تحریر: علی سردار سراج
غم و خوشی، تاریکی و روشنی، مشکلات اور آسانیاں دنیا کی زندگی کا لازمہ ہیں ۔
اور امید ہی وہ کرن ہے جو زندگی کے سفر کو آسان بناتی ہے۔
ملت تشیع پاکستان تین دہائیوں سے داخلی اختلافات کا شکار رہی اور ان اختلافات کے نتیجے میں بہت کچھ کھویا ۔
اور گزرتے روز کے ساتھ اتحاد اور اتفاق کی خواہش حسرت میں بدلتی جا رہی تھی ۔
اس انتشار سے سب سے زیادہ فائدہ تکفیری قوتوں نے اٹھایا ۔
زندگی کے اہم شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شیعہ شخصیات سے لے کر عام مومنین تک کو شہید کیا گیا، یہاں تک کہ ہماری شناخت کرکے بسوں سے اتار کر شہید کیا گیا ۔
جب کسی کو دکھ ہی نہیں ہوا تو پھر اس پر مذمت کیا ہونی تھی اور انصاف کیا ملنا تھا؟؟؟!!!
اگرچہ شیعہ احزاب اور قائدین نے اپنے اپنے طور پر کوشیشیں ضرور کیں ، لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں ملا اس کی بنیادی وجہ داخلی اختلافات اور ایک منظم پالیسی کا نہ ہونا تھی۔
دہشت گردی کا جن جب طاقتور ہو کر اپنے آقائوں پر ہی وار کرنے لگا تو انہوں نے بھی اس کو کسی حد تک بوتل کے اندر بند کیا ، نتیجے کے طور پر شیعہ قوم کو بھی کچھ سکون میسر ہوگیا ۔
فیصلہ سازوں نے دوبارہ ضرورت محسوس کی کہ اس جن کو دوبارہ فعال ہونا چاہئے تو اس کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہوئے قانونی ہتھیار بھی دے کر آزاد کرنے کا فیصلہ کیا گیا، کیونکہ قانونی دائرے میں کٹنے والی گردنوں کی کوئی گرفت نہیں ہوتی ہے ۔
جس طرح قصائی کی دکان پر کٹنے والے بے شمار حیوانوں کے لئے کسی کا دل نہیں تڑپتا ہے۔
لہذا عجلت میں ایک بل قومی اسمبلی اور سینٹ سے پاس کرایا گیا جس کا ظاہر سانپ کی طرح دلکش و زیبا اور باطن زہر ہلال کی طرح قاتل تھا ۔
یہ اتنا تلخ واقعہ تھا جس کی تلخی کو ملت تشیع نے اپنے پورے وجود کے ساتھ لمس کیا ۔
اور اس کڑواہٹ کے بعد بھلا کونسی چیز باقی رہتی تھی جس کے سہارے وہ اپنے متاع بے بہا لٹتے ہوئے دیکھ کر بھی خواب خرگوش میں کچھ لمحے اور گذارتے؟؟؟
یہ ممکن نہ تھا لہذا یہ واقعہ ہمارے لیے اس آیت کریمہ کا مصداق بنا ” فَعَسَىٰٓ أَن تَكْرَهُوا۟ شَيْـًٔا وَيَجْعَلَ ٱللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
چہ بسا تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور خدا اسی میں خیر کثیر قرار دے دے
4-An-Nisa : 19
اس بل کی وجہ سے شیعہ علماء کرام اور مفکرین نے بھی ان پوشیدہ تاریخی حقائق میں سے بہت مختصر حقائق کو برملا کیا جن کو اسلام اور مسلمین کے وسیع تر مفادات کی خاطر پوشیدہ رکھتے تھے ۔
اللہ تعالی نے شیعیان علی علیہ السلام کے دشمنوں کے مکر کو خاک میں ملایا اور ان کے بنائے گئے زہر سے ایسی مٹھاس کو وجود بخشا جو کسی اور کے بس میں نہ تھا ۔
ملت تشیع کے دلوں کو ایک دوسرے سے نزدیک کیا اور تین دہائیوں سے منتشر قوم کو صحیح معنوں میں اکھٹا کیا۔ علماء کرام اور ذاکرین عظام کا 16 اگست کو اسلام آباد میں ہونے والے ملک گیر نمائندہ اجتماع نے جہاں دشمنوں کے نا پاک عزائم کو خاک میں ملایا وہاں شیعہ قوم کے دلوں میں دوبارہ امید کی نئی کرن روشن کی ۔
اور یہ ثابت کیا کہ ہماری اصلی طاقت ہمارا باہمی اتحاد و اتفاق ہے جس کا منشا اہل بیت علیہم السلام کی محبت ہے۔ہم جس محور پر اکھٹے ہوتے ہیں وہ تنظیمیں اور شخصیات نہیں ہیں بلکہ ولایت کی وسیع چھتری ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر دعوت ولایت اور دین کی طرف ہو تو قوم علماء کرام کے آواز پر لبیک کرتی ہے اور ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔لہذا علماء کرام کو چاہیے کہ وہ ولایت کی وسیع چھتری تلے شیعہ ہر فرد کو سینے سے لگائیں اور ان کی فکری، اخلاقی اور دینی تربیت کریں ۔ بالخصوص ذاکرین عظام کی دینی تربیت کے لئے باقاعدہ علمی مراکز کا قیام عمل میں لائیں ۔
اور آخر میں تمام تنظیموں اور شخصیات سے یہ بھی گزارش ہے کہ آپ اسلام آباد کے عظیم اجتماع سے کریڈٹ لینے کے تگ و دو میں نہ رہیں بلکہ رہنے دیں کہ اللہ تعالی بہترین جزا دینے والا ہے ۔
اگر ہم لوگ اس کامیابی سے حصے لینے کے چکروں میں پڑھ جائیں تو جنگ احد کی طرح جیتی ہوئی جنگ کی شیرینی شکست کی تلخی میں بدل سکتی ہے۔