جون 22, 2024

تفتان بارڈر۔۔۔۔ مسافر برائے فروخت

تحریر: ابراہیم شہزاد

آپ ریاست کو کیا سمجھتے ہیں؟ دیگر دنیا میں ریاست ماں ہوتی ہے۔ عوام کو دکھ درد ہو تو ریاست تڑپ اٹھتی ہے۔ لیکن پاکستان کا حال کچھ مختلف ہے۔ ہمارے ہاں ریاست ایک لوٹ لوٹ کر اور نوچ نوچ کر کھانے کی چیز ہے۔ تفتان بارڈر کو ہی لیجیے۔ پچھلے کئی سالوں سے تفتان بارڈر صوفی و ہمنوا ٹولے کے رحم و کرم پر ہے۔ زائرین کو تنگ کرنا، اُن کے  عقائد پر حملے کرنا، بزرگوں اور خواتین کے ساتھ توہین آمیز رویہ اپنانا تو معمول کی بات ہے۔ تفتان کی تپتی دھوپ میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں سے لیکر بڑے بزرگوں تک ہر کسی کو گھنٹوں فضول میں ستائے رکھنا تو ان کا مرغوب مشغلہ بن گیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں صوفی اور اس کی ان پڑھ ٹیم نوے کی دہائی کے کاغذ و پنسل لیکر اپنی پوری قابلیت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ قابلیت کے بارے میں بس اتنا بتا دوں کہ انہیں “تومان” لکھنا نہیں آتا۔ یہ تو بہت پہلے سے چل رہا تھا۔

ابھی نااہلی اور کرپشن کا نیا روپ دیکھئے! تفتان بارڈر سے لیکر کوئٹہ تک مسافرین کو کچھ مافیاز کے ہاتھوں بیچ دیا جاتا ہے۔ مسافر گاڑیوں میں ایرانی تیل فروخت کرنے اور لوگوں کی جل کر کباب بننے کی خبریں تو پہلے سے ہی دبا دی جاتی ہیں۔ جتنے واقعات ہوئے ان پر مٹی اور پانی دونوں کو ڈال دیا گیا۔ ان دنوں 2000 روپے تفتان سے کوئٹہ کا کرایہ ہے۔ ایف سی بھتہ لینے کیلئے مسافروں کو ٹرانسپورٹرز کے ہاتھوں فروخت کر دیتی ہے۔ جہاں ٹرانسپورٹرز مسافروں کو ہراساں کرکے فی نفر 5000 ہزار وصول کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کانوائی کے نام پر ایف سی مسافروں کو کئی کئی دنوں تک تفتان کی تپتی دھوپ میں روک کر ٹارچر کرتی ہے۔

ٹارچر کرنے کا مقصد لوگوں سے مزید رقم اینٹھنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان سے زبردستی پاسپورٹ چھین لئے جاتے ہیں، پاسپورٹوں کی واپسی پر مزید رقم وصول کی جاتی ہے۔ تفتان میں لوگوں کو روک کر زبردستی کھانے پینے کی اشیا خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایک مخصوص مافیا لوگوں کو شاید بازار اور ہوٹلوں کے کچرے سے باسی دال اور روٹیاں جمع کرکے لوگوں کو مہنگے داموں بیچتا ہے۔ لوگ مجبوری میں گندی چیزیں اور گندا پانی خرید کر پیتے ہیں، جس سے متعدد بیماریوں کے شکار ہو رہے ہیں، ان کی صحت کا کسی کو کوئی خیال نہیں۔ یہ بیماریاں آگے چل کر پورے ملک میں پھیلیں گی۔ جس ٹارچر سیل میں لوگوں کو زبردستی حبس بے جا میں رکھتے ہیں اور گند کھلاتے ہیں، اس کا نام پاکستان ہاوس رکھا ہوا ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ لوگوں کو پاکستان سے متنفر کرنے کیلئے اس عقوبت خانے کو پاکستان ہاوس کا نام دیا گیا ہے۔ وہاں گندگی کی وجہ سے سڑاند اور بدبو میں سانس لینا ممکن نہیں۔ گندے بدبودار، جراثیموں اور بیکٹریاز سے آلودہ باتھ رومز، غلاظت اور تعفن سے بھرے ہوئے گندے میلے کمرے اور مہنگے دام۔۔۔ یہ سب مسافروں کو جھیلنا پڑ رہا ہے۔ لوگوں کا منہ بند رکھنے کیلئے ہر کچھ عرصے کے بعد تفتان روٹ پر مختلف مافیاز میں سے کسی کو آگے کرکے دہشت گردی ایک واردات کرا دی جاتی ہے، اس کے بعد ان مافیاز کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے مسافروں کو لوٹتے ہیں۔

ہمیں امید ہے کہ اس ملک میں تمام اداروں کے اندر بے کس عوام اور لوگوں سے محبت کرنے والے، فرض شناس اور رشوت کو لعنت سمجھنے والے، محب وطن اور قانون و آئین کی پاسداری کرنے والے اعلیٰ حکام، بیوروکریٹ اور آفیسرز موجود ہیں۔ ہماری ان سب سے گزارش ہے کہ وہ اس مسئلے کو سمجھیں۔ یہ مسئلہ صرف انتظامی مسئلہ نہیں، یہ ہزاروں انسانوں کی جان و مال، عزت و آبر و اور صحت و زندگی کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ دہشت گردی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایرانی تیل کی اسمگلنگ چینی کی اسمگلنگ، انسانی اسمگلنگ،  ٹرانسپورٹ و ہوٹل مافیاز اور سرکاری اداروں میں چھپی ہوئی کچھ کالی بھیڑوں کی بھتہ خوری کا مسئلہ ہے۔

تفتان میں درحقیقت مسافروں سے بھتہ وصول کرنے کیلئے انہیں مختلف مافیاز کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ خدا کیلئے اس مسئلے کو سمجھئے اور عوام کی مدد کیجئے۔ بھتے کیلئے مسافروں کو مختلف مافیاز کے ہاتھوں فروخت کرنا یہ کچے کے ڈاکووں سے زیادہ خطرناک عمل ہے۔ آگے چل کر اس کے انتہائی بھیانک نتائج نکلیں گے۔ آج اپنی تجوریاں نہ بھریں بلکہ آنے والے کل کی فکر کریں۔ پہلے ہم نے جہاد افغانستان کے نام پر تجوریاں بھری تھیں، اُس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔

 

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

fifteen − eight =