تحریر: غلام محمد شاکری
اشارہ :
اسلام کی نگاہ میں سب سے زیادہ مقام شہداء کا ہے اور شہداء کے لیے جو مرتبہ اور مقام ہے کسی اور کے لئے نہیں ہے جیساکہ پیغمبرِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہے :
” فَوْقَ كُلِّ ذِي بِرٍّ بَرٌّ حَتَّى يُقْتَلَ اَلرَّجُلُ فِي سَبِيلِ اَللَّهِ فَإِذَا قُتِلَ فِي سَبِيلِ اَللَّهِ فَلَيْسَ فَوْقَهُ بِرٌّ”
“ہر نیکی کے اوپر نیکی ہے یہاں تک کہ کوئی شخص راہ خدا میں مارا جائے اور جب وہ راہ خدا میں مارا جائے تو اس سے بڑھ کر کوئی نیکی (اور اس سے بہتر کوئی عمل) نہیں ہے” لیکن ان پاک ہستیوں سے نقل ہوا ہے کہ علماء کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون سے افضل ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ علماء کی زمے داری شہداء سے بھی زیادہ سنگین ہے اس لیے کہ شہداء اسلام کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں لیکن علماء اسلامی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ یقینی بات ہے شھداء میدان جراءت مندانہ لڑتے ہیں اور جام شہادت نوش کرتے ہیں لیکن علماء جس سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے روز شہید ہوتے ہیں اور روز زندہ ہوتے ہیں تھمت، الزامات، بھتان اور کیا کیا الزامات کے زد میں نہیں ہوتے ہیں پھر جاکے ایک سماج میں انقلاب برپا ہوتا ہے اور اسلامی اقدار کی بول بالا ہوتی ہے شیخ محمد مرزا کربلائی نے گمنامی میں شمع کا کردار ادا کیا لہذا اس مختصر تحریر میں ان کی سوانح حیات پر ایک مختصر سی جائزہ لیں گے
پیدائش :
ضلع شگر کے خوبصورت وادی باشہ کے دیدہ زیب گاؤں سیسکو کے پر سکون بستی سجاد آباد (شونل) میں 1944 کو پیدا ہوئے اپ نے ابتدائی تعلیم چھوترون کے دینی درسگاہ میں اخوند غلام محمد کے پاس تین سال تک پڑھنے کے بعد اپنے گاؤں شونل میں 6 سال تک دینی اور سماجی خدمات انجام دیتے رہیں
سفر دانش :
6 سال گاؤں میں قیام کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آپ نے رخت سفر باندھا اور بارگاہ باب العلم کے قصد سے اپنی آبائی گاؤں کو چھوڑا نجف اشرف میں مدرسہ مجاہدیان میں وقت کے نامور اساتذہ جیسے حجت الاسلام شیخ حبیب اللہ اور شیخ عبد الحسن بیضائی سے تین سال تک اپنی علمی تشنگی کو بجھاتے رہے جب مدارج علم میں کچھہ ترقی ہوئی تو اپ مدرسہ فیضیہ منتقل ہوئے وہاں پر وقت کے مشہور استاد مدرس افغانی سے کسب فیض کیا پہر مختصر مدت کے لیے اپ کربلا چلے گئے وہاں پر اپ نے اپنی تعلیمی سلسلے کو اگے بڑھنے کا فیصلہ کیا لیکن صدام حسین کے مظالم کی وجہ سے نہ صرف اپ بلکہ بھت سارے علماء کو عراق چھوڑنے پر مجبور ہوئے اپ نے اپنے محلے کو ترجیح دیتے ہوئے کسی اور مقام پر قیام کرنے کے بجائے سیدھا اپنے آبائی گاؤں کا روخ کیا گاؤں میں پیچنے کے بعد اپ نے چند اہم کام انجام دئیے جس کا اجمالی تعارف پیش خدمت ہے
اپ کی خدمات :
1: نجف اشرف سے تشریف لائیں ہوئے سیسکو کے دیگر علماء کے تعاون سے تمام مذہبی پروگراموں کو نئی جھت دے دی خصوصاً ائمیہ چھاردہ معصومین علیہم السلام کی ولادت اور وفیات منانے کی سعادت کو سیسکو اور سیسکو کے مضافات کے گاؤں پر تقسم کیں دیکھتے ہی دیکھتے ان پروگراموں کے رونق دوبالا ہوگیا ان پروگراموں میں تبلیغ کے علاوہ علاقے کی مسائل کے حل و فصل کے لیے عملی اقدامات انجام دینے تھے اس تقسیم بندی کے تحت محلہ شونل کے مقدر میں امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم ولادت اور شہادت منانا ٹھہر ے اور ایک جلسہ عام میں اس بستی کا نام امام زین العابدین علیہ السلام کے نام سے مزین کرتے ہوئے سجاد آباد رکھا جو اج تک اسی نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے
