جون 16, 2024

تحصیل پنڈی گھیب کا نوحہ

تحریر: شاہد حیدر

1904 سے قبل تحصیل کا درجہ رکھنے والا شہر پنڈی گھیب جسکا ذکر مغلیہ دور کی تاریخ میں ملتا ہے اپنے دامن میں محرومیوں کی لمبی داستان لئے آج بھی کسی مسیحا کا منتظر ہے. ماضی میں پنڈی گھیب تحصیل کی حدود تلہ گنگ اور جنڈ تک پھیلی ہوئی اور چار تھانوں پہ مشتمل تھیں جو مسند اقتدار پہ فائز تخت نشینوں کی بے اعتنائی وعدم دلچسپی کے باعث سمٹتے سمٹتے ایک تھانے تک محدود ہو گئی.

پنڈی گھیب کی زرخیز سر زمین غازیوں و شہداء کی سرزمین ہے بڑے بڑے نامی گرامی جرنیل، اعلی عہدوں پہ فائز افسران و نامی گرامی سیاستدانوں کا تعلق گھیبہ خاندان کے نام سے منسوب شہر پنڈیگھیب کی دھرتی سے رہا. تحصیل پنڈی گھیب کے چھوٹے سے چھوٹے گاؤں سے لیکر بڑے سے بڑے دیہات و قصبے کے قبرستان میں پاک فوج اور پولیس کے شہداءکی قبروں پہ لگے قومی و محکمانہ پرچم جوانوں کی ارض وطن سے وفا اور قربانیوں کی داستان سناتے دکھائی دیتے ہیں.

مگر ڈیڑھ لاکھ سے زائد آبادی اور تین درجن دیہات پر مشتمل ایک سو بیس سالہ پرانی تحصیل کے تعلیمی و صحت کے ادارے جدید ترین دور میں بھی ناکافی سہولیات کے ساتھ زمانہء قدیم کی یاد دلاتے دکھائ دیتے ہیں

بات کریں تعلیمی اداروں کی تو پنڈی گھیب شہر کا واحد بوائز ڈگری کالج کو اساتذہ اور جدید تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے باعث علاقے کے نوجوانوں کو علمی میدان میں سیراب کرنے اور تشنگی دورکرنے میں مشکلات کا سامنا ہے.

جدید ترین دور میں جہاں ترقی یافتہ ممالک چاند سے آگے کی دنیا سر کرنے کی کاوشوں میں لگے ہیں اور پرائمری سکولوں میں پہلی کلاس سے کمپیوٹر بطور مضمون پڑھایا جا رہا ہے پنڈی گھیب کا بوائز ڈگری کالج سرکاری سطح پہ محکمہ تعلیم اور مقامی سیاستدانوں کی عدم دلچسپی کے باعث جدید کمپیوٹر لیب سے محروم ہے. (کالج میں موجود 5 عدد کمپیوٹر اک سیاسی شخصیت نے 2018میں عطیہ کئے) علاقے کی اکثریتی آبادی کا ذریعہ معاش کھیتی و مزدوری ہے. اور اعلی تعلیم کے لئے بچوں کو بڑے شہروں میں بھجوانا والدین پہ اضافی معاشی بوجھ کاباعث ہے.

ہنر مند افراد کسی بھی معاشرے کی ترقی میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں فنی تعلیم.کے حوالے سے پنڈی گھیب شہر کے واحد ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کی وسیع و عریض پر شکوہ عمارت جس میں کروڑوں روپے مالیت کی جدید ترین مشینری موجود ہے

مگر چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ڈتین سالہ ڈپلومہ کورسز کا اجراء نہ ہو سکا. ڈپلومے کے حصول کے لیے آج بھی نوجوان منڈی بہاؤ الدین یا سرگودھا شہر کا رخ کرنے پر مجبور ہیں.

پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے دو انٹرچینج ملنے کے بعد آئے روز حادثات کے نتیجے میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال پنڈی گھیب کی ایمرجنسی کا رخ کرنیوالا مریضوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے. بچوں کی تعلیم و روزگار کے سلسلے میں گزشتہ پندرہ سالوں میں پنڈی گھیب کے نواحی علاقوں کے باسیوں نے ہزاروں کی تعداد میں پنڈی گھیب شہر کو مستقل مسکن بنا لیا. تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال پنڈی گھیب کی او پی ڈی سے تقریباً آٹھ سو سے بارہ سو مریض روزانہ کی بنیاد پر استفادہ کرتے ہیں. تاہم بڑھتی ہوئی آبادی کیوجہ سے بننے والے بوجھ اور حادثات کی صورت میں پیش آنیوالی ہنگامی صورتحال کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے طبی سہولیات ناکافی ہونے کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع معمول بن چکا ہے.

ہسپتال میں بلڈ بینک نہ ہونیکے باعث حادثے کے مریضوں کو راولپنڈی اسلام آباد ریفری کر دیا جاتا ہے مگر منتقلی کے دوران ہی اکثر مریض جان کی بازی ہار جاتے ہیں. بلڈ بینک کی تعمیر ناگزیر ہے.

