نومبر 23, 2024

جنوبی ایشیا میں امریکی پالیسی ایک پیچیدہ مسئلہ

تحریر: قادر خان یوسفزئی

پاکستان اور امریکہ کے درمیان دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون کی طویل تاریخ ہے۔ سابق وزیر اعظم نے اپنی برطرفی کے معاملات میں امریکہ مخالف مہم چلانے کے بعد بیانیہ کی تبدیلی کرکے جہاں اپنے سیاسی کردار میں بد نما داغ لگایا تو اس عمل سے ان کے کارکنان کو بھی سبکی کا سامنا ہوا۔ پاک، امریکہ کے تعلقات میں نشیب و فراز کے باوجود، دونوں ممالک مشترکہ سلامتی کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے مل کر کام کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرتے رہے ہیں۔ مزید برآں، خطے میں پاکستان کے تزویراتی محل وقوع، انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں اس کے کردار، چین، ایران، بھارت اور افغانستان جیسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے پیش نظر، امریکہ کے ساتھ مثبت اور تعاون پر مبنی تعلقات علاقائی استحکام کیلئے اہم ہیں۔ مجموعی طور پر اگرچہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات نشیب و فراز سے مشروط رہے ہیں لیکن سابق وزیراعظم نے امریکہ مخالف جذبات ابھار کر اشتعال انگیزی کو فروغ دیا۔
تاریخی طور پر امریکہ کے جمہوری اداروں کے مقابلے میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں امریکہ فوج کو سلامتی اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں زیادہ قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے جمہوری اداروں کو استحکام اور احتساب کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں کرپشن، سیاسی کشمکش اور کمزور گورننس شامل ہیں۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام سکیورٹی خدشات کو دور کرنے میں اتنا قابل اعتماد یا مؤثر نہیں۔ پاکستان میں طویل مدتی استحکام اور ترقی کیلئے ایک مضبوط اور مستحکم جمہوریت ضروری ہے جمہوری اداروں کی حمایت، احتساب اور شفافیت کو فروغ دینے اور گورننس کو مضبوط بنانے سے کچھ بنیادی مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو ماضی میں دونوں ممالک کے تعلقات میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں چونکہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے، جس میں فوجی حکومتوں کی حمایت اور ملک کی سیاست میں مداخلت بھی شامل ہے۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ امریکہ پاکستان کی طویل مدتی ترقی اور استحکام میں حقیقی دلچسپی نہیں رکھتا پاکستان کی اکثریتی عوام امریکی پالیسیوں خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اسرائیل کے ساتھ امریکی تعلقات جیسے معاملات کے حوالے سے مسلمانوں کے خلاف متعصب سمجھتے ہیں۔
امریکہ نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے حصے کے طور پر پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملے اور دیگر فوجی کارروائیاں کیں جس کے نتیجے میں بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے اور انہیں پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا گیا۔ کچھ پاکستانی امریکی معاشی پالیسیوں کو استحصالی سمجھتے ہیں جو پاکستان سمیت دیگر ممالک کی قیمت پر امریکہ کو فائدہ پہنچانے کیلئے مرتب کیے گئے۔ مجموعی طور پر اعتماد کا فقدان ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے کئی تاریخی، سیاسی اور سماجی عوامل ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اور زیادہ مثبت تعلقات قائم کرنے کیلئے مستقل کوششوں کی ضرورت ہوگی، جس میں باہمی دلچسپی کے شعبوں میں بات چیت اور تعاون میں اضافہ بھی شامل ہے۔