2: امر بہ معروف کمیٹی کی تشکیل
موصوف نے اپنے گاؤں کے چند برجستہ افراد پر مشتمل امر معروف کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا چند اہم مقصد بتائے جاتے ہیں
1: بے نمازی افراد کو نمازی بنانا
2: نماز جماعت کا قیام
3: گاؤں کے تمام مذہبی اور سماجی معاملات نبھانا
4: ہر گھر کی برکت اور گھروں کے فضاء کو روحانی بنانے کے لیے ہر معصوم کی ولادت اور شہادت کی میزبانی ہر ایک گھر کے سپرد ان کے علاوہ اسی علاقے کے اداب رسوم کے نگرانی اس کمیٹی کی زمے داری تھی کمیٹی میں اخوند حاجی مراد (مرحوم)، اخوند حسین (مرحوم)، اخوند محمد علی (مرحوم)، حاجی علی نقی(مرحوم) اور عمران نمبردار (مرحوم) پر مشتمل تھی
راز و نیاز اور مناجات :
موصوف اپنی کردار اور زبان دونوں سے اس بستی میں رہنے والوں کو خدا کی طرف بلاتے رہے اپ کو دعا اور مناجات کے ساتھ بےحد لگاو تھا ہر نماز کے بعد گھنٹوں گھنٹوں تعقبات میں مصروف رہتے تھے اور جب بھی ممبر پر تشریف لے جاتے تھے کم از کم آدھا گھنٹہ دعائیں مانگتے تھے اسی لگاو کی وجہ سے اللّٰہ نے ان کی دعاؤں میں عجیب تاثیر رکھی تھی اور ان دعاؤں کے نتیجے میں اس بستی کے رہنے والوں کی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں محسوس تبدیلی رونما ہوئی اسی وجہ سے اپ کو مستجاب الدعوہ کے طور پر جانے جاتے تھے۔
دعا سے علاج :
جہاں اپ ایک عالم تھے وہاں آپ ہازق طبیب بھی تھا لوگ اپنے علاج معالجے کے لیے ہسپتال جانے کے بجائے آپ کے پاس آتے تھے اپان کو دم اور دعا کے زریعے علاج کرتے تھے خصوصاً فالج کی بیماریوں کے لئے اپ اسپیشلسٹ سمجھا جاتا تھا آپ کہا کرتے تھے میری کوئی حیثیت نہیں ہے ان دعاؤں کی تاثیر ہے جس کی وجہ سے خدا شفا بخشتا ہے لہذا دعائے جوشن کبیر پڑھنے پر زیادہ تاکید کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے اس دعا میں اللّٰہ نے عجیب تاثیر رکھی ہے اس کے ورد کرنے سے خصوصاً فالج زدہ افراد کے لیے کیمیاء ہے اور یقین کریں اس دعا کو پڑھ کر بیمار کو دم کرنے سے بیمار پھر اسی حالت پر نہیں رہتی یا ٹھیک ہونا ہے یا اس دار فانی سے کوچ کر جاتا ہے اور محال ہے دعا کے ورد کے دورانیہ تمام ہو اور بیمار اسی حالت پر برقرار رہے چنانچہ سیسکو کے نامور اور علمی شخصیت حضرت حجت الاسلام و المسلمین شیخ حسین اجھدی ( نور اللہ مرقدہ شریف) پر فالج کا حملہ ہوا تو اپ نے دعائے جوشن کبیر کے دم کرکے الحمدللہ ٹھیک ہوئے پھر کافی عرصہ بعد اپنی طبیعی موت سے داغ مفارقت دے گئے اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرما اسی طرح زل گاؤں کے کاروباری شخص جناب محمد عیسی ( ماسا) کو فالج ہوا اپ کے دعا کا دورانیہ تمام ہوتے ہوتے ان کی روح پرواز کر گئی
قیصہ مختصر: اس جلیل القدر عالم نے گمنامی اور سختیوں میں اپنے فرائض کو پورا کیا اور تقریباً 70 سال کے عمر میں روشنیوں کا شہر کراچی میں رمضان کے مقدس مہینے میں اس اہلبیت علیہم السلام کے خادم کے ستارہ غروب ہوا
عاشا سعیدا و مات سعیدا
قارئین سے ان کی بلندی درجات کے لیے ایک مرتبہ فاتحہ کی گزارش ہے ۔