نومبر 23, 2024

تقویٰ کے 100 دنيوی و اخروی فائدے قرآن کی نظر میں (2)

تحریر: ایس ایم شاہ  

  1. متقی دنیا اور آخرت دونوں میں سروخرو ہوتا ہے:

الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ لَہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ (یونس/63 ،64)

جو ایمان لائے اور تقویٰ پر عمل کیا کرتے تھے۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔

  1. تقوی انسان کو باطل کے بھنور سے حق کی شناخت کی طاقت اور کائنات کے جملہ امور میں بصیرت عطا کرتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ (انفال/29)

اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں) تمیز کرنے کی طاقت عطا کرے گا اور تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

  1. مسجد الحرام کے متولِّی بننے کا حق فقط اہل تقوی ٰکو حاصل ہے:

اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (انفال/34) 

اس (مسجد الحرام) کے متولی تو صرف تقویٰ والے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔

  1. تقویٰ متقی کے لیے اللہ کی رحمت و مغفرت شامل حال ہونے کا سبب بنتا ہے:

 وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ. (انفال/69)

اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقینا اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

  1. اللہ سے دوستی تقویٰ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ (توبہ/4) بتحقیق اللہ اہل تقویٰ کو دوست رکھتا ہے۔

  1. اللہ تعالیٰ ہمیشہ اہل تقویٰ کے ساتھ ہوتا ہے:

 وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ (توبہ/36) اور جان لو کہ اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے۔

  1. تقویٰ کی بنیاد پر تعمیر شدہ مسجد عبادت الٰہی بجا لانے کے لیے دوسری جگہوں سے افضل ہے:

لَمَسۡجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقۡوٰی مِنۡ اَوَّلِ یَوۡمٍ اَحَقُّ اَنۡ تَقُوۡمَ فِیۡہِ (توبہ/108)

البتہ جو مسجد پہلے ہی دن سے تقویٰ کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے وہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں۔

  1. ہر وہ کام جسے تقویٰ کے ساتھ انجام دیا جائے وہ بغیر تقویٰ کے ساتھ انجام پانے والے تمام کاموں سے افضل و برترہے:

اَفَمَنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی تَقۡوٰی مِنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٍ خَیۡرٌ اَمۡ مَّنۡ اَسَّسَ بُنۡیَانَہٗ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانۡہَارَ بِہٖ فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ (توبہ/109)

بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد خوف خدا اور اس کی رضا طلبی پر رکھی ہو وہ بہتر ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد گرنے والی کھائی کے کنارے پر رکھی ہو۔

  1. تقویٰ اہل تقویٰ کو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے جانے پر آمادہ کرتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ یَلُوۡنَکُمۡ مِّنَ الۡکُفَّارِ وَ لۡیَجِدُوۡا فِیۡکُمۡ غِلۡظَۃً (توبہ/123)

اے ایمان والو! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے نزدیک ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر ٹھوس شدت کا احساس کریں۔

  1. اہل تقویٰ وسیع النظر ہوتا ہے اور کائنات کی ہر چیز میں اللہ کے وجود کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے:

اِنَّ فِی اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَّقُوۡنَ (یونس/6)

بے شک رات اور دن کی آمد و رفت میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ان میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو (ہلاکت سے) بچنا چاہتے ہیں۔

  1. اہل تقویٰ ٰدنیا میں بھی سرخ رو ہیں اور آخرت میں بھی کامیابی ان کے قدم چومتی ہے:

اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (یونس/62)سنو!جو اولیاء اللہ ہیں انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔

  1. عاقبت بہ خیری اہل تقویٰ ٰکا مقدر ہے:

اِنَّ الۡعَاقِبَۃَ لِلۡمُتَّقِیۡنَ (ھود/49) انجام یقینا پرہیزگاروں کے لیے ہے۔

  1. اہل تقویٰ کی ایک دوسرے سے دوستی قیامت کے دن بھی برقرار رہے گی:

الْأَخِلَّاءُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِینَ (زخرف/67)اس دن دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔

  1. اہل تقویٰ ٰکے لیے آخرت میں جو نعمتیں میسر آئیں گی وہ دنیوی نعمتوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے:

وَ لَاَجۡرُ الۡاٰخِرَۃِ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ (یوسف/57)

