نومبر 23, 2024

جمعیت علماء اسلام کیوں ہاری ۔؟

تحریر: عمر فاروق

آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن میں جمعیت علماء اسلام وہ کارکردگی نہ دکھا سکی جس کی توقع کی جارہی تھی،یہی وجہ ہے کہ جمعیت کا کارکن شدید مایوس بھی ہے اور غصے میں بھی ہے کیوں کہ 2018 کے الیکشن کے بعد عمران نیازی کی فسطائیت کا مقابلہ جمعیت ہی نے کیا ۔پارلیمنٹ کے اندر و باہرصحیح معنوں میں اپوزیشن کا کرداربھی جے یو آئی نے ادا کیا ،سختیاں برداشت کیں ،مقدمات اور تشددکا سامنا کیا نیازی کے بدترین میڈیا ٹرائل کو بھی جھیلا اور پھرسب سے بڑھ کر عمران نیازی کی حکومت کا بوریا بسترگول کرنے والی تحریک کی سربراہی بھی مولانا فضل الرحمن نے کی ۔

مولانا فضل الرحمن کے تاریخی لانگ مارچ اور پی ڈی ایم کی تحریک کا نتیجہ تھا کہ عمران نیازی کی حکومت کمزور ہوئی ۔اداروں کو اس کے سرسے دست شفقت اٹھانا پڑا اوربالآخر اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں عمرانی حکومت کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوئیں ۔یوں مولانا فضل الرحمن اورجمعیت کے کارکن مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے محسن ٹھرے۔ کیوں کہ انہی کی قربانیوں کی بدولت ان دونوں جماعتوں کی سیاست میں واپسی ہوئی بلکہ ان کی قیادت کو ریلیف بھی ملامگر جب پھل کھانے کاوقت آیا تومسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے اپنی جھولیاں بھر دیں ۔

وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں

ہمارے حصے میں عذر آئے، جواز آئے، اصول آئے

جے یو آئی کی شکست کی وجوہات کاجائزہ لیں تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان سے جمعیت علماء اسلام ہمیشہ کامیابی حاصل کرتی رہی ہے جہاں مذہب کی جڑیں کافی مضبوط ہیں، خیبرپختونخواہ میں عمران نیازی کی دس سالہ حکومت کانتیجہ ہے کہ وہا ں کے عوام اب ایک شیخ الحدیث اورعالم دین کے مقابلے میں کسی سرمایہ داریاخان کوووٹ دینے کوترجیح دیتے ہیں حالانکہ اس سے قبل ایک سائیکل سوارعالم سرمایہ دارکوبآسانی چت کردیتاتھا۔ یہ وہ ایجنڈہ تھا کہ جس کے لیے عمران نیازی کواس قوم پرمسلط کیاگیا تھا کہ ان علاقوں سے مذہب کی جڑوں کو کھرچ کر یہاں کے عوام کامذہبی لوگوں اورمدارس سے اعتمادختم کیاجائے کیوں کہ استعماری طاقتوں کوخطرہ انہی لوگوں سے ہے،مولانافضل الرحمن اس ایجنڈے کے حوالے سے کافی باراظہاربھی کرچکے ہیں۔پی ٹی آئی بھی یہ سمجھتی ہے کہ ان کے اس ایجنڈے میں سب سے بڑی رکاوٹ جمعیت علماء اسلام ہے ۔

اس بات کااندازہ اس سے بھی لگاسکتے ہیں کہ خیبرپختونخواہ کی نسبت بلوچستان میں جمعیت کی کارکردگی کافی بہتررہی ہے جمعیت وہاں سے خاطرخواہاں سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے،مولانافضل الرحمن انتخابی مہم چلائے بغیر اسی صوبے سے قومی اسمبلی کے ممبربنے ہیں جمعیت کے سیکرٹری جنرل مولاناعبدالغفورحیدری بھی اپنی نشست جیت گئے ہیں جمعیت بلوچستان میں اختلافات اورمولاناشیرانی گروپ کی موجودگی کے باوجود جمعیت کایہاں سے کامیاب ہونے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ صوبہ ابھی تک،، عمرانی کینسر،،سے محفوظ ہے اورکوشش کے باوجودعمران نیازی یہاں قدم نہیں جماسکاہے۔لیکن اس منحوس ایجنڈے کے کچھ نا کچھ اثرات ضرور ہیں کہ بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کے جے یوآئی کے جتنے ممبران کامیاب ہوئے ہیں ان میں ایک بھی مولوی نہیں ۔علماء کو یہاں بھی شکست کاسامنا کرنا پڑا۔۔۔

