا اچھا سگنل نہیں ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ کاملا ہیریس ہوں یا گورنر نیوسم دونوں ہی پاکستانی امریکن ڈیموکریٹ ڈاکٹر آصف محمود کے انتہائی قریبی دوستوں میں سے ہیں، دونوں ہی نے ڈاکٹر آصف محمود کی کانگریس کیلیے انتخابی مہم میں بھرپورحصہ لیا تھا۔

مضبوط امیدوار ہونا اپنی جگہ، ڈیموکریٹ پارٹی کو اپنے منشور تنوع،مساوات اور شمولیت کے اصولوں پر عمل کرنا ہوگا جیسا کہ جوبائیڈن نے ایک انڈین امریکن پس منظر سے تعلق رکھنے والی کاملاہیریس کواپنا امیدوار بنا کرکیا تھا یا افریکن امریکن پس منظر رکھنے والے براک اوباما نے سفید فام بائیڈن کو اپنا نائب چن کرکیا تھا۔

ڈیموکریٹ پارٹی کو صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑا چیلنج متاثرکن بیانیہ سامنے لانے کا بھی درپیش ہے۔ پارٹی پر دباؤ ہے کہ وہ کوئی ایسا چمتکار کرے یا بیانیہ پیش کرے جس سے ٹرمپ پر حملے سے پیدا صورتحال اور صدارتی مباحثے سے جاری معمر بائیڈن کی غلطیوں سے عوام کی توجہ ہٹائی جاسکے۔

بعض ڈیموکریٹس کا خیال ہےکہ آئندہ چند ہفتوں میں اگر انکی پارٹی کی جانب سے کرشماتی صدارتی امیدوار اور سحرانگیز بیانیہ سامنے نہ آیا تو ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی الیکشن میں کلین سوئپ کرسکتے ہیں۔

اس پس منظر میں جو بائیڈن کو اچانک کورونا ہونے کو کئی معنی دیے جارہے ہیں۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن رفتہ رفتہ پس منظر میں جارہے ہیں۔اب ری پبلکن نیشنل کنونشن کے اختتام اور ڈیموکریٹ نیشنل کنونشن کے آغاز سے پہلے بائیڈن کا دستبردار ہونا اور ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کیلئے کسی اور شخصیت کے نام کا اعلان حیران کن نہیں ہوگا۔

 

بشکریہ جنگ اردو

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

twenty + 5 =