نومبر 23, 2024

توہین صحابہ و اہل البیت ترمیمی بل پہ ملت تشیع کے تحفظات

تحریر: عباس حیدری

وطن عزیز پاکستان ایک نظریے کے تحت قائم ہوا اسی لیے یہ وطن ابتداء سے ہی “اسلامی جمہوریہ” قرار پایا۔ اس لیے اسے “نظریاتی” ملک کہتے ہیں

اسلام کے نام پہ بننے والے اس ملک کی بنیاد کوئی خاص مسلک یا فرقہ نہیں کہ اسے شیعہ یا سنی سٹیٹ قرار دیا جائے یہی وجہ ہے کہ اس کی تشکیل میں شیعہ ہوں یا سنی اھل حدیث ہوں یا بریلوی ایک دوسرے سے بڑھ کے جدوجہد کی اور قربانیاں دیں اور سلوگن یہ تھا کہ

پاکستان کا مطلب کیا

لا الہ الا اللہ

لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ تشکیل پاکستان کے بعد جوں جوں وقت گذرتا رہا وہ روح ختم ہوتی گئی جس کی بنا پہ پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور آج کے پاکستان کی حالت سے تو بچہ بچہ واقف ہے

کون سا پاکستانی مسلمان ہے جو توحید کا منکر ہے؟

کون سا پاکستانی مسلمان ہے جو نبوت کا منکر ہے؟

کون سا پاکستانی مسلمان ہے جو اھل بیت النبی ص ، اصحاب پیغمبر اور امہات مومنین کی توہین کو جائز سمجھتا ہے؟

میرے خیال میں کوئی نہیں۔ اس اصول پہ سب متفق ہیں

تو خرابی کہاں ہے؟

سب سے پہلی خرابی تو ہم میں یہ ہے کہ ہم نہ صرف سنی سنائی پہ یقین کرنے والے لوگ ہیں بلکہ بغیر تحقیق کے اسے آگے بڑھانا بھی ثواب عظیم سمجھتے ہیں۔

کسی مسلک کے خلاف جو سنتے ہیں بجائے اس کے کہ اس کے ذمہ دار افراد سے تحقیق کر لیں کہ یہ بات درست ہے یا غلط اس پہ یقین کرکے آگے منتقل بھی کر دیتے ہیں پھر بہت جلد اس پہ ایک ھجوم اکٹھا ہو جاتا ہے جو حسب توفیق اس میں اپنا حصہ ڈالتا ہے ، (سری لنکا کے ایک شخص کے ساتھ سیالکوٹ میں جو ہوا وہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے)

جبکہ قرآن مجید کی سورہ حجرات کی کی آیت 6 میں میں اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے ارشاد ہوا

(ترجمہ)

اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کر لیا کرو، کہیں نادانی میں تم کسی قوم کو نقصان نہ پہنچا دو پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔

۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو خود کو جس مسلک سے منسوب کررہے ہوتے ہیں خود اپنے اس مسلک کے احکامات سے بھی آگاہ نہیں ہوتے

معاملہ یہاں تک نہیں بلکہ “علماء نما” ایسے لوگوں کی ہر مسلک میں کمی نہیں جو سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیل کر محض چند ٹکوں کی خاطر ایسے فتاویٰ صادر کردیتے ہیں کہ ایک مسلک والا شخص دوسرے مسلک والوں کو قتل کرنا ثواب عظیم سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح میری جنت پکی ہو جائے گی

ضیاع الحق کی آمریت سے پہلے اس مائنڈ سیٹ کی حکومتی سطح پہ سرپرستی نہیں تھی یا تھی بھی تو جزوی طور پر

دوسری بدقسمتی یہ ہوئی کہ رشیا نے افغانستان پہ حملہ کر دیا تو ہم بھی اسے “جہاد” قرار دے کے اس میں کود پڑے اور یوں اس مائنڈ سیٹ اپ نے باقاعدہ ایک جتھے کی شکل اختیار کر لی اور پاکستان آہستہ آہستہ انتہا پسندی کی دلدل میں پھنستا چلا گیا اور پھر 1980 سے لے کے اب تک جس طرح حکمرانوں نے ان انتہا پسندوں کو استعمال کیا ایک الگ داستان ہے ہزاروں آرمی کے جوان پولیس ڈاکٹرز انجینئرز مسجدوں کے نمازیوں اور امام بارگاہوں میں عزاداروں اور بے گناہ عوام کا ایسا قتل عام شروع ہواجو آج تک رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا

حکمرانوں کی حماقتوں اور نت نئے تجربات نے میرے وطن کا جو حال کر دیا یے اس پہ دل خون کے آنسو روتا ہے

پاکستان بننے سے لے کے اب تک جتنے بھی حکمران آئے ان کی اکثریت نے آئین توڑنا اپنا فرض اولین سمجھا

اور پاکستانی عوام قانون توڑنے پر فخر محسوس کرتی ہے

بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آج پاکستان مذھبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے جن کے سامنے حکومت بے بس ہے

ایک طرف پاکستان کی معیشت کا بیڑا غرق ہوا ہوا ہے ایل سی بند ہوئی ہوئی ہیں، ڈالر کی اڑان نہ صرف قابو نہیں ہو رہی بلکہ مارکیٹ میں ناپید ہے

اسلام کے نام پہ بننے والا یہ ملک کہاں کھڑا ہے ؟

معاشرتی جرائم ، کرپشن اور بدامنی کس حد تک بڑھ چکی؟

پاکستان کی ٹریفک کا جو حال ہے ، کوئی کنٹرول ہی نہیں ہر سڑک پہ موت کا رقص ہے

ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پہ ہر روز ایکسیڈنٹ میں سیکنڑوں لوگ مر رہے ہیں مجال ہے کہ حکومت (بلکہ حکومتوں) کے سر پہ جوں بھی رینگے

مہنگائی اور آٹے کے بحران کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ لوگ لائنوں میں کھڑے کھڑے مررہے ہیں

پاکستان جن برے حالات سے گذر رہا ہے مجھے بتانے کی ضرورت نہیں سب جانتے ہیں

فرقہ واریت کا جن ہے کہ قابو میں ہی نہیں آرہا

تکفیری فتووں کی ایک منڈی لگی ہوئی ہے

ایسے حالات میں یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر حکومت کو کیا سوجھی کہ ملک میں انتشار کو مزید ہوا دینے اور ملک کو فرقہ پرستی کے ماحول میں دھکیلنے اور مذھبی انتہا پسندی کو مزید ہوا دینے کے لیئے ،

پہلے سے موجود قانون کہ جس میں صحابہ کی توہین پہ 3 سال کی سزا تھی 298A کا ترمیمی بل پیش کر کے اس کی سزا 10 سال یا عمر قید کر دی گئی ؟

پاکستان میں پہلے ہی بلاسفیمی قانون کا ناجائز استعمال ہو رہا ہے لوگ مذھبی تعصب کی بنیاد پہ جائیداد پہ قبضے یا انتقامی کاروائی کی بنیاد پہ اس شق کے تحت جھوٹی ایف آئی کرا دیتے ہیں

اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اول تو یہ ترمیمی بل انتہا پسندانہ سوچ کا حامل اور بد نیتی پہ مبنی ہے

پاکستانیوں کی اکثریت کو تشویش ہے کہ اس کا مقصد پاکستان کے صرف ایک طبقہ فکر کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے

بد نیتی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ

یہ ترمیمی بل ایک تو انتہائی خفیہ رکھا گیا جس کی تصدیق خود یہ بل پیش کرنے والوں نے بھی اپنے بیان میں کی

ثانیا” یہ خلاف قرآن وسنت بل (خلاف قرآن و سنت اس لیے کہ اصحاب پیغمبر کی توہین پہ عمر قید کی سزا نہ قرآن سے ثابت ہے نہ حدیث سے) بنیادی اسلامی قوانین کے بھی منافی ہے

اسی طرح یہ قانون آئین پاکستان کے بھی مخالف ہے کیونکہ آئین پاکستان وطن عزیز میں بسنے والے تمام شہریوں کواحترام کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اپنے عقیدے ، تاریخ اور مسلک کو بیان کرنے اور اس پر عمل کرنے کی مکمل اجازت دیتا ہے۔ ان حقوق کے خلاف کوئی بھی قانون سازی، بنیادی انسانی حقوق اور آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے

چاہیے تو یہ تھا کہ اس پہ ڈیبیٹ کرائی جاتی

اتنی عجلت میں پاس کرایا گیا کہ نہ ہی تو اسلامی نظریاتی کونسل سے اس سلسلے میں رائے لی گئی اور نہ ہی ملی یک جہتی کونسل کو اس کی خبر ہوئی

