نومبر 23, 2024

بلوچستان میں سیلاب اور اس کا ازالہ

تحریر: شکور نورزئی

بلوچستان دنیا کا سب سے امیر ترین صوبہ ہے وسائل سے مالامال صوبے کو پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی اس صوبے کے 75فیصد لوگ غربت کے آخری خط استوا کے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں اس صوبے کو جو کچھ قدرت نے بخشا ہے وہ دنیا کے کئی ملکوں میں نہیں ہے پھر بلوچستان کے لوگ غربت کے آخری خط استوا کے نیچے زندگی بسر کیوں کررہے ہیں اس امیر ترین صوبے کا مالک در بدر کیون گھوم رہے ہیں ۔اس وقت بلوچستان میں سرکاری اعداد وشمار میں مجموعی طور پر 321019مکانات کو نقصاب پہنچا ہے جبکہ 5 لاکھ 90ہزار 439 ایکڑ زمین پر کھڑی فصلات تباہ ہوئیں ہیں۔2لاکھ 92ہزار 526مویشی سیلابی ریلوں کی نذہوئے ،25اگست تک ہونے والے مون سون بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں مزید یہ کہ خواب خرگوش حکومت بلوچستان کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بارشوں اور سیلابی ریلوں سے 336 افراد جان بحق اور 187زخمی ہوئے ہیں مجموعی طور پر 321019مکانات کو نقصان پہنچا اور مجموعی طور پر 250137 مکانات مکمل طور پرگرے جبکہ 96166 کو جزوی نقصانات پہنچا ، سب سے زیادہ نقصان جو حکومت وقت نے اس وقت شائع کیا وہ ہے ضلع نصیر آبادجو دیگر اضلاع سے زیادہ نقصان ہوا ہے ضلع نصیر آباد میں ابھی تک پانی کھڑا ہے اور اس سے حکومتی کاریگر معذرت خواہ یہ تو وہ علاقے ہیں جہاں حکومت وقت نے اب تک رسائی کی ہے لیکن حکومتی رپورٹ اب تک نا مکمل ہے کیونکہ یہ نقصان پورے بلوچستان پر بہت کم بتا رہے ہیں حالانکہ ان کے پاس منشنری نہ ہونے کے باوجود انہیں نے گاو¿ں قصبوں تک ابھی بھی رسائی نہیں کی کیونکہ بلوچستان میں کیچڑ کے نیچے جو لاشیں دب گئے ہیں انہیں ابھی تک نہیں نکالا ہے اب حکومت وقت دعوا کررہے ہیں کہ ہم نے سروے مکمل کی ہے اب سیلاب آفت صرف اور صرف بلوچستان تک محدود کیا ہے بلوچستان پوری دنیا کا ایک لیبارٹری کی شکل اختیار کرچکا ہے ، اب ہمار ا نام نہاد وزیر اعلیٰ اور ان کے ساتھ 40مشیر خاص جو ایک 17گریڈ ر آفیسر یعنی ریٹائرڈ کرنل کے سامنے بے بسی کا اظہار کرنے والا ان کا ازالہ کیسے کرتے ہیں ، جو ان کے پاس ملازمین کے پاس ان کے تنخواہوں کا پیسے بھی نہیں ہے، کیا حکومت وقت دوبارہ وہی پرانے چیف انجینرز کمیشن خور آفیسر اور حاجی صاحبان ٹھیکداران کو دیئے جاتے ہیں ، کیا حکومت وقت اسی این جی اوز سے امدا د کے انتظٓرہیں جس پر دو مرغی انڈوں کا بھی بھروسہ نہیں ، کیااب عوام بھی وہی پرانے نمائندے منتخب کریں گے ۔ریاست ماں جسی ہوتی ہیں لیکن بلوچستان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسے سلوک کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ریکوڈک ، گیس ، کوئلہ، کرومائیٹ، سیندک وغیرہ بلوچستان سے لیتے ہیں لیکن پھر بھی بلوچستان کے غیور عوام غربت کے آخری درجہ پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے یا مجبور کیا جاتاہے ،مرکز میں انہوں نے بلوچستان کے نام پر کئی بغیر قوم کے افراد کو نوازا ہے صرف اس لیے تاکہ وہ بلوچستان کے مقیم لوگوں کا حق چین لے ، آخرکب تک ، دہشت گردی سے لیکر روڈ اکیسڈنٹ تک سب کچھ بلوچستان کے نصیب کیوں لکھا ہے ، کیا بلوچستان کبھی ترقی نہیں کرسکتا ہے کیا بلوچستان کےغییور عوام کا کوئی پرسن حال نہیں ہے ، اگر حکومت کے پاس ملازمین کے ادائیگیوں کے پیسے نہیں ہیں وہ اس نقصان کا ازالہ کیسے کریگا ، واپس نان لوکل آفیسروں کو ان کے اُپرلاکر کھڑا کرتا ہے اگر کسی نے بات کی ان پر کئی مقدمات بنا کر حکومت اپنے گرفت میں لے لیتے ہیں ،بلوچستان میں آواز بلند کرنا کسی گناہ کبیرہ سے کم نہیں ہے،مسلط کردہ آفیسروں کو نوازا جارہا ہے تاکہ عوام کا آواز دب جائے لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے بچہ بچہ جانتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے ۔ بلوچستان کو مختلف طریقوں سے لوٹا جارہا ہے جس پر عوام کا حق ہوتا ہے انہیں پنجاب کے موٹروے کا نظر ہوجاتا ہے ، سیندک ختم اب معاہدہ ریکوڈک کا پتہ نہیں کچھ ذرائع سے معلوم ہوا کہ ریکوڈک کا سودا ہوگیا ہے وہ بھی خفیہ طریقے سے ملک میں وہ کون سا بیروکریٹ ہے جس کے پاس مختلف ممالک کے نیشنلٹی نہ ہوں ، ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو ملک کا پتہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ ہمارا ملک کے عوام کے کیاحالات ہے بس ان سب کو اپنے خاندان کا پڑاہوا ہے سب کے سب اپنے خاندانوں کے لیکے سوچتا ہے لیکن بے وقوف عوام کس پر بھروسہ کریں ، کیونکہ عوام کو پتہ نہیں ہوتا ہے کہ انکی اپنی ہی منتخب نمائندوں نے انہیں بھیج دیا ہے عوام کے ٹیکسوں پر بنا ملک عوامی خدمت سے غافل ہے ، کیا یہ ایک اسلامی ملک کے نمائندوں کیلئے یہ سب کچھ جائز ہے،کرپٹ نظام صرف امیر بلوچستان کے عوام کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے ، اور انہیں مختلف ایشوز پر الجاکر ان کا حق تلفی کیاجارہا ہے ، بلوچستان کے نوجوانوں میں ہر قسم کا ٹائلینٹ ہیں لیکن انہیں دیوار سے لگانے کا کوشش کیا جارہا ہے ، بلوچستان میں عزت صرف ان کی ہوتی ہے جن کے زبان پر yes sir بیٹھا ہوں ، یس سروالے بلوچستان کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ہے بلکہ انہی کے منصوبوں میں ان کے ساتھ شامل ہیں ، ان کو تو نہ بلوچستان کے ساتھ کوئی لگاو¿ ہیں نہ ان کا کوئی بلوچستانی ہے حکومت نے شناختی کارڈ کے اجزاءپر D N A ٹسٹ لازمی قرار دیا ہے ان کا کیا بھروسہ جس شناخی پر جو آفیسران مامور ہیں ان کا ہی D N A بلوچستان کا نہیں ہے تو وہ کیا بلوچستان میں آباد ہوئے دوسرے لوگوں میں کیسا فرق محسوس کریں ، 75سالوں سے محب وطن کو دیوار سے لگانے کی کوشش جاری ہے ، بلوچستان کے عوام محنت کش ، غیرت مند ، جفاکش لیکن کچھ ٹولہ جو اپنے آپ کو بلوچستانی کہتے ہیں اپنے سٹار اضافے کی خاطر مختلف ہیلے بہانے بنا کر بلوچستانی عوام کو گمراہی کے الزامات لگاتے ہیں ،اسلام میں حق کیلئے آواز بلند کرنا جائز ہے لیکن جمہوری اسلامی پاکستان میں صرف بلوچستانی عوام کے حق کا آواز کفری آواز بنجاتاہے ، اگر جائز مطالبات ہو اور انہیں مختلف ایشوز بنائیں تو سمجھ سے بالاتر ہے ، بلوچستان کا آوازلگانا جرم ہے اگرکسی نے بھی بلوچستان کے بارے میں آواز بلند کیا وہ مجرم ہے لکھنے والوں ہاتھ توڑ دیئے جاتے ہیں دیکھنے والوں کے آنکھیں نکل جاتے ہیں سنے والے کو بحرے بنادتے ہیں ۔ حکومتی دعوے بے بنیاد ہیں یہ صرف ٹوپی ڈرامہ ہے عوام کے آنکھوں میں دھول جونکنےکیلئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس مزے ان لوگوں کا ہے جن کا کوئی نقصان نہ ہو اب وہی لوگ امداد اپنے من پسند لوگوں میں تقسیم کرینگے، باقی بلوچستان کا اللہ ہی حافظ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

3 × 3 =