تحریر: علی سردار سراج
حق اور باطل کا معرکہ اس دن سے شروع ہوا، جس دن، شیطان مردود نے تکبر کی وجہ سے، ابو البشر ،حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کیا ۔
اور یہ جنگ آج تک جاری ہے ۔اور اس کا پایان حق کا باطل پر غلبہ کے ساتھ ہوگا ۔
جنگ و جدال، قتل و غارتگری، انسانی ڈیکشنری میں پائے جانے والے ناپسندیدہ مفاہیم میں سے ہیں ۔
جن کو سننا بھی انسان گوارا نہیں کرتا ہے ۔
لہذا قرآن کریم بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ” كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۔۔
تمہارے اوپر جہاد فرض کیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے ۔
2-Al-Baqara : 216
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنگ میں، باطل کا کردار انتہائی گھٹیا، اور اس کا چہرہ ، بہت ہی وحشت ناک ہوتا ہے۔
اس قدر قبیح کہ بعد میں اہل باطل بھی صراحت کے ساتھ اپنے اس چہرے کا دفاع کرنے سے عاجز ہوتے ہیں ۔
لہذا وہ مجبور ہوتے ہیں کہ باطل کو حق کا ملمع چڑھا کر پیش کریں ۔
اور اس کے مقابلے میں حق کا کردار اور چہرہ ہے، جو انتہائی دل انگیز اور زیبا ہے۔
ظلم کی داستان جتنی سیاہ و تاریک ہوگی ،اتنا ہی جمال حق روشن و زیبا ہوگا۔
لہذا حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے ابن زیاد کو جواب دیتے ہوئے فرمایا “مَا رَأَیْتُ إِلَّا جَمِیلًا” کہ میں نے( معرکہ کربلا میں ) زیبائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا ۔
کیونکہ ابن زیاد کا سوال یزیدیوں کے کردار پر نہیں بلکہ اللہ تعالی کے فعل پر تھا ۔
« کَیْفَ رَأَیْتِ صُنْعَ اللَّهِ بِأَخِیکِ وَ أَهْلِ بَیْتِکِ؟
ورنہ یزیدی کرداروں میں تاریکی، ضلالت و گمراہی کے سوا کچھ بھی نہ تھا ۔
اور آج غزہ کی جنگ کے بھی دو چہرے ہیں، ایک وہ سیاہ اور قبیح چہرہ، جو سب کو نظر آ رہا ہے ۔
جس میں فصلوں اور نسلوں کی تباہی ہے۔
بے گناہ بچے، بوڑھے، عورتیں باطل کی آگ میں جل رہے ہیں ۔
اور یہ شیطانی آگ ہے جو ٹھنڈی ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔
اور دوسرا چہرہ،مہتاب کی طرح روشن و زیبا ہے ۔ جو ابھی بادلوں کے پیچھے ہے جس کو ابھی دیکھنے کے لیے زینب کبری سلام اللہ علیہا کی بینائی چاہیے ۔
عنقریب سب لوگ اس حسین چہرے کو دیکھ لیں گے، کہ جس نے ابھی اپنے آپ کو گوش و کنار سے دیکھانا شروع کیا ہے ۔
جنگ غزہ کے حسین چہرے کی جھلکیوں میں سے اہل غزہ کا کم نظیر صبر و استقامت ہے ۔
یہ صبر و استقامت ہی ہے جس نے وجدان بشر کے لئے یہ موقع فراہم کیا ہے، کہ وہ غاصب اسرائیل کے سیاہ چہرے کو دیکھ سکے۔
اور آج پوری دنیا کے آزاد انسان اسرائیل سے اظہار نفرت اور فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں ۔
شاید بہت جلد انسانی ڈیکشنری میں اسرائیل کا نام، یزید کی طرح گالی بن جائے ۔
جنگ غزہ نے جہاں بشریت کے وجدان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے، وہاں اسلامی دنیا کے منافقین کو بھی بے نقاب کیا ہے ۔
یمن کے انصار ا۔۔۔ کو حرمین شریفین کے لئے خطرہ سمجھ کر حوثی باغی کہنے والوں کو آج پتہ چل رہا ہے کہ یہ تو مدافعین اسلام اور مسلمین ہیں ۔
اسلام کے نام پر مزاحمتی بلاک ،ایران، عراق، شام ، ح ز ب اللہ، انص ار اللہ ۔۔ سے شدید نفرت کرنے والے سادہ لوح مسلمانوں کو ایک طرح کا شوک لگا ہے۔
کہاں ہیں محافظین حرمین شریفین؟؟
کہاں ہیں اسلام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہدین؟؟
کہاں ہیں وہ گروہ اور لشکر جو اسلام کے نام پر استعمار کی خدمت میں مشغول تھے؟؟
ہاں البتہ کچھ لوگ اب بھی پاراچنار کے مومنین سے جنگ لڑ کر استعمار کے نزدیک اپنی خوش خدمتی ثابت کرنے میں مصروف ہیں ۔
لیکن اس خوش خدمتی کا تلخ ثمر ان کی ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
سینکڑوں کتابیں اور ہزاروں مقالے اور زبانیں یہ ثابت کرنے سے قاصر تھیں کہ یہ لوگ اسلام کے نام پر استعمار کے نوکر ہیں ۔
بیس روزہ جنگ غزہ نے ان کو اس طرح بے نقاب اور عریاں کیا ہے ،کہ کوئی بھی پردہ ان کو ڈھانپنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے ۔
یہ ہے جنگ غزہ کا وہ حسین اور روشن چہرہ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ اور نمایاں ہوگا۔
اور اس نتیجے کی طرف اشارہ کرکے قرآن کریم جہاد کو مسلمانوں کے لئے خیر قرار دیتا ہے ۔
كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰٓ أَن تَكْرَهُوا۟ شَيْـًٔا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰٓ أَن تُحِبُّوا۟ شَيْـًٔا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
تمہارے اوپر جہاد فرض کیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے اور یہ ممکن ہے کہ جسے تم اِرا سمجھتے ہو وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور جسے تم دوست رکھتے ہو وہ اِرا ہو خدا سب کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو
2-Al-Baqara : 216
اللہ تعالی غزہ کے مظلومین کا حامی و ناصر ہو ۔