اور آخرت کا اجر تو ایمان اور تقویٰ والوں کے لیے زیادہ بہتر ہے۔

  1. تقویٰ وہ عظیم سرمایہ ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا:

اِنَّہٗ مَنۡ یَّـتَّقِ وَ یَصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (یوسف/90)

اگر کوئی تقویٰ اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

  1. اہل تقویٰ کی اخروی زندگی ان کی دنیوی زندگی کے مقابلے میں بہت زیادہ پُرآسائش ہوگی:

وَ لَدَارُ الۡاٰخِرَۃِ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ (یوسف/109) اور اہل تقویٰ کے لیے تو آخرت کا گھر ہی بہتر ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

  1. اہل تقویٰ ٰکی رہائش گاہ بہشت ہے:

مَثَلُ الۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ؕ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ اُکُلُہَا دَآئِمٌ وَّ ظِلُّہَا ؕ تِلۡکَ عُقۡبَی الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا (رعد/35)

اہل تقویٰ سے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان ایسی ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اس کے میوے اور اس کا سایہ دائمی ہیں، یہ ہے اہل تقویٰ کی عاقبت۔

  1. اہل تقویٰ کے لیے بہشت میں ان کے پسند کی تمام سہولتیں فراہم ہوں گی:

اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ (حجر/45) (ادھر) اہل تقویٰ یقینا باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔

  1. تقویٰ وہ طاقت ہے جس کے ذریعے کائنات کے حقائق کو صحیح طرح درک کیا جاسکتا ہے:

وَ قِیۡلَ لِلَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا مَاذَاۤ اَنۡزَلَ رَبُّکُمۡ ؕ قَالُوۡا خَیۡرًا ؕ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃٌ ؕ وَ لَدَارُ الۡاٰخِرَۃِ خَیۡرٌ ؕ وَ لَنِعۡمَ دَارُ الۡمُتَّقِیۡنَ (نحل/30)

اور متقین سے پوچھا جاتا ہے: تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں: بہترین چیز، نیکی کرنے والوں کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو بہترین ہے ہی اور اہل تقویٰ کے لیے یہ کتنا اچھا گھر ہے۔

  1. اہل تقویٰ دنیا میں بھی باعزت زندگی گزارتے ہیں اور ان کی اُخروی زندگی میں تو ہر قسم کی آسائش میسر ہوگی:

جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ لَہُمۡ فِیۡہَا مَا یَشَآءُوۡنَ ؕ کَذٰلِکَ یَجۡزِی اللّٰہُ الۡمُتَّقِیۡنَ (نحل/31)

یہ لوگ دائمی جنت میں داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں ان کے لیے جو چاہیں گے موجود ہو گا۔ اللہ اہل تقویٰ کو ایسا اجر دیتا ہے۔

  1. اہل تقویٰ اس دنیا سے اُخروی سفر پر جاتے وقت بہترین حالت میں جاتے ہیں اور اللہ کے فرشتے ان کا استقبال کرتے ہیں:

الَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیۡنَ ۙ یَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمُ ۙ ادۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ (نحل/32)

جن کی روحیں فرشتے پاکیزہ حالت میں قبض کرتے ہیں (اور انہیں) کہتے ہیں: تم پر سلام ہو! اپنے (نیک) اعمال کی جزا میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔

  1. تقویٰ اللہ کے پیغمبروں کی بارز خصوصیت ہے:

یٰیَحۡیٰی خُذِ الۡکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ ؕ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحُکۡمَ صَبِیًّا وَّ حَنَانًا مِّنۡ لَّدُنَّا وَ زَکٰوۃً ؕ وَ کَانَ تَقِیًّا (مریم/13، 14)

اے یحییٰ! کتاب (خدا) کو محکم تھام لو اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت عطا کی تھی اور اپنے ہاں سے مہر و پاکیزگی دی تھی اور وہ پرہیزگار تھے۔

  1. جنت اہل تقویٰ ٰکی میراث ہے:

تِلۡکَ الۡجَنَّۃُ الَّتِیۡ نُوۡرِثُ مِنۡ عِبَادِنَا مَنۡ کَانَ تَقِیًّا (مریم/63) یہ وہ جنت ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے متقین کو بنائیں گے۔

