تحریر: ڈاکٹر علی محمد جوادی
خطہ بلتستان پاکستان میں مہد اسلام اور مرکز ثقافت مکتب اہلبیت سے معروف ہے اس خطے میں تقریبا 400 سالوں سے رسمی دین اور آئین اسلام رہاہے جس کی مضبوطی ، ترقی اور تحفظ کے لئے بزرگوں نے زحمتیں اٹھائی ہیں ان کی کوششوں اور زحمتوں کے نتیجے میں یہاں اسلام پھلا اور پھولا اور یہاں کے مکینوں کے دل و دماغ میں اسلامی احکام، عقائد اور اقدار راسخ ہوگئے، ان کے وجود میں روح اسلام پروان چڑا جس کا اہل بلتستان ہر قیمت پر پاس رکھتے آئے ہیں ، ماضی قریب تک اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر کوئی کام یا حرکت انجام دینے کا تصور ہی ناممکن سمجھا جاتا تھا ۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزار نا بلتستان والے اپنے لئے عزت، فضیلت، سر بلندی اور نجات کا زریعہ سمجھتے تھے۔
انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد اس علاقے میں بھی دینی فکری کیفیت اور ترقی میں اور بھی اضافہ ہوا یعنی ایک قسم کا فکری اور عقیدتی انقلاب رونما ہوا اور لوگوں نے دینی تعلیمات، دینی اقدار اور دینی ثقافت پر زیادہ سے زیادہ دلچسپی دکھائی۔
جس کے نتیجے میں بلتستان کے لوگوں نے گذشتہ 40 سالوں میں قومی اور مذہبی مسائل میں ابنے اندر پختہ دینی تفکر کے وجود کا بھر پور اظہار کیا ہے اور بے بدیل کردار کو تاریخ میں نقش کیا ہے۔
ملک بھر میں اس خطے کے علماء اور دانشوروں کا دین اسلام اور انقلاب اسلامی کے سفیر بن کر نظام ولایت کی تبلیغ کرنا، خواتین کی تعلیم و تربیت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینا ، دینی علوم کے حصول کے لئے ہزاروں طالب علموں کا پاکستان کے دینی مدارس اور قم، نجف اور مشھد کے حوزوں کی طرف کوچ کرنا، سیاسی میدان میں اس اس دور میں قومی مذہبی پارٹی تحریک جعفریہ پاکستان اور نمائندہ ولی فقیہ کے ساتھ دیکر کامیاب کرانا اور پھر ملکی قومی و مذہبی اور مسلمانوں سے مربوط بین الاقوامی مسائل میں بے تفاوت اور خاموش نہ رہنا، فکری تربیت یافتہ طلبہ تنظیموں کا وجود اور ان کی تربیتی فعالیت یہ سب کے سب دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں خلق کئے جانے والے اہل بلتستان کے چند خوبصورت اور تاریخی نقوش ہیں۔
دین محوری میں اہل بلتستان کا یہ تاریخی کردار، دینی تفکر میں ترقی، فکری ھماھنگی اور وحدت کی علامت ہے۔
یہیں وجہ ہے کہ اس خطے کے لوگوں میں بڑھتی ہوی دینی فکری طاقت کو کمزور کر نے کے لئے گذشتہ کئی سالوں سے کچھ مخفی ہاتھ اور نا محسوس طاقتیں بلتستان میں سرگرم ہیں عوام کے دینی افکار اور اقدار کو منحرف کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یہاں کے لوگوں کو مذھبی قائدین اور دینی رہنماوں سے بد ظن کرنے، دینی مراکز سے دور کرنے اور دینی اقدار کے تقدس کو ان سے چھین نے کی بڑی کوششیں جاری ہیں۔ اور دوسری طرف سے باطل افکار اور ادیان ظاہر ہونے شروع ہوگئے ہیں اور مستقبل قریب میں شیطانی فرقوں کی طرف سے بھی اظہار وجود کرنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
بلتستان میں نو ظہور باطل افکار اور ادیان کے پیچھے ظاہرا درج ذیل عوامل یا اسباب کار فرما نظر آتے ہیں۔
