تحریر: سجاد حسین آہیر
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بقیع جسے جنت البقیع کہا جاتا ہے آغاز سے ہی ویران تھا یا کسی کے ظلم کا نتیجہ ہے؟۔ بقیع کے بارے میں تاریخ کیا کہتی ہے؟
بقیع حرم نبوی ﷺ کے بعد مدینہ کا اہم ترین اور افضل ترین مقام ہے۔ بقیع کا قبرستان سب سے پہلا وہ قبرستان ہے جو رسول اسلام ﷺ کے حکم سے مسلمانوں کے ذریعے تاسیس کیا گیا۔ بقیع کی اہمیت اور فضیلت میں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا: ’’بقیع سے ستر ھزار لوگ محشور ہوں گے کہ جن کے چہرے چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے‘‘۔قبرستان بقیع، اسلام کے قدیمی ترین اور ابتدائی ترین آثار میں سے ہے۔ بقیع اولاد رسولﷺ کا مدفن ہے۔ بقیع بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مدفن ہے۔ بقیع چار آئمہ معصومین؛ امام حسن ؑ، امام سجادؑ، امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کا مدفن ہے۔ ان چار آئمہ معصومین ؑ کی شخصیات کو بیان کرنا ہمارے بس سے باہر ہے چونکہ ان کا مقام اتنا بلند اور بالا ہے کہ غیر معصوم ان کے مقام کا ادراک کرنےسے عاجز ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام ان چار آئمہ میں سے ایک ہیں جو بقیع میں مدفون ہیں۔ اہلسنت کے پہلے درجہ کے عالم دین ’’مسلم‘‘ نے اپنی کتاب صحیح مسلم کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر ۱۵ پر جابر بن یزید جعفی سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جابر کہتے ہیں: عندي سبعون الف حديث عن ابي جعفر عن النبي كلها صحيح ۔
“میرے سینے میں امام محمد باقرؑ سے مروی ستر ہزار حدیثیں ہیں جو ساری کی ساری صحیح ہیں” یہ نکتہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہمارے آئمہ معصومینؑ خصوصا امام محمد باقرؑ تعلیمات نبوی ﷺ کی نشر و اشاعت میں کس مقام پر فائز ہیں!۔ ان مطالب کا بیان کرنا ممکن ہے آسان دکھائی دے لیکن یہ خارق العادہ کام ہے کہ ایک اکیلا شخص ستر ہزار روایتیں رسول اسلامﷺ سے نقل کرتا ہے۔اسی طرح بقیع میں مدفون آئمہ میں سے ایک، امام جعفر صادق ؑ ہیں۔ انسان ان عظیم کارناموں کو بیان کرنے سے قاصر ہے جو امام صادق علیہ السلام نے اس گھٹن کے ماحول میں انجام دئیے۔ یہاں پر صرف شیخ مفیدؒ کا ایک نکتہ نقل کیا جا رہا ہےجو انہوں نے اپنی کتاب ’’الارشاد‘‘ میں لکھا ہے۔ انہوں نے امام صادق علیہ السلام سے جن راویوں نے روایتیں نقل کی ہیں ان کی تعداد ۴۰۰۰ بیان کی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ۱۴۰۰ سال پہلے بنی امیہ اور بنی عباس کی پابندیوں کے باوجود امام صادق علیہ السلام نے ایک ایسا حوزہ علمیہ تاسیس کیا کہ جس میں ۴۰۰۰ شاگرد زیر تعلیم تھے۔ آج اتنی ترقی و پیشرفت اور ہر طرح کے وسائل فراہم ہونے کے باوجود ہمارے تمام حوزہ ہائےعلمیہ امام باقر اور امام صادق علیہما السلام کے حوزہ علمیہ کے سامنے کم مایہ ہیں۔امام حسن مجتبیٰ اور امام سجاد علیہما السلام کی شخصیات بھی تمام مسلمانوں کے نزدیک جانی پہچانی ہیں انہیں پہچنوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بقیع پیغمبراکرمﷺ جلیل القدر صحابہ کا مدفن ہے۔ بقیع حضرت ام البنین (س) کا مدفن ہے۔ بقیع رسول اسلامﷺ کی دایہ جناب حلیمہ(س) کا مدفن ہے۔ بقیع بہت ساری عظیم ہستیوں کا مدفن ہے کہ جن کے ناموں کو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
