تحریر: علی سردار سراج
جب خوارج نے علی علیہ السلام کے مقابلے میں قرآن مجید کی اس آیت کو شعار بنایا: ” لا حكم إلا لله “ تو امام بیان نے ایک مختصر کلمے میں اس خطرناک سازش کا جامع جواب دیا
“كلمة حق يراد بها الباطل”
باطل کی مجبوری ہے کہ وہ حق کی چادر تلے پنہان ہوجائے ، لہذا دنیا کی ہر جعلی چیز ، اصلی چیز کی شکل میں بیچی جاتی ہے ۔
اس جعل اور فریب کاری کا مقابلہ بصیرت اور آگاہی ہی کے ذریعے سے ممکن ہے ۔
طول تاریخ میں بدترین سیاسی مقاصد کو بہترین نعروں کے ذریعے سے حاصل کیا گیا ہے ۔
بنو عباس مسلم معاشرے پر
اَلرّضا مِنْ آلِ مُحمّد
کا نعرہ لگا کر مسلط ہو گئے ۔
حتی فرعون بھی یہی کہتا تھا
” مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ( موسی ) تمہارے دین کو بدل نہ دیں اور زمین میں کوئی فساد نہ برپا کردیں۔
40-Ghafir : 26
مقدساست کی توہین چاہیے ان مقدساست کا تعلق کسی بھی مذہب اور مکتب سے ہو ، ایک ناپسندیدہ عمل ہے ۔ جس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے ۔
کیونکہ اس سے دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور نتیجے کے طور پر وہ سوچ سمجھ کر کوئی اقدام کرنے کے بجائے ایک غلط حرکت کر سکتا ہے ۔
لہذا قرآن کریم واشگاف الفاظ میں مومنین کو دستور دیتا ہے
“اور خبردار تم لوگ انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے ۔
6-Al-An’am : 108
جو بات قابل غور و فکر ہے وہ یہ کہ منطقی اور درست طریقے سے حقائق کو بیان کرنا توہین کے زمرے میں نہیں آتا ہے ورنہ قرآن کریم جو حکم دیتا ہے کہ دوسروں کے جھوٹے خداوں کو برا بھلا نہ کہو ۔
جھوٹے خداوں اور ان کی پرستش کرنے والوں کے خلاف سکوت اختیار کر لیتا ۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم بہت ہی واضح الفاظ میں اس فعل قبیح سے منع کرتا ہے اور لوگوں کی ہدایت سے چشم پوشی نہیں کرتا ہے۔
پاکستان کچھ ایسے حالات سے گزر رہا ہے کہ کوئی بھی چیز اپنی جگے پر نہیں ہے ایک اسمبلی ہے جس میں اپوزیشن نام کی کوئی شے موجود نہیں اور عام لوگ سیاسی مسائل کے علاوہ اقتصادی پریشانیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ایسے حالات میں جماعت اسلامی کے جناب چترالی صاحب کے ذریعے ایک متنازعہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہوتا ہے اور عجلت کے ساتھ وہاں سے پاس ہوتا ہے اور سات اگست دو ہزار تیس کو ایوان بالا( سینٹ ) سے بھی جلد بازی میں پاس ہوتا ہے ۔
سیانے جانتے ہیں کہ یہ قانون فقط ایک تکفیری گروہ کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کی سیاسی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے بنایا گیا ہے ۔
ایک ایسا گروہ جو نہ صرف اپنے مخالفین کی تکفیر کرتا رہا ہے بلکہ اس راہ میں کئی بے گناہ لوگوں کے خون میں ہاتھ رنگین کیا ہوا ہے۔
یہ لوگ اسلام کی تفسیر اور تبیین میں خوارج کی روش پر کاربند ہیں شاید پاکستان میں ان کی تعداد تین اور پانچ فیصد کے درمیان ہو ، لہذا ایسی سوچ اور ایسے گروہ کی خواہش کے مطابق مملکت عزیز پاکستان کے قوانین بنانے کا مطلب ، پاکستان کے پچانوے سے ستانوے فیصد لوگوں کو دیوار سے لگانا ہے۔