  1. تقویٰ جہنم کی آگ سے نجات پانے کا بہترین وسیلہ ہے:

ثُمَّ نُنَجِّی ٱلَّذِینَ ٱتَّقَواْ وَّنَذَرُ ٱلظَّٰلِمِینَ فِیهَا جِثِیّٗا (مریم/ ۷۲)

پھر اہل تقویٰ کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پڑا چھوڑ دیں گے۔

  1. اہل تقویٰ وفد کی صورت میں اللّٰہ کا مہمان بن کر جائیں گے:

یَوۡمَ نَحۡشُرُ الۡمُتَّقِیۡنَ اِلَی الرَّحۡمٰنِ وَفۡدًا (مریم/85) اس روز ہم متقین کو خدائے رحمن کے پاس مہمانوں کی طرح جمع کریں گے۔

  1. قرآن مجید اہل تقویٰ کے لیے بشارتوں کا ایک مجموعہ ہے:

فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ (مریم/97)

(اے محمد) پس ہم نے یہ قرآن آپ کی زبان میں یقینا آسان کیا ہے تاکہ آپ اس سے صاحبان تقویٰ کو بشارت دیں۔

  1. اہل تقویٰ ہی اللہ کی آسمانی کتابوں سے رہنمائی لیکر ان کے مطابق زندگی گزارتے ہیں:

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ الۡفُرۡقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِکۡرًا لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (انبیاء/48)

اور بتحقیق ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان اور ایک روشنی اور ان متقین کے لیے نصیحت عطا کی۔

  1. تقویٰ قیامت کے دن نجات کی گارنٹی ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ ۚ اِنَّ زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمٌ (حج/1)

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو کیونکہ قیامت کا زلزلہ بڑی (خوفناک) چیز ہے۔

  1. تقویٰ الٰہی اقدار کی تعظیم کا سبب ہے:

ذٰلِکَ ٭ وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ (حج/32)

بات یہ ہے کہ جو شعائر اللہ کا احترام کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔

  1. تقویٰ خدا تک رسائی پانے کا سبب اور فیوضات الٰہی سے ہمکنار ہونے کا ذریعہ ہے:

لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ (حج/37)

نہ اس کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔

  1. تقویٰ ٰقرآن مجید سے وعظ و نصیحت حاصل کرنے کا وسیلہ ہے:

لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ وَّ مَثَلًا مِّنَ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (نور/34)

اور بتحقیق ہم نے تمہاری طرف واضح کرنے والی آیات نازل کی ہیں اور تم سے پہلے گزرنے والوں کی مثالیں بھی اور تقویٰ رکھنے والوں کے لیے موعظہ بھی (نازل کیا ہے)۔

  1. تقویٰ کامیابی کی چابی ہے۔

وَمَن یُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَیَخۡشَ ٱللَّهَ وَیَتَّقۡهِ فَأُوْلَٰٓئِکَ هُمُ ٱلۡفَآئِزُونَ (نور/53)

اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا اور اس (کی نافرمانی) سے بچتا ہے تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہوں گے۔

  1. اہل تقویٰ ہمیشہ بہشت میں رہیں گے:

قُلۡ اَذٰلِکَ خَیۡرٌ اَمۡ جَنَّۃُ الۡخُلۡدِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ؕ کَانَتۡ لَہُمۡ جَزَآءً وَّ مَصِیۡرًا (فرقان/15)

کہدیجئے: کیا یہ مصیبت بہتر ہے یا دائمی جنت جس کا اہل تقویٰ سے وعدہ کیا گیا ہے، جو ان کے لیے جزا اور ٹھکانا ہے۔

  1. اہل تقویٰ کی بہشت میں ہر خواہش پوری ہوگی:

لَہُمۡ فِیۡہَا مَا یَشَآءُوۡنَ خٰلِدِیۡنَ ؕ (فرقان/16) وہاں ان کے لیے ہر وہ چیز جسے وہ چاہیں گے موجود ہو گی جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

  1. بہشت اہل تقویٰ کا استقبال کرے گی:

وَ اُزۡلِفَتِ الۡجَنَّۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ (شعراء/90) اس روز جنت پرہیزگاروں کے نزدیک لائی جائے گی۔

…جاری ہے…

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

two × two =