کافی عرصے سے بلتستان میں بین الاقوامی این جی اوز مختلف شعبوں اور میدانوں میں فعال ہیں، یہ این جی اوز اگر چہ ایک خاص شعبے میں ظاہرا کچھ خاص اور غیر نقصان دہ اہداف کے لئے فعالیت دکھا تے ہیں اور وہ اپنے پوشیدہ اہداف کو کسی بھی صورت بیان نہیں کرتے ہیں اور عوام و خواص بھی ان نا محسوس اہداف کی طرف متوجہ نہیں ہیں، لیکن فعالیت کے دوران وہ اپنے کارندوں کے زریعے ظاہری مادی اہداف کے آڑ میں نامحسوس اہداف پر بھی کام کرتے ہیں اصل میں ان کا مالی سرمایہ ان نامحسوس اہداف کے حصول کے لئے ہی خرچ ہوتاہے، وہ اپنے مادی سرمائے کے لفافے میں اپنے افکار اور دینی اقدار کے مخالف افکار اور روئیوں کو بھی ترویج دیتے ہیں جس سے اہل بلتستان کی اکثریت بے خبر ہے۔
2۔ بے خاصیت دانشوروں اور تعلیم یافتہ افرادکا کردار:
معاشرے میں ایک گروہ دانشور یا تعلیم یافتہ کے نام سے معروف ہوجاتے ہیں، ان دانشوروں کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو الہی مکتب کے سائے میں تربیت نہیں پاتے ہیں بلکہ یونیورسٹیز میں مغربی منحرف مکاتب اور دانشوروں کے افکار اور نظریات کو پڑھتے ہیں جس کی وجہ سے یا ان سے متاثر ہوتے ہیں یا ان سے مربوط کمپنیز اور اداروں کی طرف سے مامور ہوتے ہیں اور ان کے فاسد افکار اور نظریات کو اسلامی معاشرے میں نا محسوس طریقے سے پھلانے کے لئے اپنی دانش اور عنوان سے سوء استفادہ کرتے ہیں اور غیر دینی نظریات اور افکار کو مخاطب کے دل و دماغ میں خوبصورت جلوہ دیتے ہیں اور دوسری طرف سے دین اسلام کی تعلیمات کو انسان کی آزادی اور پیشرفت کے لئے مانع جلوہ دیتے ہیں اور نوجوانوں کو دین اسلام اور اس کی تعلیمات سے بدظن کرانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
گذشتہ دو دہائیوں سے بلتستان میں ایسے سکولوں اور کالجوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور ان سارے سکولوں میں جو سلیبس پڑھایا جارہاہے وہ عموما آکسفورڈ کا تیار شدہ ہوتاہے اور اآکسفورڈ نے یہ نصاب اپنی فکری بنیادوں پر بنایا ہے یعنی انسان بدون دین و مذہب ( لبرل اور سکیولر نظریات ) کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے ان سارے سکولوں میں مقابلے کی بنیاد پر سرمایہ حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ بچوں اور ان کے والدین کو جذب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ سکولز مالکان کے لئے تجارت کا ایک زریعہ ہے ان کے لئے نظریات اور افکار مہم نہیں ہیں بلکہ مادی سرمایہ مہم ہے اور ان سکولوں میں پڑھانے والے ٹیچرز بھی ایسے سکولوں کے پڑھے ہوے ہوتے ہیں ان کوئی دینی فکری تربیت نہیں ہوتی ہے اور بچوں کے لئے دینی تفکر کو پروان چڑانے کے لئے کوئی پروگرام نہیں ہوتا ہے بس بچوں کے زہن میں صرف غیر دینی خشک نظریات، افکار اور معلومات منتقل کرتے جاتے ہیں اور دینی تربیت کا فقدان ہے اور بتایا جاتا ہے کہ بعض سکولوں میں تو دینی عمل دخل سے خالی مغربی معاشرے کی زندگی کو آئڈیل زندکی کے طور پر بطور مثال بچوں کے زہن میں منتقل کیا جاتا ہے ان سکولوں میں دینی شخصیات یا مکتب الہی کے زیر سایہ تربیت یافتہ کامیاب زندگی کو بطور نمونہ پیش نہیں کیا جاتا ہے۔