اب چوں کہ دونوں طرف سے یہ سیاست سے زیادہ نظریات کی جنگ بن کرنفرت میں تبدیل ہوچکی ہے ،مولانافضل الرحمن نے بھی پی ٹی آئی کے خلاف جارحانہ سیاست کی ۔دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیاجس کاردعمل دونوں جماعتوں میں کارکنوں میں پایاجاتاہے ۔اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کے قریب اوپر تلے عمران نیازی کے خلاف فیصلے آئے ۔جس کی وجہ سے جے یوآئی حالیہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے ووٹرزکے اسی ردعمل کااب سے زیادہ شکارہوگئی ہے ۔جبکہ جمعیت علماء اسلام کے کارکن اس ردعمل کامقابلہ نہ کرسکے اوراپنابیانیہ درست طریقے سے عوام تک نہ پہنچاسکے کیوں کہ جے یوآئی کے کارکن طویل احتجاج اورعمران کوگھربھیجنے کی صورت میں اپناردعمل پہلے ہی دے چکے تھے ۔

اس الیکشن کے دوران مجھے خیبرپختونواہ کے کئی علاقوں میں جانے کاموقع ملااور جمعیت علماء اسلام کے امیدواروں ،رہنمائوں اورکارکنوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔اکثرمقامات پر کارکن اورمقامی رہنماء قیادت کے فیصلوں سے ناراض نظرآئے اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جماعت کے مقامی رہنمائوں کی مشاورت کے بغیرفیصلے مسلط کیے گئے۔دیرینہ کارکنوں کودیوارسے لگاکرچھتری برداروں کوترجیح دی گئی ۔قیادت اورکارکنوں میں دوریاں پیداکی گئیں ۔اسی طرح مرکزی اورصوبائی قیادت کوچندلوگوں نے گھیراہوا ہے اورانہی مخصوص لوگوں یا خاندان پرنوازشات جاری ہیں ،جمعیت میں بھی آہستہ آہستہ شاہانہ مزاج رواج پارہاہے ۔

پورے ملک میں تنظیم سازی پرکوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔کئی علاقوں میں تنظیمی اختلافات کوحل نہیں کیاگیا اورنہ ہی کارکنوں کی شکایات کاازالہ کیاگیا ۔کس کوجماعت میں شامل کرناہے کس کونکالناہے مقامی قیادت کواعتمادمیں نہیں لیاگیا قیادت نے اپنی ذاتی پسندوناپسندکوترجیح دی یہی وجہ ہے کہ بعض جگہوں پر ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی شکایات بھی سامنے آئیں ۔اس حوالے سے صرف ایک مثال سامنے رکھوں گا کہ میڈیاکے محاذپرحافظ حسین احمدکے بعدجنگ لڑنے والے حافظ حمداللہ کوٹکٹ نہیں دیاگیا حالانکہ ان کے حلقے کے کارکن صوبائی اورمرکزی قیادت سے اپیلیں کرتے رہے ۔اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ نوسالوں میں مرکزاورصوبے نے مقامی قیادت سے اپنی ڈیمانڈزتوپوری کروائیں مگرجب وفاق میں ڈیڑھ سال کی حکومت ملی توان کارکنوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے انہیں کھڈے لائن لگادیاگیااور ،،دیہاڑی دار،،مفادات سمیٹتے رہے ۔

ایک مسئلہ یہ بھی د یکھنے میں آیاکہ جمعیت کی صفوں میں علماء اورغیرعلماء کے حوالے سے بھی اختلاف پایاجاتا ہے اگرچہ اس حوالے سے مولانافضل الرحمن وسیع الظرف ہیں انہوں نے کوشش کی ہے کہ جمعیت کادامن وسیع کیاجائے اوراس میں ہرقسم کے افرادکوشامل کیاجائے مگرکئی مقامات پردیگرجماعتوں سے آنے والے غیرعلماء جمعیت کے رنگ میں نہ ڈھل سکے اس کی بڑی مثال بنوں کی ہے جہاں کے علماء نے اس مرتبہ اکرم درانی کے خلاف اتحادتشکیل دے کراپنے امیدوارکھڑے کیے ۔یہی وجہ ہے کہ کئی علاقوں میں جمعیت کے امیدواروں کومدارس اورعلماء سے وہ رسپانس نہیں ملاجس کی وہ توقع کررہے تھے ۔

