تحریر: شبیر احمد شگری
غزہ کی مزاحمتی تنظیم حماس کا طوفان الاقصی آپریشن حقیقت میں یکایک کسی طوفان کی طرح اسرائیل کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ھے۔ ایک ایسے طوفان کی صورت میں دشمن پر برس پڑا ھے کہ دشمن حواس باختہ ھوگیا ھے۔ دنیا بھی اس اچانک اور بھرپور حملوں پر حیران ہے۔ نظر آرہا ھے کہ ایک لمبے عرصے سے صیہونیوں کے ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے فلسطینیوں نے اس مرتبہ مزید مستحکم ارادوں سے کمر کس لی ھے۔ اور ایک نئے جوش و جذبے سے اپنے دشمن پر پل پڑے ہیں۔ ایک ایسے دشمن پر جو صرف فلسطین کے نہیں بلکہ عالم اسلام کے دشمن ھیں۔ جو قبلہ اول پر قابض ہیں۔جنھوں نے عالم اسلام کی غیرت کو للکارا ھے۔ البتہ یہ اور بات ھے کہ یہ غیرت کب اورکتنا جاگتی ہے۔ حماس نے ابتداکردی ھے حزب اللہ اور ایران بھی کھل کر ان کی حمایت کررہے ہیں اب دیکھتے ہیں کہ دیگرمسلمان ممالک کا کیا رد عمل کیا کردار سامنے آتا ھے جوکہ فی الحال زبانی کلامی ہی ھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج مسلمانوں کے مسائل خود اپنے کمزوریوں کی وجہ سے ہیں۔ اللہ پاک نے مسلمانوں کو اس عظیم دین کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل سے بھی مالا مال کر رکھا ہے۔ لیکں آج مسلماں آپس میں دست و گریباں ہیں۔۔ کاش عالم اسلام ہی اگر متحد ہوتا تو فلسین اور کشمیر میں آج یہ حالات نہ ھوتے۔
شاعر مشرق حضرت اقبال ؒ نے کیا خوب فرمایا تھا۔
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک ۔ کچھ بڑی بات تھی ھوتے جو مسلمان بھی ایک۔
اگر مسلمان ہی ایک ہوجائیں تو کرہ ارض پر کسی کی مجال نہ ہو کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے ۔ تمام دنیا کے مسلمان ایک خدا کو مانتے ہیں اور جدا جدا ہیں جبکہ کافر سب الگ الگ خداکو مانتے ہیں لیکن سب ایک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مٹھی بھر یہودی آج قبلہ اول پر قابض ہے اور فلسطینی بھائیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہوئے ہے۔بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی ؒ نے فرمایا تھا کہ اگر مسلمان ایک ایک بالٹی اسرائیل کی طرف پھینک دیں تو اسرائیل اس میں بہہ جائے گا۔ مگر ہم اپنی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔
حالانکہ اس وقت ایک جماعت حماس کے دانت کھٹے کردینے والے حملوں نے یہ ثابت کردیا ھے کہ “رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن” مسلمانوں کی تاریخ اس چیز سے بھری پڑی ہے کہ مسلمان کم تعداد میں ہونے کے باوجود ہمیشہ دشمن کو زیر کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ مسلمان جذبہ ایمان سے بھرپور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد کی امید پر جنگ لڑتا ہے۔ اور حاکمیت تو صرف اس ذات پاک کے ہاتھ میں ہے۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا ۔ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اسرائیل اپنی ٹیکنالوجی اور جدید ہتھیاروں کے گھمنڈ میں بدمست ہاتھی کی طرح فلسطینی عوام بچوں اور عورتوں کو اپنی طاقت کے بل پر روند رہا تھا۔لیکن اسے ابرہا کے ہاتھیوں کا لشکر یاد نہ رہا جسے ابابیلوں کے جھنڈ نے ڈھیر کردیا تھا۔ یہی حال کچھ حماس کے چھاتہ برداروں نے بھی کیا ہے۔اور اس وقت بدمست اسرائیل بدحواسی کا شکار ہے۔ بربریت کے خاتمے کے لئے طوفان الاقصی کے بھرپور حملوں کے نتیجے میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کھوکھلی صیہونی حکومت کی طاقت اور ہیبت کی داستانیں جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ مختلف ویڈیوز میں صیہونی فوج پر حملے، اعلٰی فوجیوں حکام کی گرفتاری اور صیہونیوں کو جان بچا کر بھاگتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ حماس کے جانبازوں نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دشمن پردھاوا بولا ہے۔ شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن ۔ نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی
اور ان کا مقصد کشور کشائی نہیں ہےبلکہ قبلہ اول اور اپنے چھینے گئے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش ہے ۔
ان تازہ کاروائیوں میں صیہونیت کی بدحالی اپنی جگہ اس کے حواریوں کے بھی دانٹ کھٹے ہوچکے ہیں۔ اور اب آپ دیکھیں گے کہ امریکہ اوریورپی حکومتیں فریاد کریں گی کہ نہتے یہودیوں پر ظلم ہورہا ہے ۔ اور جنگ روکنے اور صلح کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ جو اسرائیل کی پشت پناہی کے سوا کچھ نہیں۔ ورنہ حقوق انسانی کے ان علمبرداروں کو
فلسطین میں نہتے مسلمانوں بچوں اور عورتوں پر ہونے والے ظلم نظر نہیں آتے۔ ان کے کتے بلیوں کی جانیں بھی انھیں عزیز ہیں جبکہ مسلمانوں کا خون بہت سستا ہے۔بہر حال یہ بہترین وقت ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان متحد ہوکر فلسطین کو صیہونیت کے چنگل سے آزادی دلائیں۔ حزب اللہ اور ایران میدان میں آچکے ہیں اور ان کی طرح دوسرے ممالک کو بھی دو ٹوک اقدام اٹھانا ہوگا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے بانی پاکستان قائداعظم ؒ کا فلسطین کے بارے میں دوٹوک موقف تھا۔ بانی پاکستان اور پاکستان کا موقف باقاعدہ طور پر پاکستانی پاسپورٹ پر نظر آتا ھے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے لئے کارآمد نہیں ھے۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے ٹھیک نو ماہ بعد مشرقِ وسطیٰ کے قلب میں واقع انبیائے کرام کی سرزمین، ارضِ فلسطین پر شب خون مارا گیا تھا۔ 1947 ء میں جب قائد اعظم پاکستان کے گورنر جنرل تھے تو اسرائیلی وزیر اعظم نے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش پر مبنی ایک ٹیلی گرام قائد اعظم کے نام بھجوایاجس کا جواب قائداعظم نے سرکاری طور پر ان الفاظ میں دیا،دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کی بجائے جان دے دے گا، مجھے توقع ہے کہ یہودی ایسے شرمناک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے، میری خواہش ہے کہ برطانیہ اور امریکا اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور پھر میں دیکھوں کہ یہودی بیت المقدس پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ عوام کی آرزوں کے خلاف پہلے ہی پانچ لاکھ یہودیوں کو بیت المقدس میں بسایا جا چکا ہے۔ میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی اور ملک نے انہیں اپنے ہاں بسایا ہے؟ اگر تسلط قائم کرنے اور استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ امن قائم ہوگا اور نہ جنگیں ختم ہوں گی۔
بابائے قوم کے فرمان کے مطابق آج بالکل ایسا ہی ہورہا ہے۔ اس لئے آج پاکستان اور دیگر تمام اسلامی ممالک کو بھی نہ صرف ببانگ دہل اپنے موقف کا اعلان کرنا چاہئے بلکہ فلسطینیوں کی بھرپور مدد کرنی چاہئے تاکہ ہماری غیرت قبلہ اول آزاد ہوسکے۔ اور مسلمانوں کے قلب میں گھونپے گئے صیہونی خنجر کو نکالا جاسکے۔