4۔ سکیولر سیاست دانوں کا کردار:
اس خطے میں دین کی تخریب میں سکیولر پارٹیوں اور سیاست دانوں کا کردار بھی کم نہیں ہے عموما ایسے سیاست دان جو دینی کسی اقدار اور احکام کا خیال نہیں رکھتے ہیں ان کو سیاسی میدان دینے اور ان کو نوجوانوں کے لئے آئڈیل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ سیاست دان بھی ووٹ کے حصول کے لئے ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے ووٹر خوش ہو جائے اور کبھی کبھی یہ لوگ دین اور دینداروں کو برا بھلا بھی کہتے ہیں اور دین و سیاست میں جدائی کا نعرہ لگاکر لوگوں کو دین اسلام سے دورکرنے کی کوشش کرتے ہیں، دین مخالف قوتوں کی جانب سے ایسے سیاست دانوں کو خطے پر مسلط کرنے کے لئے سرمایہ خرچ ہوتاہے۔
یہ گروہ جیسا کہ عنوان سے ہی معلوم ہے ان کی فعالیتوں کا ہم و غم قوم ہے اپنی خاص خصوصیات کے ساتھ اور تمام تر افکار اور فعالیت کی کسوٹی قوم پرستی ہے اور قوم پرستی سے ہٹ کر سوچتے ہی نہیں ہیں قوم پرستوں کے ہاں دین اور دینی اقدار و احکام کی اہمیت اتنی نہیں ہے جتنی اہمیت وہ علاقائی قومی اطوار اور تہواروں کو دیتے ہیں۔ کیوں کہ دین اور دینی افکار، احکام، اور اقدار کو وہ اپنی خود نمائی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں قوم پرست گروہ کا خیال ہے کہ دین قوم کی مادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے لہذا کسی بھی قوم کی مادی ترقی کا راز دین کی قید و بند سے دوری میں ہے اسی لئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ معاشرے میں دینی اثر و رسوخ کم ہو اور قوم دینی قیدو بند سے نکل کر ترقی کے لئے کام کرے اسی میں ان کی ترقی اور نجات ہے ، اسی لئے وہ دینی مراسم کی بجای قومی تہوار کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اگر چہ یہ گروہ ہر دین میں ظاہرا اسی دین کے مان نے والے ہوتے ہیں لیکن عملی میدان میں وہ دین کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ اگر کہیں آیڈیل زندگی کی مثال پیش کرتے ہیں تو معمولا مغربی بے دین معاشرے کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ قوم پرست گروہ بھی ایسے خیالات کے زریعے نوجوانوں کے ازہان میں دین کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں۔
دنیا کے کسی بھی خطے میں سیاحت کے بھی مثبت اور منفی اثرات ہوتے ہیں بلتستان بھی سیاحتی خطہ ہے جہاں دنیا بھر سے سالانہ ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں اور یہ سیاح علاقے کے لئے مادی فوائد کے ساتھ ساتھ فکری ، ثقافتی اور عقیدتی اثرات چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور بعض اوقات یہاں کے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ گفتگو میں ان کے زھن میں شکوک و شبہات بھی ڈال کر چلے جاتے ہیں بلکہ ممکن ہے سیاح کے روپ میں سائکلوجیل ماہرین و مبلغین بھی آتے ہوں ، ویسے بھی اس علاقے کے لوگ پہلے سے ہی احساس محرومی اور کمتری کا شکار ہیں اور کسی بھی معاشرے کی ایسی نفسیاتی حالت کو، بیگانہ افکار اور نظریات کو پروان چڑانے کے لئے بہترین زمینہ شمار کیا جاتاہے ۔