پاس بھی اس کنڈیشن میں کیا گیا کہ

بل کی منظوری کے وقت نہ ہی تو قومی اسمبلی کورم پورا تھا اور نہ ہی اسمبلی کی اکثریت تھی، صرف20سے25 ارکان موجود تھے ،

اور اب سینٹ سے بھی اسی طریقے سے بغیر بحث کیئے بغیر ایکسپرٹس سے رائے لیے پاس کرا لیا گیا

ایسا ترمیمی بل انتہاء پسند عناصر کے ہاتھ میں ایک مضبوط ہتھیار دینے کے مترادف ہے جس سے نفرت اور انتشار کو مزید ہوا ملے گی

پھر جب پہلے سے ہی اس پہ قوانین بنے ہوئے موجود ہیں تو بجائے ان کے نفاذ کے ایک اور بل لانے کا مطلب؟

نیز اس بل میں ابہامات بھی بہت ہیں

کیونکہ ایک تو تاریخی حقائق اور توہین میں تفریق بہت ضروری ہے

یہ تعین کون کرے گا

کہ یہ بات توہین کے زمرے میں آتی ہے یا قرآنی اور تاریخی مسلمہ حقائق ہیں؟

دوسرے، صحابیت کی واضح تعریف و تشخیص بھی ضروری ہے ورنہ بنی امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں کو بھی صحابی بنا کے ان کے متعلق توہین صحابہ کی ایف آئی آر درج کرا کے عمر قید کرانے کی کوشش کا راستہ کھل جائے گا

نبی کریم ص کے وصال کے بعد خود اصحاب پیغمبر میں بھی اختلاف نظر تھا

اسی طرح امامت و خلافت بھی شیعہ سنی کے درمیان بہت بڑا اختلافی مسئلہ ہے

خلفاء راشدین کی خلافت میں بھی اختلاف ہوا جس کے سبب جنگ صفین نہروان اور جنگ جمل جیسے سانحات ہوئے تو اگر ان جنگوں میں آمنے سامنے آنے والوں میں سے کسی ایک کو حق پہ اور دوسرے کو باطل پہ سمجھے گا تو اس پہ توہین کی ایف آئی آر ہو جائے گی ؟

بنا بر ایں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس قانون سے پاکستان اور اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہو گی بلکہ انتشار مذھبی منافرت اور انتہا پسندی کو اور ہوا ملے گی

لھذا انہی وجوہات کی بنا پہ پاکستان کا درد رکھنے والی شیعہ سنی اکثریت نے اس ترمیمی بل کو مسترد کر دیا ہے

اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ

1- صدر پاکستان یا تو اس بل کو اس نوٹ کے ساتھ واپس بھجوا دیں کہ بل میں دوسرے مکاتب فکر کے جو تحفظات ہیں اس کے مطابق ترمیم کی جائے

2- اس پہ تمام شیعہ سنی علماء کی رائے لی جائے اور پھر علماء اور اسلامی نظریاتی کونسل کی آراء کی روشنی میں اس میں ابہامات دور کرائے جائیں

3-کوئی ایسا میکنزم بنایا جائے کہ خلاف آئین اور خلاف قرآن و سنت نہ قرار پائے (کیونکہ اسمبلی کی اکثریت تو علم دین سے ناواقف ہے)

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس بل میں جو سزائیں رکھی گئی ہیں وہ قرآن و سنت سے ثابت نہیں

4-توہین، کی ڈیفینیشن کی جائے تاکہ توہین اور نکتہ نظر کے اختلاف اور مسلمہ قرآنی و تاریخی حقائق کے درمیان واضح فرق معلوم ہو سکے

نیز صحابیت کی ایک جامع اور واضح تعریف و تشخیص کی جائے

5- ایسا میکانزم بنایا جائے کہ کوئی اس قانون کا غلط استعمال نہ کرسکے

(جیسا کہ سلمان تاثیر اور آسیہ بی بی کے واقعات میں ہوا)

اگر ایسا نہ ہوا تو

پاکستان پہ اظہار رائے کی آزادی پہ قدغن اور انسانی حقوق سلب کیئے جانے کا الزام آئے گا جو وطن عزیز پاکستان کی معاشی اور معاشرتی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا

پہلے ہی پاکستان مشکل سے گرے لسٹ سے نکلا ہے

آئیے سب مل کر وطن عزیز اور ملت پاکستان کے لیے دعا کرتے ہیں کہ

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

 

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

 

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

 

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں

کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

 

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن

اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

 

ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال

کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

 

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

(احمد ندیم قاسمی )

 

 

 

 

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

16 + six =