اپریل 7, 2025

بیلسٹک میزائل پروگرامز پر امریکی متضاد پالیسی

تحریر: قادر خان یوسفزئی

امریکہ ایک ایسی عالمی قوت ہے جو خود کو سپر پاور سمجھتا ہے لیکن باوجود اس کے کہ امریکہ کے پاس خود ایک جدید میزائل اسلحہ کا ذخیرہ ہے، ایک پیچیدہ اسٹریجک، جغرافیائی سیاسی اور سیکیورٹی عوامل کا نتیجہ ہے اس  امر کے باوجود کہ کوئی دوسرا ملک اپنے دفاع کے لئے ایسے بیلسٹک میزائل تیار کرتا ہے تو اسے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں کہ امریکہ کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے امریکہ نے بیلسٹک میزائل پروگرام کی روک تھام کے لئے 1980کے دہائی سے پالیسی اپنائی، جب 1987 میں میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم (MTCR) کا قیام عمل میں آیا۔ یہ پالیسی دراصل سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سطح پر اپنی اجارہ ی کو قائم رکھنے کے لئے اختیار کی گئی جو امریکہ کی دانست میں اس کے لئے خطرات کا باعث بن سکتے ہیں۔ امریکہ کی اس پالیسی کا محور اپنی قومی سلامتی کو محفوظ بنائے جانا قرار دیتا ہے تاہم دہائیوں سے اتحادی کے طور پر پارٹنر رہنے والے ممالک جس میں پاکستان بھی شامل ہے، ایک خود ساختہ خوف کے باعث یا دباؤ میں رکھنے کے لئے پابندیاں عاید کرنا حیرانی کا باعث بنتا ہے۔ امریکی عہدے داروں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ کسی جنگ کی تیاری کررہا ہو اس لئے بائیدن انتظامیہ نے جاتے جاتے ایک متنازع فیصلہ کیا۔
امریکہ اپنی دانست میں عالمی سطح پر ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے خود کو فوقیت دیتا ہے اور اس حوالے سے خود تو تباہ کن ہتھیار بنا کر دنیا بھر میں پھیلاؤ کا باعث بن رہا ہے تو دوسری جانب متضاد رویئے کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ نے اس  امر پر زور دیا ہے کہ یہ پابندیاں ایک وسیع تر عالمی غیر پھیلاؤ کے عہد کا حصہ ہیں۔امریکہ سمجھتا ہے کہ جدید میزائل صلاحیتوں کا پھیلاؤ علاقائی طاقتوں کے توازن کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔ حالانکہ پاکستان کا کبھی یہ ارادہ بھی نہیں کہ وہ کسی عالمی طاقت کے توازن میں بگاڑ کے لئے کسی بھی قسم کے عزائم رکھتا ہے، حالانکہ پاکستان بھارت کے جارحانہ عزائم سے اپنی مملکت کو محفوظ بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن امریکہ کا خیال ہے کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیاں جزوی طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان اسٹریجک توازن کو منظم کرنے کے لیے لگائی گئی ہیں۔بنیادی طور پر امریکہ کی اس قسم کی پابندیاں عالمی اثر رسوخ میں دباؤ کے لئے استعمال کی جاتی ہیں، بادی النظر اسے اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ بھارت کے ساتھ امریکہ اپنے تعلقات میں وسعت چاہتا ہے اس لئے وہ بھارت کی خوشنودی کے لئے اپنے اسٹریجک پارٹنر کے تحفظات کو بھی نظر انداز کرنے سے گریز نہیں کررہااور اپنے فوجی superiority اور مختلف خطوں میں اسٹریجک فائدے کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔
امریکہ نے پاکستان کے نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس (NDC) اور اس سے وابستہ تین کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا۔ ان کا مقصد پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام میں ملوث اداروں کو نشانہ بنانا تھا امریکہ نے میزائل رینج پر اعتراض اٹھایا کہ ان میزائل کی رینج اتنی زیادہ ہے کہ ان میزائلوں سے امریکہ کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ امریکہ کا جواز ہے کہ پاکستان مبینہ طور پر بڑے قطر کے راکٹ موٹرز کی جانچ کے لیے ساز و سامان خرید رہا ہے، جو طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلز کے لیے معاون ہو سکتا ہے۔ پاکستان نے ان پابندیوں کو ”تفریق کرنے والی“ اور ”علاقائی سیکیورٹی کے لیے ممکنہ طور پر غیر مستحکم“ قرار دے کر ان پر سخت تنقید کی ہے۔- بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ پابندیاں بھارت کے مفادات سے متاثر ہو کر پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہیں۔ حالانکہ امریکہ کی جانب سے غیر ملکی میزائل پروگرامز پر پابندیاں عائد کرنے کی پالیسی پر عالمی سطح پر پہلے بھی کئی بار تنقیدیں کی گئی ہیں، خاص طور پر اس امر پر کہ امریکہ خود ایک جدید میزائل اسلحہ رکھنے کے باوجود دیگر ممالک کے پروگرامز پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔
افغانستان کی جنگ سے نکلنے کے بعد ٹرمپ، پھر بائیڈن انتظامیہ کا رویہ پاکستان کے لئے معاوندانہ نہیں رہا اور امریکہ نے پاکستان کے لئے جنوبی ایشیائی پالیسیوں میں مختلف معیارات اپنائے، عمومی مثالوں میں دکھا گیا ہے کہ پاکستان بیشتر پابندیوں کی زد میں رہتا ہے لیکن بھارت کے خلاف چاہے وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہو یا پھر اقلیتوں کے خلاف نسل کشی یا پھر ایٹمی پروگرام سے لے کر بھارت کے میزائل پروگرام پر اکثر خاموشی اختیار کی جاتی ہے، باوجود اس کے کہ بھارت نے خطے میں سب سے زیادہ باہ کن ہتھیار حاصل کئے اور امریکہ روس سمیت عالمی طاقتوں سے دفاعی نظام بھی حاصل کئے ہیں، چین کے خلاف ایک ہوّا کھڑا کرکے کبھی امریکہ سے مفادات حاصل کئے تو کبھی امریکہ کے خلاف روس سے جدید ہتھیاروں کا حصول جاری رکھا،  جنوبی ایشیا میں یہ پالسیاں بالخصوص اس امرکی غماز ہیں کہ امریکہ بھارت کے حق میں جبکہ پاکستان کے خلاف اپنی پالیسیوں کو ترجیح دیتا ہے مزید، برآں پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیاں جنوبی ایشیا میں اسٹریجک عدم توازن پیدا کرتی ہیں۔ پاکستان کی صلاحیتوں پر پابندیاں عائد کر کے جبکہ بھارت کو آزاد چھوڑ دینا اس خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کرے گا، جس سے علاقائی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔
امریکہ کے ساتھ دہائیوں سے مختلف اسٹریجک معاملات میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے باوجود، اس قسم کی پالیسی سے فطری طور پر پاکستان، چین اور روس جیسے دیگر طاقتور ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے  میں دلچسپی کو بڑھائے گا، جس سے عالمی اتحادوں کی صورت حال بھی بدل سکتی ہے اور امریکہ کے اسٹریجک اہداف پیچیدہ ہو سکتے ہیں گو کہ اس قسم کی پابندیوں سے پہلے بھی پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے تاہم ملک کے دفاعی ٹیکنالوجی حصول میں امریکہ پر انحصار، اس وقت ہی کم ہو گیا تھا جب امریکہ نے ایف 16طیاروں کی رقم لینے کے باوجود مزید طیارے دینے سے انکار کیا اور اپ گریڈ کرنے کے لئے تعاون کرنے سے گریز کی راہ اختیار کی۔ان پابندیوں کی ہی وجہ سے بعض ممالک اپنے میزائل پروگرامز میں خود انحصاری کی طرف راغب ہوتے ہیں، جس سے نئے اور زیادہ جدید میزائل ٹیکنالوجیز کی ترقی ممکن ہو پاتی ہے  جو امریکہ کے کنٹرول سے باہر ہوں گی۔ پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیوں کی مثال اس امر کو واضح کرتی ہے کہ اس پالیسی میں موجود متناقضات اور چیلنجز، نہ صرف عالمی سطح پر سیکیورٹی کے مسائل میں اضافہ کر سکتے ہیں بلکہ عالمی تعلقات میں بھی پیچیدگیاں پیدا کر سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

eight + fourteen =