نومبر 23, 2024

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے ثمرات اور لمحہ فکریہ 

تحریر: سید اعجاز اصغر 

امریکی عہدیدار اسٹیون سائمن نے کہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے خون نے ہمیں ذلیل و رسوا کردیا ہے، امریکہ نے قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اپنی بوکھلاہٹ کا برملا اظہار سعودی حکومت کے سامنے اس وقت کیا تھا جب سعودی تیل کی تنصیبات پر حملے کا الزام ایران ہر عائد کیا گیا مگر بے بنیاد الزام کو بھانپتے ہوئے امریکی بزدلی اس وقت بے نقاب ہو گئی جب اس تجربے نے سعودی قیادت کے لئے شکوک و شبہات مزید بڑھا دیئے کہ آیا وہ وائٹ ہاؤس میں موجود شخص پر اعتماد کر سکتے ہیں یا نہیں، ؟  کیونکہ امریکہ یہ بات خوف کے عالم میں کہہ چکا ہے کہ مشرق وسطی میں جاری جنگ میں وہ مزید شامل نہیں ہونا چاہتا، اس کے بعد سعودی عرب نے ایران سے تناو کم کرنے کے لئے سفارتی راستے تلاش کرنا شروع کر دیئے تھے، اور آج سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی کم ہونے کے ثمرات رونما ہوتے نظر آرہے ہیں، قاسم سلیمانی کی شہادت سے پہلے ایران اور سعودی عرب کی کشیدگی روز بروز بڑھتی جارہی تھی، شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد سعودی عرب کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا کہ اگر امریکہ اور ایران کی جنگ چھڑ گئی تو سعودی عرب براہ راست متاثر ہو گا، نیتن یاہو کے حالیہ انتخاب سے امریکہ میں تشویش پائی جاتی ہے جبکہ ایران اسرائیل کی نیست و نابودی پر تلا ہوا ہے، جس کا ادارک امریکہ اور صیہونی طاقتوں کے علاوہ مشرق وسطی کو بھی ہوچکا ہے، قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایرانی طاقت، شجاعت اور استقامت میں مزید اضافہ ہوا ہے،

امریکی سفیر نے ایک اور سچ اگل دیا کہ امریکہ جس جگہ پالیسی بناتا تھا وہاں قاسم سلیمانی بہت بڑی رکاوٹ تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ شہید قاسم سلیمانی نے امریکیوں کی نیندیں حرام کردی تھی،

کیونکہ شہید جنرل قاسم سلیمانی امت مسلمہ کے ایک ایسے ممتاز فرد تھے جن کی شخصیت گوناگوں پہلوؤں پر مشتمل تھی جبکہ وہ متحدہ اسلامی مزاحمتی محاذ خصوصا فلسطینی مزاحمتی محاذ میں امت مسلمہ کے لیے متحدہ بزرگوار برادر کی حیثیت رکھتے تھے کیونکہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے، تمام مسلمانوں کی جانب سے اپنے فلسطینی مسلم بھائیوں کی مدد اور بھرپور حمایت ہی ان کا پورا مشن تھا، جنرل قاسم سلیمانی اپنی عمر کے آخری لمحے تک لبنان، شام، عراق، یمن، فلسطین، انڈونیشیا اور الجزائر سمیت پورے عالم اسلام میں اسی فکر میں رہا کرتے تھے کہ قدس شریف اور فلسطین کے حوالے سے میری ذمہ داری کیا ہے ؟  اور میں کیا کردار ادا کر سکتا ہوں ،؟  لہذا حاج قاسم سلیمانی نے پورے عالم اسلام کے چپے چپے پر انتہائی مثبت و اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ نے قاسم سلیمانی سے خوفزدہ ہو کر داعش جیسی دہشت گرد تنظیم تشکیل دی جسے نیست و نابود کرنے میں شہید قاسم سلیمانی کا کردار بے مثال ہے، جب امریکہ نے اپنے آپ کو شکست خوردہ سمجھا تو اس عظیم اور بہادر جرنیل کو جسمانی طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا، صدر ٹرمپ کے حکم پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنا امریکہ کی انتہا درجے کی مجبوری بن گئی تھی، کیونکہ جنرل قاسم سلیمانی شہید مزاحمتی محاذ کی بحالی کے عظیم سپہ سالار تھے، اس بہادر سپہ سالار کو راستے سے ہٹانے کی جو وجوہات تھیں قارئین عظام کی نذر کیجاتی ہیں،