جنوبی ایشیا میں امریکی پالیسی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو کئی تاریخی، سیاسی اور معاشی عوامل پر مبنی ہے۔ تاہم، اپنے مفادات کیلئے امریکی پالیسیاں کے کچھ ممکنہ وجوہ میں شامل ہو سکتے ہیں، جس میں امریکہ اپنے تزویراتی مفادات کے تحفظ کیلئے دوسرے ممالک میں کلیدی وسائل تک رسائی کے حصول، اپنے اتحادیوں کے تحفظ، یا امریکی سلامتی کو لاحق مبینہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے نام پر پالیسی بناتا رہا ہے۔ امریکہ تاریخی طور پر خود کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمپئن کے طور پر دیکھتا ہے تاہم، کچھ معاملات میں، امریکی پالیسی جمہوری اقدار کے برخلاف مفادات کو دوسرے ممالک پر مسلط کرنے کی خواہش کی وجہ سے ہوسکتی ہیں امریکی پالیسیاں بھی داخلی سیاسی مصلحتوں سے متاثر ہوسکتی ہے، جیسے اہم حلقوں سے حمایت برقرار رکھنا، امریکی طاقت اور اثر و رسوخ کی مضبوط تصویر پیش کرنا، یا داخلی معاملات سے توجہ ہٹانا تاہم، اقتدار کیلئے امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکانے کیلئے سابق وزیراعظم نے سیاسی بیانیہ کا جس طرح کا استعمال کیا، اس میں ناکامی کے بعد اب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نیا مخصوص بیانیہ کے تحت عوام میں ریاستی اداروں کے خلاف سنگین الزامات لگانے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ برطرف وزیراعظم اپنے موقف پر قائم نہیں رہے اور امریکہ کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا انتخاب کر سکتے تھے اگر موصوف ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہوتے۔ بادی النظر جس قسم کا بیانیہ اپنایا گیا اور مصر رہے، اس کے نتیجے میں کسی بھی ملک کے درمیان سفارتی تعلقات پائدار نہیں رہ پاتے، اور کسی بھی وقت کسی بھی فریق کی طرف سے سفارت کاری کو منقطع کیا جا سکتا تھا۔ اس طرح کے فیصلے سے دونوں ممالک کیلئے اہم اور سنگین نتائج مرتب ہوتے اور خطے سمیت دیگر ممالک کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور فوجی تعلقات متاثر ہو سکتے تھے۔
خطے میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت ختم نہیں ہوسکتی، اس لیے دونوں ممالک اعتماد اور افہام و تفہیم پیدا کرنے کیلئے اعلیٰ سطح پر سفارتی روابط میں اضافہ کریں۔ اس میں سرکاری عہدیداروں کے درمیان باقاعدگی سے ملاقاتیں، سفارت کاروں کیلئے تبادلے کے پروگرام اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے اور دونوں ممالک تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرکے اپنے اقتصادی تعلقات کو بڑھانے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ اس میں تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنا، کاروباری شراکت داری کو فروغ دینا اور امریکی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینا شامل ہے۔ امریکہ اور پاکستان سکیورٹی تعاون کو بہتر بنانے کیلئے خاص طور پر انسداد دہشت گردی اور علاقائی استحکام کے شعبوں میں مل کر کام کر سکتے ہیں۔ اس میں انٹیلی جنس کا تبادلہ، فوجی کارروائیوں کو مربوط کرنا اور خطے میں انتہا پسندی کے خطرے سے مشترکہ طور پر نمٹنا شامل ہے۔ دونوں ممالک میں تعلیمی تبادلوں، ثقافتی تقریبات اور مختلف شعبوں میں نوجوانوں کے تبادلوں کو فروغ دینا شامل ہوسکتا ہے تاکہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان پل تعمیر کیے جا سکیں۔ ایک دوسرے کی خود مختاری اور مفادات کا احترام کرنے کیلئےاعتماد کی فضا کو بڑھانے کی ضرورت ہے اس میں افغانستان، کشمیر اور علاقائی استحکام جیسے مسائل پر مشترکہ مفادات کو تلاش کرنے کیلئے مل کر کام کرنا شامل ہے برطرف وزیراعظم کو اپنے سابق بیانیہ پر عوام سے معافی مانگنی چاہیے کیونکہ جھوٹے بیانیہ نے مملکت کے وقار کو داؤ پر لگایا۔ دنیا بھر میں بھونڈے الزام پر جگ ہنسائی ہوئی، پاکستانی عوام منقسم ہوئے اور عدم برداشت کا ماحول پیدا ہوا۔
راحیلؔ تری بات پہ حیرت نہیں ہم کو
اس بات پہ حیرت ہے کہ تو بول پڑا ہے

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

3 × two =