دنیا میں جدید ٹیکنالوجی اور اس کی عام زندگی میں کارآمدی اور عمل دخل نے انسانی زندگی میں انقلاب بپا کیا ہے اور لوگوں کے نفسیات، افکار اور طرز زندگی پر انگنت اثرات چھوڑے ہیں، آج ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل ہے اور ہر کسی کے ساتھ اطلاعات اور افکار کا تبالہ ہوتاہے ، سوشل میڈیا میں بے دین لوگوں کی زندگی کو خوش حال زندگی اور شیطانی اعمال کو زینت دیکر خوبصورت دکھائے جاتے ہیں یعنی دین گریزی سے قباحت ختم کی جاتی ہے اور انسانیت کو بہترین دین کے طور پر پیش کیا جاتاہے اور انسانیت کا معیار بھی خود ہی معین کرتے ہیں۔ دوسری طرف سے الہی دین کو پیشرفت اور ہر قسم کی آزادی کے لئے مانع کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
مذکورہ سارے عوامل کی موجودگی میں یقینی بات ہے کہ جوانوں اور نوجوانوں کے زہن میں دین اسلام کی کار آمدگی اور کامل ترین دین ہونے کے حوالے سے سوالات اٹھتے ہیں یا شکوک و شبہات پیدا کئے جاتے ہیں تو علماء دین کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں تاکہ جواب حاصل کریں اکثر مواقع میں علما دین درست، اطمئنان بخش اور علمی و منطقی جواب نہیں دے پاتے ہیں اور سوال کرنے والے کے زھن میں شبھہ یا شک کما فی السابق باقی رہتا ہے اور اس کی تشنگی ختم نہیں ہوتی ہے ، کیوں کہ علماء ہر جہت سے علمی توانائی نہیں رکھتے ہیں تو توجیہ کرنے یا قرآن کی آیت یا روایت کا حوالہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ ان میں اکثریت کا علمی دائرہ یہیں ہے۔ جبکہ شبھہ عقلی ، مغربی فلسفی، انسانی یا سائنسی ہوتا ہے اور سوال کرنے والے کے لئے عالم کا جواب بھی عقلی، انسانی اور سائنسی بنیادوں پر ہوناچاہئے۔
خصوصا جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جدید فکری اور فلسفی مکاتب اور نظریات وجود میں آئے ہیں ان کے انسان اور انسان کی سعادت و کامیابی کے بارے میں عجیب و غریب اور شیطانی افکار اور نظریات ہیں یہ افکار اور نظریات انگلش کتابوں اور سوشل میڈیا میں آج کل کے نوجوان مطالعہ کرتے ہیں اور علما ان مسائل سے بے خبر ہیں کیوں کہ ایسے افکار اور نظریات کے حامل افراد کے ساتھ رابطہ نہیں ہے تو وہ ان نظریات پر مطالعہ بھی نہیں کرتے ہیں جس کے نتیجے میں تسلی بخش جواب دینے سے بھی قاصر رہتے ہیں جس کی وجہ سے نوجوانوں میں دین کے متعلق تشویش، سر گردانی اور مایوسی پھیل جاتی ہے۔
یہ سارے عوامل ملکر سبب بن گئے ہیں کہ بلتستان میں باطل افکار اور ادیان کا ظہور ہونے لگا ہے۔
نو ظہور باطل ادیان اور فرقوں کے اظہار وجود کے لئے اسٹریٹجی
گذشتہ سال عیسائیوں کے چرچ کی موجود گی کی خبر، کسی ہوٹل کی دیوار پر بت کے مجسمے کو نصب کرنے کی تصویر یا Atheists اور Humanists کی موجودگی کی خبروں کی گردش کرنا یہ سب اتفاقی نہیں ہے بلکہ شیطانی طاقتوں نے بلتستان کے مستقبل کے لئے کچھ اور نقشہ تیار کیا ہے جس سے ہم بے خبر ہیں۔
بلتستان میں یہ سب کچھ ایک خاص اسٹڑیٹجی کے تحت ہو رہا ہے اور اس اسٹڑیٹجی کو گڈشتہ سال کریسمس کے موقع پر خوبصورت انداز سے بروی کار لائی گئی ہے تاکہ عیسایت اس علاقے میں آزادانہ طریقے سے فعالیت کر سکے۔