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ نہ صرف پورے عالم اسلام کے تمام تزویراتی مسائل میں مشترکہ محرک تھے بلکہ ان کا تعمیری کردار فلسطینی مزاحمتی محاذ میں بھی انتہائی موثر تھا،

دوسری وجہ یہ کہ انہوں نے اپنا سیاسی و عسکری نظریہ فلسطینی مجاہدین تک پہنچایا جو حقیقی طور پر گہرے مفاہیم اور قرآنی آیات پر مبنی تھا جس کا نتیجہ غاصب صیہونی دشمن کے مقابلے میں خطے اور اس میں رونما ہونے والے حوادث کی حقیقی پہچان کا حصول ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی نے نہ صرف جدید ٹیکنالوجی و اسلحہ بلکہ میدان جنگ سے متعلق داؤ پیچ بھی فلسطینی مزاحمتی محاذ کو منتقل کئے یعنی انہوں نے پہلے تو مختلف طریقوں سے فلسطینی مزاحمتی محاذ تک اسلحہ پہنچایا جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ فلسطینی مجاہدین و مزاحمت کار، غزہ و فلسطین کے مقامی وسائل کے ذریعے بھی ان اسلحہ جات کی ٹیکنالوجی تک پہنچ سکتے ہیں لہذا انہوں نے فلسطین کے مزاحمتی برادران کو اپنا قیمتی تجربہ منتقل کر کے فلسطینی مزاحمتی محاذ کو آج اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں وہ نہ صرف اپنے بری و بحری بلکہ ہوائی حدود پر بھی بخوبی مسلط ہے۔

آج فلسطینی مزاحمتی محاذ میں تیار کئے جانے والے ڈرون طیارے نہ صرف انواع و اقسام کے میزائل لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ وہ طاقتور کیمروں کے حامل بھی ہیں۔

چوتھی وجہ یہ ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شخصیت کئی ایک پہلوؤں پر استوار تھی جبکہ مزاحمتی میدان میں ان کی پختہ سیاسی و عسکری رائے بھی بذات خود، مزاحمتی محاذ کی پیشرفت و مضبوطی کا باعث تھی۔

جنرل قاسم سلیمانی نے پورے عالم اسلام میں ایک مضبوط ٹیم تشکیل دے رکھی تھی جس سے وہ فلسطینی مزاحمتی محاذ کی بھر پور خدمت کا کام لیا کرتے تھے لہذا جنرل قاسم سلیمانی قدس شریف اور مظلوم فلسطینی قوم کے شہید  جنرل قاسم سلیمانی کے جانشین ان شاء اللہ قدس کی آزادی کے مقدس رستے کو جاری رکھیں گے تاہم حقیقت یہ ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی جگہ ہنوز خالی ہے! اگر جنرل اسماعیل قاآنی آج کامیاب ہوئے ہیں تو اس کامیابی کا سہرا شہید قاسم سلیمانی کے سر پر ہی سجتا ہے،

ان شاء اللہ اس عظیم شہید سمیت تمام شہداء کے پاک خون کی برکت،رستے کے تسلسل اور امت مسلمہ کے مشترکہ دشمن غاصب صیہونی کی سامراجیت  شکست خوردہ ہو گی،

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پوری امت مسلمہ کو سفارتی حلقوں میں خوداری، اور آزادانہ تعلقات کا پیغام دے رہی ہے کہ ہمیں بحثیت مسلم قوم سامراجی طاقتوں کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرنا چاہیے مگر یہ کہ وہ انسانیت کا ثبوت دے اور ظلم کرنا چھوڑ دے، ہمیں بحثیت مسلم قوم اپنی عزت اور وقار کو بلند کرنے کے لئے خود کو باور کرانا چاہئے کہ ہمیں ترقی و تمدن کے قافلہ سے پیچھے رکھنے کے سوائے مغرب کے پاس کچھ نہیں، ہم مغربی دنیا کی ترقی کو مانتے ہیں لیکن ان کے فساد کو نہیں مانتے،

