جولائی 20, 2025

تحریر: عرفان صدیقی

معاشی پالیسیوں کی دنیا میں، پاکستان کی حالیہ تاریخ کا ایک دلچسپ باب وہ ہے جو عمران خان اور شہباز شریف کی معاشی قیادت سے وابستہ ہے۔ ان دونوں رہنماؤں نے الگ الگ انداز، نیت اور حکمت عملی کے ساتھ ملک کی معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کی —مگر نتائج بہت مختلف نکلے۔

2018 میں جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا، تو قوم ایک’نئے پاکستان‘کے خواب میں مبتلا تھی۔ عمران خان کی زبان پر تبدیلی کا نعرہ، ہاتھ میں کرپشن کیخلاف علم اور آنکھوں میں معاشی خودمختاری کا خواب تھا۔ خان صاحب کی سب سے بڑی معاشی غلطی یہ تھی کہ انہوں نےروپے کو مصنوعی طور پر’آزاد‘کر دیا ۔ ڈالر جو نواز شریف کے دور میں 123روپے پر تھا، 190کے ہندسے کو چھونے لگا۔ اس فیصلے نے مہنگائی کی چنگاری کو شعلہ بنا دیا۔

درآمدات مہنگی ہو گئیں، صنعتوں کی لاگت بڑھ گئی، اور عوامی جیب مزید خالی ہونے لگی۔دوسری بڑی لغزش آئی ایم ایف سے وہ معاہدہ تھا جو کیا بھی گیا اور پھر توڑ بھی دیا گیا۔ 2019میں سخت شرائط پر IMF سے پروگرام سائن کیا، جس میں بجلی گیس مہنگی کرنے، سبسڈیز ختم کرنے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ لیکن سیاسی دباؤ یا عوامی ناپسندیدگی کے خوف سے خان صاحب نے 2021میں اچانک پٹرول پر سبسڈی بحال کر دی، جس سے IMF ناراض ہو گیا اور پروگرام معطل ہو گیا۔

یوں ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر جا پہنچا۔اسی دوران، شہباز شریف منظر پر آئے۔ شہباز شریف کی قیادت میں حکومت نے وہ مشکل فیصلے کیے جو عمران خان سے نہ ہو سکے۔ سب سے پہلے انہوں نے IMF کے ساتھ اعتماد کی بحالی کا عمل شروع کیا۔ مہنگے مگر ضروری فیصلے کیے، جیسے پٹرولیم سبسڈی کا خاتمہ، بجلی کے نرخوں میں ایڈجسٹمنٹ، اور Mini Budget کے ذریعے درآمدات پر ٹیکس میں اضافہ۔ ان فیصلوں کے بعد IMF نے پاکستان کیلئے رکی ہوئی قسط بحال کی، اور ساتھ ہی چین، سعودی عرب اور UAE جیسے دوست ممالک نے بھی پاکستان کی مالی مدد پر آمادگی ظاہر کی۔

شہباز شریف نے صرف IMF پر انحصار نہیں کیا بلکہ عالمی سطح پر سفارت کاری کو بھی متحرک کیا۔ چین سے تقریباً پانچ ارب ڈالر کے قرضے رول اوور کرائے، سعودی عرب اور یو اے ای نے اسٹیٹ بینک میں ڈپازٹس رکھوائے، جس سے زرِمبادلہ کے ذخائر 3 ارب سے بڑھ کر 8ارب ڈالر تک آ گئے۔ایک اور فیصلہ جس نے شہباز شریف کو عوام کے دلوں میں جگہ دی، وہ تھا سماجی ریلیف پیکیجز کا اجرا۔ رمضان المبارک کے مہینے میںسستی اشیاء فراہم کی گئیں، اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں اضافہ کر کے غریب عوام کو کچھ سہارا دیا گیا۔ پالیسی ریٹ، مانیٹری پالیسی، اور کرنسی ریفارمز کے میدان میں بھی شہباز شریف کی حکومت نے نمایاں کارکردگی دکھائی۔ اسٹیٹ بینک کو نیم خودمختار بنایا گیا، اوپن مارکیٹ اور انٹربینک ریٹس میں فرق کم کیا گیا، جس سے ڈالر کی اسمگلنگ اور ہنڈی حوالہ کے بازار پر جزوی قابو پایا گیا۔

IMF کے مطابق یہ وہ اقدامات تھے جنہوں نے پاکستان کی معاشی ساکھ کو دوبارہ زندہ کیا۔ یہاں ایک اور اہم کامیابی کا ذکر لازم ہے فیٹف کی گرے لسٹ سے پاکستان کا اخراج۔ یاد رہے، پاکستان کو 2018میں FATF کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا نتیجتاً بین الاقوامی مالی اداروں، بینکنگ چینلز اور سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد مجروح ہوتا رہا۔ شہباز شریف حکومت نے برسرِ اقتدار آتے ہی FATF کے نکات پر عملدرآمد کو اولین ترجیح دی۔ نیکٹا، ایف آئی اے، ایف بی آر، اور وزارتِ خزانہ نے مل کر قوانین میں تبدیلی کی، ٹیرر فنانسنگ اور منی لانڈرنگ کے خلاف سخت اقدامات کیے، اور بالآخر اکتوبر 2022میں پاکستان کو FATF کی گرے لسٹ سے باضابطہ طور پر نکال دیا گیا۔

یہ فیصلہ عالمی سطح پر پاکستان کی قانونی، معاشی اور سفارتی فتح تھا، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں، مالیاتی اداروں اور ڈونر ایجنسیوں کا اعتماد بحال ہوا۔یہ کہنا بجا ہو گا کہ شہباز شریف کا انداز عمران خان کے برعکس تھا: کم وعدے، زیادہ عمل۔کم تقریر، زیادہ فائل ورک۔ کم پاپولر فیصلے، زیادہ ریاستی مفاد۔ شہباز شریف نے اپنی سیاسی ساکھ دائوپر لگا کر معیشت کو ایک بار پھر سانس لینے کے قابل بنایا۔ یہ درست ہے کہ شہباز شریف کے دور میں مہنگائی ضرور بڑھی، لیکن یہ مہنگائی ان معاشی پالیسیوں کی قیمت تھی جنہیں اگر بروقت نافذ نہ کیا جاتا تو آج پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہوتا۔

آخر میں اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ عمران خان اور شہباز شریف کی معاشی کارکردگی میں فرق کیا تھا، تو میں یہی کہوں گا:ایک نے خواب بیچے، دوسرے نے جاگ کر وہ خواب بچائے۔

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔

https://whatsapp.com/channel/0029VaAOn2QFXUuXepco722Q

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

two × 1 =