میڈیکل اسپیشلسٹ، کارڈیالوجسٹ اور گائناکالوچسٹ کی مستقل بنیادوں پر تعیناتی علاقے کی ضرورت اور عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے. ہسپتال کی تزئین آرائش کے لیے بارہ کروڑ روپے کی خطیر رقم تو مختص کر دی گئ اور کام بھی زور و شور سے جاری ہے لیکن جدید طبی سہولیات و مشینری کے لیے قدیم ترین تحصیل کے باسیوں کی نگاہیں ابھی بھی کسی مسیحا کے منتظر ہیں. ای ٹی ٹی، انجیو گرافی، ڈائیلاسز مشینیں ہسپتال کی اہم ضرورت ہیں.

گزشتہ دور حکومت میں مختلف تحصیلوں کو ضلع کا درجہ ایسے دیا گیا جیسے اپنوں میں ریوڑیاں بانٹی جاتی ہیں مگر پاکستان کی قدیم ترین تحصیل پنڈی گھیب ضلع کا درجہ پانے سے محروم رہی.. پنڈی گھیب کی محرومیاں دور کرنے کا واحد راستہ پنڈی گھیب کو ضلع کا درجہ دلوانا ہے ماضی میں محمد شریف مرحوم نے ضلع بناؤ تحریک کا علم بلند کیا انکا ذکر نہ کرنا بہت بڑی نا انصافی ہے. انہی کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے انکے دیرینہ رفقاء اپنے حق کے حصول اور ضلع پنڈی گھیب کے قیام کے لئے میدان عمل میں ہیں جن میں توانا آواز ملک قیصر مشتاق ایڈووکیٹ سانق امیدوار صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی 4، ملک ریاض آف نکہ، ملک سرفراز اعوان ضلع پنڈیگھیب کے لیے ہر فورم پہ آواز بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں.

ماضی میں دیکھنے میں آیا کہ انتخابی حلقہ پنڈی گھیب سے تعلق ر رکھنے والی کسی نہ کسی پارٹی سے تعلق رکھنے والی ایک شحصیت ہر دور میں حکومتی مشینری کا حصہ رہی مگراہلیان پنڈی گھیب کو روزگار کی فراہمی کیلئے حکومتی سطح پر انڈستریل سٹیٹ کا قیام عمل میں نہ لایا جا سکا. 2018 میں اسوقت کے صوبائی وزیر معدنیات و موجودہ ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری شیر علی خان کی کاوشوں سے کھڑپہ، جنڈ موڑ سرکاری رکھ (جنگل) کے علاقے میں چائنہ پاک اکنامک کوریڈور کھڑپہ انٹرچینج کے قریب انڈستریل سٹیٹ کے قیام کی نوید سنتے ہی قدیمی تحصیل پنڈیگھیب کے باسیوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے کہ شاید وہ وقت آ گیا کہ ایک صدی سے زائد عرصے پر مشتمل زیادتیوں کی طویل فہرست کے ازالے کا وقت آن پہنچا مگر اس انڈسٹریل سٹیٹ کے منصوبے کو بھی نادیدہ ہاتھ لے اڑنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں

طلباء و طالبات کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے پنڈی گھیب میں یونیورسٹی کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے

اب نہیں تو کب

اس وقت جب این اے پچاس سے سابق امیدوار قومی اسمبلی پنجاب کے گورنر کی مسند پہ براجمان ہیں.این اے پچاس سے انتخابات جیت کر قومی اسمبلی کا ممبر بننے والے والے ملک سہیل خان کمڑیال اور پی پی چار سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے چوہدری شیر علی خان کا تعلق بھی حکمران جماعت سے ہے تو اہلیان پنڈی گھیب کے دلوں میں امید کی شمع روشن ہو چکی ہے کہ شاید صحت، تعلیم، روزگار کے حوالے سے جن محرومیوں کا ہمیں سامنا کرنا پڑا موجودہ حکمران سیٹ اپ میں شامل علاقے سے تعلق رکھنے والی شخصیات میں سے کوئ ایک دھرتی ماں سے وفا نبھاتے ہوئے ان محرومیوں کا ازالہ کر کے تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خود کو امر کر لے.

دیکھنا یہ ہے کہ بارہ دہائیوں سے زیادہ عرصے پہ مشتمل تعمیر ترقی کا خواب آنکھوں میں لئے شہر بے نوا کی خاموش صداؤں پہ کوئ لبیک کہے گا اور ان خوابوں کو تعبیر میں بدلے گا یا اس دور میں بھی طاقت کے مراکز میں بیٹھے حکمران غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی سے پروٹوکول کے مزے لیتے مدرت اقتدار میں اپنے اور اپنے خوشامدی درباریوں کے اثاثے بڑھانے اورعوام کو فوٹو سیشن کے ذریعے سبز باغ دکھانے تک ہی محدود رہینگے

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

11 + twenty =