اس قانون کے اصلی محرک بخوبی جانتے ہیں کہ یہ قانون کسی کی توہین روکنے کا باعث نہیں ہے ۔ بلکہ مخالفین کو دبانے کے لئے اس خونخوار اور تنگ نظر گروہ کے ہاتھ میں دیا ہوا قانونی ہتھیار ہے۔
کیونکہ کوئی بھی مدنی قانون وضع کرنے سے پہلے اور شرعی حکم کے اثبات سے پہلے اس کا موضوع اور شرائط واضح اور روشن ہونا ضروری ہے ۔
لیکن یہاں پر نہ موضوع روشن ہے اور نہ شرائط ۔
خود اہل سنت کے پاس صحابی کی کوئی متفق علیہ تعریف نہیں ہے ۔
توہین کی بھی کوئی واضح تعریف اور شرائط بیان نہیں ہوئے ہیں ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اس تکفیری سوچ کے مطابق خلافت و ملوکیت کا مصنف مرتکب توہین صحابہ ہوا ہے لہذا چترالی صاحب اور جماعت اسلامی اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ توہین کا آغاز وہاں سے ہوگا جہاں سے وہ سوچتے ہیں ۔
بہرحال دوسرے اس قانون کو مانے تو بھی شیعہ قوم اس قسم کے قانون کو ماننے سے قاصر ہے ۔
کیونکہ:
1: ہم قرآن کریم کی پیروی اور صحیح تاریخ کی روشنی میں
” تمام صحابہ عادل ہیں ”
کے قاعدے کو نہیں مانتے ہیں بلکہ ہم کسی بھی روایت کو قبول کرنے سے پہلے جس طرح بعد والے طبقات کے اوپر تحقیق و تفحص لازمی سمجھتے ہیں اسی طرح صحابہ کے اوپر بھی تحقیق اور تفحص ضروری سمجھتے ہیں ۔
لہذا یہ قانون حقیقت میں علم اور تحقیق کے اوپر پابندی ہے۔
2: تاریخ جہاں اقوام کی گزشتہ سے پردہ اٹھاتی ہے وہاں پر آئندہ کے لئے راہیں ہموار کرتی ہے ۔ لہذا قرآن کریم گذشتہ اقوام کے مثبت اور منفی کرداروں کو بطور روشن بیان کرتا ہے تاکہ امت قرآن گزشتگان سے درس حاصل کرکے آیندہ کو بہتر بنائیں ۔
اور مسلمانوں نے بھی قرآن کریم کی پیروی کرتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کو رقم کیا ہے۔
لہذا اس طرح کے قوانین حقیقت میں تاریخ سے لوگوں کو دور رکھنے کا باعث ہیں ۔
3: حقیقت میں یہ قانون اس لیے نہیں بنا ہے کہ کسی کی توہین نہ ہو جائے بلکہ اس لیے بنا ہے کہ اہل بیت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ڈھائے گئے مظالم اور ان کے کرداروں سے لوگوں کو بے خبر رکھیں ۔
ورنہ اس قانون سے بڑھ کر ہمارے مجتھدین کے شرعی فتوے ہیں جن پر عمل ہر شیعہ اپنے اوپر ضروری سمجھتا ہے ۔
آخر میں شیعہ قیادت اور بزرگان سے پیشگی معذرت کے ساتھ عرض یہ ہے کہ یہ وقت سجدے کا نہیں بلکہ قیام کا ہے۔
آپ جتنا زیادہ ملک اور قوم کے لئے دوسروں کی طرف سے ہونے والے مظالم پر صبر کرتے ہیں اتنا یہ تنگ نظر گروہ جری ہوتا جا رہا ہے ۔
اب وہ وقت آیا ہے کہ پتھر جہاں سے آیا ہے وہاں پھینکا جائے ۔
امیر المومنین علیہ السلام نے ہماری رہنمائی ان الفاظ میں کی ہے ۔
لَا یُنَامُ عَنْكُمْ وَ اَنْتُمْ فِیْ غَفْلَةٍ سَاهُوْنَ، غُلِبَ وَاللهِ الْمُتَخَاذِلُوْنَ۔
وہ تمہاری طرف سے کبھی غافل نہیں ہوتے اور تم ہو کہ غفلت میں سب کچھ بھولے ہوئے ہو۔ خدا کی قسم! ایک دوسرے پر ٹالنے والے ہارا ہی کرتے ہیں۔
اپنی بصیرت اور طاقت کے ذریعے سے اس طرح کے کالے قوانین سے ملک اور قوم کو دور رکھنے کا وقت آ گیا ہے ۔