کسی بھی گروہ کو کسی بھی معاشرے میں فعالیت کرنے کے لئے دو اہم بنیادی چیزوں کا حصول بہت ضروری ہے ان دو اہم عناصر میں سے ایک معاشرے میں رسمیت اور دوسرا قانونی تحفظ کا حصول ہے وگرنہ فعالیت محدودیت اور موانع کا شکار ہو جاتی ہے۔
سنہ 2022 کے آغاز میں کریسمس کے موقع پر پہلے سے طے شدہ اسٹریٹجی کے تحت بلتستان کے انتظامی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور علاقے کے سیاسی و مذہبی رہنماوں سے تازہ دریافت ہونے والے چرچ کا دورہ کرایا گیا اور مبارکبادی دیکر عیسائیوں کو آزادانہ فعالیت کا موقع فراہم کیا گیا۔
بلتستان کے بعض سیاسی اور بعض مذہبی نامور شخصیات نے چرچ کا دورہ کر کے تصاویر سوشل میڈیا میں وائرل کیااور اس اقدام کے زریعے باطل دین (عیسائیت) کو بلتستان کے خالص اسلامی معاشرے میں غیر شعوری طور پر رسمیت بخشی، اور دوسری طرف سے بعض قانونی و انتظامی اداروں کے افسران نے بھی چرچ کا دورہ کر کے تصاویر سوشل میڈیا میں وائرل کیا اور یوں قانونی تحفظ کا بھی پیغام دیا گیا۔ اس نادانستہ معاشرتی رسمیت اور قانونی تحفظ کے نتیجے میں عیسائیوں نے اس سال کریسمس کی مناسبت سے سکردو میں آزادانہ ریلی نکالی اگر چہ تعداد میں بہت ہی کم تھے لیکن یہ ان کے لئے کامیابی تھی اور ہم ان نو ظہور ادیان اور فرقوں کے متعلق تماشائی ہی بنے ہوے ہیں، اس سال کی عیسائیوں کی ریلی بلتستان کے مستقبل کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے اب اس صورت حال کے بعد ممکن ہے کہ دیگر پوشیدہ باطل فرقوں جیسے Atheists یا بودیسم کے اظہار وجود کے لئے بھی مستقبل میں ایسی ہی اسٹریٹجی اپنائی جائے اور رفتہ رفتہ ایسے منحرف اور باطل گروہوں کے وجود سے بلتستان کے معاشرے میں قباحت ختم کیا جائے، ان کو معاشرے میں رسمیت اور تحفظ دیا جائے ۔
ان حالات سے ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں بلتستان کو خالص اسلامی خطے کی جگہ مختلف ادیان اور مختلف نظریات اور مختلف تہذیبوں کا حامل خطے میں تبدیل کرنے کا نقشہ تیار کیا گیا ہے تاکہ استکباری قوتوں کے لئے مستقبل میں اس خطے سے کوئی خطرہ باقی نہ رہے اور بغیر کسی مزاحمت کے اپنے ایجنڈے پر آسودہ خاطر ہوکر کام کرسکیں۔
(فاعتبروا یا اولی الابصار)
2 Responses
ماشاءاللہ بہترین بہت عمدہ تحریر ہے ایسی تحریر جو عصر حاضر کے جوانوں میں شعور اور بیداری پیدا کرنے والی تحریر البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جو علماء سیاست میں مصروف عمل ہیں ان کی کردار کشی کرنے سے گریز کیا جائے اور علماء کو اپنا پورا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے البتہ یہ تحریریں اور تقریریں اس وقت تک کارآمد نہیں جب تک ان پر عملی مظاہرہ نہیں کیا جائے سوچنے کی بات ہے کہ بچپن انسان کی عمر کا وہ دورانیہ ہے جس میں بچوں کی اچھی تربیت کی جاسکتی ہے لیکن گلگت بلتستان میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں شعور اور آگاہی کے لئے ضروری ہے کہ بچپن سے ہی وہ ماحول فراہم کیا جائے جو ایک بچے کے اندر شعور کو بڑھائے
زبردست حقایق پر مبنی تحریر