نومبر 23, 2024

بلوچستان یونیورسٹی مالی مسائل کا شکار کیوں؟

تحریر: شکور نورزئی

اس وقت بلوچستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی مالی مسائل کا شکار ہے یونیورسٹی آف بلوچستان ستمبر 1970 کو ایک آرڈینس

کے ذریعے قائم کی گئی، ابتدا میں اس جامعہ میں چار موضوعات کی درس و تدریس شروع کی گئی اور اس کی بنیاد اچھے اور

قابل اساتذہ سے رکھی گئی، مگر بد قسمتی سے اس سے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں کا سلوک رکھا اور معالی معامالت میں اس کو

اس طرح پذیرائی نہیں ملتی رہے، جیسے اس صوبے کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔

ہائیر ایجوکیشن کے شعبے کا جائزہ لیتے ہوئے 1947سے 1970 تک پاکستان پبلک سیکٹرمیں کل 18 جامعات تھے جن میں سے

صرف ایک جامعہ صوبہ بلوچستان کا بھی تھا جبکہ مرکز میں پانچ ،پنجاب میں چھ خیبر پختونخواہ میں چار اور سندھ میں دو

تھے

1972سے 1990 تک مرکز میں سات ،پنجاب مین بارہ ،خیبر پختونخواہ میں چھ سندھ میں آٹھ اور بلوچستان میں ایک

1991سے 1998 تک مرکز میں دس پنجاب میں چودہ خیبر پختونخواہ میں چھ سندھ میں دس اور بلوچستان میں دو

2001سے 2010 تک مرکز میں بارہ پنجاب میں پچیس خیبر پختونخواہ میں سولہ سندھ پندرہ بلوچستان میں پانچ گللگت بلتستان

میں ایک۔

2011سے 2021 تک مرکز 16 پنجاب 52 خیبر پختونخواہ 30 سندھ 25 بلوچستان 10 اور گلگت میں جامعات کی تعداد 2 ہوگئے

کل مالکر پورے ملک میں 140 جامعات پبلک سیکٹر میں موجود تھے۔ ملکی اعداد و شمار کے مطابق 2013 سے 2021 تک 46

نئے جامعات بنائے گئے جس میں 5 جامعات بلوچستان میں بھی بنائ گئے، مگر )ایچ ئی سی ( کا بجٹ 2014 ۔ 2013 میں

919.41 ارب تھا جو کہ 2023 ۔ 2022 میں 65 ارب کا ہوا، ہونا یہ چاہیے تھا کہ )ایچ ئی سی( کے بجٹ کو یو نیورسٹیزکے نئی

تعداد کے مطابق بڑھانا چاہیے تھا مگر اس بجٹ میں نئی یونیورسٹیز کو بھی شامل کیا گیا جسسے بڑی اور پرانی یونیورسٹیز کا

بجٹ بھی متاثر ہوا ان دسسالوں میں بجٹ صرف 51.35 فیصد کا اضافہ ہواجبکہ ہر سال تنخواہوں اور اور پینشنز میں اضافے

کے عالوہ یوٹیلیٹی اور تیل کی قیمتوں میں بھی 10 فیصد سے زاید اضافہ ہوتا رہا ہے ۔ اس سارئ ہالیسی کا اثر دیگر جامعات کے

ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف بلوچستان پر بھی ہوا۔

سب سے بڑا بوجھ یونیورسٹی پر پینشز کا ہے 1997 میں یونیورسٹی نے باقاعدہ پینشن کی پالیسی اپنائی اور اس مد میں 39 ملین

کا ایک پینشن پنڈ قائم کیا ،مگر اس پالیسی کے تحت 1970 سے جو مالزم رکھے گئے تھے وہ بھی اس میں شامل ہوگئے۔

24۔2023سے 26۔2025تک مزید 115 مالزمین ریٹائرڈ ہونگے، جو یونیورسٹی کو 4.352 ملین روپے در کار ہونگے

اس وقت طلباکی کل تعداد 16111 ہے جن پریونیورسٹی ساالنہ فی سٹوڈنسٹ 210000 خرچہ آتھا ہے ان سے فیس کی مد ان سے

ساالنہ دو سمسٹر 48 ہزار روپے لیے جاتے ہیں، فیسوں اور طلبا کے امتحانات سے یونیورسٹی کو تقریبا 659 ملین ساالنہ آمدن

ہوتی ہے )ایچ ئی سی ( کی گرانٹ میں کمی تنخواہوں اور پینشنز میں اضافے اور ساتھ ہی پنشنز کی تعداد میں اضافے نے

یونیورسٹی کو شدید مالی مشکالت سے دوچار کیا ہے ۔

یونیورسٹی ماہانہ تنخواہ 688.173 ملین ہے اور پنشنز 587.67 کی مد میں ادا کی جاتی ہے عالوہ دیگر اخراجات بجلی گیس تیل

سیکورٹی اخراجات کیلئے ماہانہ 688.32 ملین درکار ہوتی ہے ۔ سارے اخراجات کل مال کر 949.271ملین بنتے ہیں مگر اسوقت

)ایچ ئی سی ( کی گرانٹ 1059 کو اگر 12 پر مساوی تقسیم کے جائیں تو ماہانہ 250.88 ملین اور یونیورسٹی اپنی آمدن 833.45

ملین ہے اور اسی طرح نومبر تا جون تک ہر ماہ تقریبا 083.134 اضافی درکار ہوتا ہے اسی طرح یونیورسٹی رواں سال کے

اختتام تک سکون سے چلے گی،یونیورسٹی کو فوری طور پر 928.1102ملین پیکچ اس سال کے لیے درکار ہوگا

مزید حل یہ ہے کہ جامعہ کے انڈو نمٹ فنڈ کےلئے 5 سال کے عرسے میں 4 ارب روپے دیئے جائیں اور انٹرسٹ کے انویٹ

سے بجٹ کا خسارہ پورا کیا جاسکے۔

یونیورسٹی کو پنشن فنڈ کیلئے 2 ارب دیئے جائیں تاکہ یونیورسٹی مزید مالی مشکالت سے چٹکارا حاصل کرے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

seventeen − eleven =