جے یوآئی کی قیادت کوسب سے زیادہ دہشت گردی کے خطرات کاسامناتھا ان کے متعددرہنماء اورکارکن شہیدہوچکے ہیں جس کی وجہ سے جے یوآئی کے امیدواروں کوبھی انتخابی مہم چلانے میں بھی شدیددشواری تھی ،اس کاآسان حل سوشل میڈیاکابھرپوراستعمال تھا مگرجمعیت علماء اسلام سوشل میڈیاپرمئوثراندازمیں اپنی انتخابی مہم نہیں چلاسکی اورنہ ہی جمعیت کی قیادت کوئی مضبوط انتخابی بیانیہ دے سکی،یہی وجہ ہے کہ جمعیت کے بعض رہنمائوں تک کومعلوم نہیں تھاکہ کون سے حلقے میں ان کاکون سے امیدوارہے اوراس کاکس سے مقابلہ ہے ؟دیگرسیاسی جماعتیں سوشل میڈیاکے محاذپرجمعیت سے بہت آگے ہیں پی ٹی آئی کی ساری انتخابی مہم سوشل میڈیاکے ذریعے چلائی گئی ،جہاں تک بیانیے کاتعلق ہے توجمعیت علماء اسلام انتخابی منشورکے اعلان کا تکلف تک نہیں کرتی بیانیہ تو دور کی بات ہے سوشل میڈیا ہو یا عام میڈیا اس حوالے سے جمعیت پہلے سے ہی بہت کمزور ہے۔؟

آج کل سوشل میڈیاکادورہے مخالفین کی طرف سے اعتراضات اورسازشی تھیوریاں پھیلائی جاتی ہیں یہاں بھی جمعیت کومشکلات کاسامنارہاسوشل میڈپرسب سے بڑا اعتراض یہ دیکھنے کوملا کہ مولانافضل الرحمن اپنے خاندان کے افرادکونوا زریے ہیں جیسے اس الیکشن میں مولاناخوددوحلقوں سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے مزیدیہ کہ ان کے دوبیٹے ،دوبھائی ،ایک بھتیجابھی انتخابی میدان میں موجودتھا۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پروہی چندخواتین گزشتہ پندرہ بیس سالوں سے قابض ہیں جن کاتعلق مولاناکے خاندان سے ہے اسی طرح ایک بھائی سینیٹرہے توایک رشتے دارگورنرہے وغیرہ۔جمعیت کے کارکن اس طرح کے اعتراضات کادفاع کرنے سے قاصرنظرآئے ۔جمعیت کی قیادت کو اس حوالے سے بھی اپنے فیصلوں پرنظرثانی کرناچاہیے ۔تاکہ ان میں اور دیگر سیاسی جماعتوں میں کچھ فرق ہوسکے ۔

اس کے علاوہ جمعیت علما ء اسلام انتخابی حکمت عملی بھی درست طریقے سے نہیں بناسکی پنچاب میں ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ یااتحادنہ ہونے کی وجہ سے جمعیت کے پی کے اوربلوچستان میں بھی ن لیگ یادیگرکسی سیاسی ومذہبی جماعت سے معاملہ طے نہیں کرسکی جس کازیادہ نقصان جے یوآئی کوہوا۔کئی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے گروہوں یاامیدواروں سے ایڈجسٹمنٹ نہ ہونے کی بناء پرجمعیت کے متعددامیدوارشکست کھاگئے اس کی ایک مثال این اے 13بٹگرام کی ہے جہاں بہترحکمت عملی سے قومی اورصوبائی اسمبلی کی نشستوں پرکامیابی حاصل کی جاسکتی تھی ۔

جے یو آئی نے سندھ نے قدرے بہترحکمت عملی بنائی مگروہ زرداری کے طلسم کونہ توڑسکے اور پیپلز پارٹی کی منظم دھاندلی کا شکار ہوگئی ۔جے یوآئی نے سندھ سے قومی اسمبلی کی 61 سیٹوں میں سے محض 16 نشستوں پر حصہ لیا اور جمعیتہ کے امیدواروں نے 465,797 ووٹ حاصل کئے ۔اسی طرح سندھ اسمبلی کی 130 سیٹوں میں سے محض 36 نشستوں پر جمعیتہ علما اسلام نے 420,918 ووٹ حاصل کئے جبکہ قومی اورصوبائی اسمبلی کی باقی تمام سیٹیں اتحادی جماعتوں کے لیے خالی چھوڑیں ۔ جمعیت علمائے اسلام سندھ سے کوئی سیٹ توحاصل نہ کرسکی مگرجمعیت نے سندھ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی 191 مین سے صرف 52 نشستوں پر 886,715 ووٹ حاصل کئے جوکہ ایک حوصلہ افزابات ہے ۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

three + fifteen =