جون 6, 2025

تحریر: سید اعجاز اصغر 

جنگ صفین میں  فرار کرنے والے جب واپس آگئے تو امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے اس پیش بندی کے خیال سے کہ یہ اقدام دوبارہ نہ ہو، ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تمہاری چابکدستی و  دلاوری بھی ملاحظہ کی اور دیگر سپاہیوں کی صفوں سے تمہیں سرتابی کرتے ہوئے بھی دیکھا، اہل شام تو جفا کار، پست فطرت، اور صحرا نشین بدو ہیں، مگر افسوس انہوں نے تمہیں راہ فرار دکھا دی، جب کہ تم شائستہ و لائق، برگزیدہ اور سر بر آوردہ عرب ہو ، جو رات کی تاریکیوں میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے، لوگ گمراہی میں بھٹک رہے تھے تم حق کی جانب آنے کے دعوت دے رہے تھے، اگر تم فرار کرنے کے بعد واپس نہ آگئے ہوتے تو وہ سخت سزا تمہارے گریبان گیر ہوتی جو خداوندمتعال نے مفرورین کے لئے مقرر کی ہے، یہ جان لو کہ جو شخص راہ فرار کرتا ہے وہ خدا کے غضب کو برانگیختہ کرتا ہے، اور خود کو ہلاکت کی جانب لے جاتا ہے، اور وہ اس پستی و مذلت کی طرف چلا جاتا ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہے  وہ اس کے ذریعے اپنے لئے ابدی ننگ و رسوائی اور بد بختی کے سامان مہیا کرتا ہے، جو شخص فرار کرتا ہے نہ اس کی عمر میں اضافہ ہوتا ہے نہ ہی اسے خدا تعالی کی رضا ء و خوشنودی حاصل ہوتی ہے، اس بنا پر ان مذموم صفات کو حاصل کرنے سے موت کہیں زیادہ گوارا ہے،

جاری ہے……………………………..

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

five × 3 =