آج امت مسلمہ باہمی افتراق اور اختلاف کا شکار ہو چکی ہے، جس کا فائدہ سامراجی قوتیں بھرپور طریقے سے اٹھا رہی ہیں، آج داعش، القاعدہ جو امریکہ کی ایجاد کردہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں امت مسلمہ کو للکار رہی ہیں دنیا اور خطے کے ہر ایک ملک کی ذمہ داری ہے ایسی دہشتگردی کے خلاف مقابلے کے لیے بھرپور کردار ادا کر ے جس طرح شہید قاسم سلیمانی نے ادا کیا تھا، دہشتگردی کے مسئلہ پر لاپرواہی کچھ ممالک کی طرف سے حمایت جس کا واضح مصداق خود داعش ہے اس سے دوسروں کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے،

دہشتگردی کے خلاف مقابلہ کی ذمہ داری کو تمام ممالک اور خصوصی طور پر فرنٹ لائن پر موجود ممالک کے کندھوں پر ذمہ داری کے بوجھ کو مزید بھاری بنا دیتی ہے،

شہید قاسم سلیمانی کی تمام سرگرمیاں اور اقدامات خطے کے میزبان ممالک کے ساتھ طے پانے والے فریم ورک اور اتفاق کے عین مطابق انجام دیئے جارہے تھے،

کیا ایسی شرمناک اور غیر انسانی کاروائی جس کے باعث دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار پورے عالم اسلام کے مقبول ترین اور مخلص کمانڈر قتل کر دیئے جائیں، امریکہ کی غیر اخلاقی، انسانی حقوق اور دوسری بین الاقوامی تنظیموں کی ذمہ داریوں کو کئی گنا بڑھا نہیں دیتی ہے  ؟

جو اسلامی ممالک اس عظیم اور ہمدرد شخصیت کی شہادت کو فراموش کرنا چا رہے ہیں انہیں نواسئہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کا آخری خطبہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اس خطبہ میں کامیابی اور ناکامی کے مصداق کون لوگ ہیں، ؟؟؟؟

امام حسین علیہ السلام کربلا کے میدان میں اہل عراق اور یزیدی حکومت کے تنخواہ خواروں کو ایک دفعہ اپنے اس انقلاب کی وجوہات بیان کرتے ہوئے فرمایا اہل عراق کو خطاب کرنے لگے تو انہوں نے کوئی توجہ نہ کی تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا پھٹکار ہو تم پر !

تم کو کیا ہو گیا ہے  ؟ کہ میرا کلام نہیں سنتے۔ پس غور سے سنو  ! میں تو تم کو کامیابی و رشد کی طرف دعوت دیتا ہوں جس نے میری اطاعت کی وہ کامیاب و کامران ہونے والوں میں ہوگا جس نے میری نافرمانی کی وہ ہلاک و تباہ ہونیوالوں میں ہوگا، تم سب کے سب میری بات کی نافرمانی کررہے ہو، میری بات کو نہیں سنتے تمہارے دل حرام سے بھر چکے ہیں اور تمہارے دلوں پر مہر لگ چکی ہے،

شہید قاسم سلیمانی نے پورے عالم اسلام کو اپنی شہادت دے کر کامیابی اور ناکامی کے راستوں کو واضح کردیا ہے، کامیابی کے مصداق یقینا شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس جیسے لوگ ہیں ، عالم اسلام کی عظمت، وحدت، سلامتی اور ترقی کا انحصار شہید قاسم سلیمانی کے کردار پر عمل پیرا ہونے پر ہی ہے جس نے صحیح معنوں میں عملی طور پر امام حسین علیہ السلام کے پیغام کو اپنے آپ پر نافذالعمل کرکے امت مسلمہ کو بیدار کرنے کی کوشش اور ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ دین و دنیا کی کامیابی ہمارا مقدر بن جائے،

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

eleven + twelve =