اس وقت بقیع میں تمام قبریں بغیر نام و نشان کے ہیں ۔ لیکن پرانی تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ بقیع میں ان قبور پر گنبد اور مقبرے بنے ہوئے تھے۔ٓآئمہ معصومینؑ اور بہت سارے صحابہ کی قبروں پر مقبرے بنے ہوئے تھے۔ بقیع میں مدفون آئمہ معصومینؑ کی قبروں پر سب سے پہلے بنائے گئے روضے کی تاریخ دقیق معلوم نہیں ہے۔ لیکن مجموعی طور پر قرآئن بتاتے ہیں کہ پانچویں صدی ہجری کے بعد بقیع کی قبور پر روضہ بنا ہوا تھا۔ یعنی ’’مجد الملک‘‘ کے زمانے میں ،جو ۴۹۲ ہجری میں قتل کیے گئے اور ذہبی انہیں ایک عظیم انسان کے عنوان سے یاد کرتے ہیں ،یہ روضہ تعمیر تھا۔اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ بقیع کا معمار، مجد الملک کے دور میں ہی قتل کر دیا گیا یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ بقیع میں آئمہ معصومینؑ کی قبروں پر روضہ پانچویں صدی ہجری میں تعمیر کیا گیا ہو گا۔
اس سلسلے میں بہت ساری اسناد موجود ہیں۔ مثال کے طور پراہلسنت کی تواریخ میں آیا ہے کہ سن ۵۱۹ ھ میں عباسی خلیفہ المسترشد باللہ نے آئمہ بقیع کی قبور پر روضہ اور گنبد کی تعمیر نو کروائی۔ یعنی پہلے سے ان قبروں پر ایک گنبد بنا ہوا تھا جس کی سن ۵۱۹ ھ میں دوبارہ تعمیر کروائی گئی۔ بنابرایں، کلیدی نکتہ یہ ہے کہ اس دور کے اہلسنت نہ صرف آئمہ اطہارؑ کی قبروں پر روضے بنانے کے مخالف نہیں تھے بلکہ خود تعمیر کرتے تھے۔ اہلسنت کے بزرگ علماء کی کتابوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بارگاہ بقیع ہزار سال پرانی تاریخ کی حامل ہے اور اس ہزار سال میں کسی بھی مسلمان نے یہ نہیں کہا کہ یہ شرک اور بدعت ہے اور اسے منہدم کر دینا چاہیے۔
اس عظیم بارگاہ کی خصوصیات کے بارے میں تاریخی اسناد و مدارک میں اسلامی آثار اور مقدس مقامات کی خصوصیات درج ہیں۔ یعنی مورخین نے روضوں کے گنبدوں کی اونچائی اور چوڑائی کو بھی نقل کیا ہے۔ عمارتوں کی شکل وصورت کی بھی منظر کشی کی ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ بقیع میں تعمیر شدہ روضہ آٹھ ضلعی تھا۔ جیسے امام حسین ؑ کا روضہ چھ ضلعی ہے۔
آئمہ اطہارؑ کے علاوہ بقیع میں مدفن دوسری شخصیات کی قبروں پر بھی مقبرے بنے ہوئے تھے مدینہ کے ایک مورخ علی بن موسی اس سلسلے میں لکھتے ہیں “و قبة آل البیت العظام و هی أکبر القباة…”؛ یعنی آئمہ اطہارؑ کا روضہ بقیع میں موجود دیگر تمام مقبروں سے بڑا تھا۔اس سے زیادہ اہم بات ابراہیم رفعت پاشا کی ہے کہ جس نے اس روضے کے انہدام سے ۱۹ سال پہلے اس کی تعریف میں یوں لکھا: ’’بقیع میں موجود تمام مقبروں سے بڑا مقبرہ آئمہ اطہار ؑکا تھا‘‘۔
ان دو شخصیات کی باتوں سے دو نتیجے سامنے آتے ہیں:
پہلا کہ آئمہ اطہارؑ کی قبور ہمیشہ سے مسلمانوں کے نزدیک قابل احترام تھیں اورعلمائے اہلسنت میں سے کسی نے بھی ان کے بدعت ہونے کا فتویٰ نہیں دیا۔ یہ خود ایک بہترین دلیل ہے اس بات پر کہ سو سال پہلے جو وہابیوں نے روضہ بقیع کو مسمار کیا ان کا یہ اقدام پورے عالم اسلام کے عقائد کے خلاف تھا۔
دوسرا جس طرح اس دور میں آئمہ اطہارؑ کی قبروں پر روضہ تعمیر کیا جاتا تھا دیگر اسلامی شخصیات کی قبروں پر بھی مقبرے تعمیر کئے جاتے تھے۔یہ مذکورہ علماء اور مورخین میں سے کوئی بھی شیعہ نہیں ہے۔ یہ سب اہلسنت کے علماء اور بزرگان میں سے ہیں۔ لہذا اہلسنت والجماعت جان لیں کہ یہ غیر معمولی حالت جو اس وقت آئمہ بقیع کی قبور اور بقیع میں مدفون دیگر شخصیات کی قبروں کی ہے طول تاریخ میں کسی بھی سلف صالح اور بزرگان کی سیرت سے میل نہیں کھاتی ہے۔ چوتھی صدی سے لے کر تیرہویں صدی ہجری تک ان قبور پر مقبرے بنے رہے اور ان چیزوں کو اسلامی شعائر اور عبادی امور میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایک وہابی تکفیری گروہ سامنے آیا اور اس نے ۱۳۴۴ میں اس گنبد کو مسمار کر دیا اور بارگاہ بقیع کو مٹا دیا۔